Mashriqi Bangal Ke Aaine Mein Aaj Ka Pakistan
مشرقی بنگال کے آئینے میں آج کا پاکستان

مجھ سے ایک دوست نے سوال کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو، ان کی جماعت کی سنٹرل کمیٹی اور مولانا مودودی اور ان کی جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے مشرقی بنگال فوجی آپریشن کو کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟
میں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے اراکین کی اکثریت مرکز کے اختیارات میں کافی حد تک کمی چاہتی تھی لیکن وہ ایک طرف تو ٹیکسشن اور ریونیو کے معاملات کو مکمل طور پر صوبوں کو منتقل کرنے کے خلاف تھے۔ دوسری طرف وہ کرنسی اور فوج کے دو مرکز بنانے کے خلاف تھے۔ تیسرا وہ مشرقی بنگال اور مغربی پاکستان کے الگ الگ زرمبادلہ کے اکاونٹس بنانے کے خلاف تھے۔ لیکن وہ مشرقی بنگال کی اکثریتی جماعت کے سیاسی بیانیے کے مقابل سیاسی بیانیہ پیش کر رہے تھے۔
نومبر کے آخری ہفتے میں ان کی کتاب گریٹ ٹریجڈی چھپ کر آئی جس میں انھوں نے صاف صاف لکھا کہ وہ مشرقی بنگال میں عوامی لیگ کی جانب فوجی جنتا کی طرف سے دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی کرنے کے اعلان پر اعلان آزادی کرنے اور مسلح بغاوت کرنے کے خلاف فوجی آپریشن کے حامی تھے لیکن ان کی اس حمایت کا مطلب مشرقی بنگال میں بنگالی نسل کشی، انسانی حقوق کی پامالی کی چھٹی فوج کو دینا نہیں تھا۔
انہوں نے لاہور میں اپنی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں جب یہ تجویز پیش ہوئی کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو مشرقی بنگال میں فوجی ایکشن کے خلاف عوامی تحریک چلانی چاہیے تو انہوں نے اپنی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کو خبردار کیا کہ پاکستان پیپلزپارٹی ایک نو زائیدہ سیاسی جماعت ہے۔ اگر اس نے کوئی احتجاجی تحریک چلائی تو پاکستان کی فوجی جنتا دائیں بازو کی سیاسی اور مذھبی جماعتوں کے ساتھ مل کر اس کے خلاف بھی وہی ایکشن کرے گی جو وہ مشرقی بنگال میں کر رہی ہے اور پیپلزپارٹی کی تنظیمی صلاحیت ایسی نہیں ہے کہ وہ ریاست کے فوجی ایکشن کے خلاف لڑ سکے۔ یہ دو بدمست ہاتھیوں کی لڑائی ہے اس لڑائی میں پس جانے سے پی پی پی کو بچانا چاہئیے۔
دوسری طرف جماعت اسلامی پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی لیگ دونوں کو اپنا سخت دشمن سمجھتی تھی۔ دونوں جماعتیں اس کے بانی کے نزدیک دھریوں، کافروں اور طاغوت کی نمائندہ اسلام دشمن جماعتیں تھیں۔ جماعت اسلامی پہلے دن سے یحیی خان کے ساتھ تھی اور اس نے اس مارشل لاء رجیم سے مالی امداد بھی لی تھی۔ یہ فوج، سرمایہ دار، جاگیردار اور دائیں بازو کے حامی درمیانے تاجروں، دکانداروں اور درمیانے کسانوں کی مدد سے بھٹو اور شیخ مجیب سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ اس کی نظر میں بھٹو ہٹلر اور شیخ مجیب مسولینی تھے۔ یہ شیخ مجیب کی بنگالی سوشلسٹ قوم پرستی اور بھٹو کی پاکستانی سوشلسٹ قوم پرستی کی شدید دشمن تھی۔
اس نے نہ صرف 23 مارچ کو شروع ہونے والے مشرقی بنگال میں فوجی آپریشن کی حمایت کی بلکہ اس نے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلباء کے نوجوانوں پاکستانی فوج کے قائم کردہ مسلح تربیتی کیمپ میں مسلح تربیت دلوائی اور البدر کے نام سے پاکستانی فوج کے مسلح آلہ کار لشکر بھی ترتیب دیا جس نے مشرقی بنگال میں عوامی لیگ سمیت ہر اس جماعت اور تنظیم کے کارکنوں، دانشوروں، طالب علموں اور مزدوروں کے قتل، اغواء، جاسوسی اور عورتوں کے ریپ میں بھی حصہ لیا۔ اس نے پہلے دن سے مشرقی بنگال کی ہندو اور دلت آبادی کو بھارت کے ایجنٹ ڈیکلئیر کر رکھا تھا اور یہ 1949ء سے لیکر 1971ء تک ان کے خلاف ہر ایک فساد میں ملوث رہی۔
اسے مشرقی بنگال میں بائیں بازو اور بنگالی قوم پرستوں کے قتل عام اور انھیں تہہ تیغ کرنے کی کھلی چھٹی 1971ء میں مل گئی تھی لیکن پیپلزپارٹی کے خلاف یہ قتل عام 1970ء کی انتخابی مہم کے دوران کرانے کی سازش میں اس وقت ناکام ہوئی تھی جب اس نے پیپلزپارٹی پر لاہور میں اپنے دفتر میں قرآن جلانے کا الزام لگایا تھا۔ مولانا مودودی پیپلزپارٹی اور نیپ ولی و بھاشانی سے اپنا حساب کتاب 1970ء میں چکتا کرنا چاہتے تھے جب انہوں نے امریکہ یاترا سے لوٹنے کے فوری بعد لاہور ائرپورٹ پر یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان میں سوشلزم کی بات کرنے والوں کی زبان گدی سے کھینچ لی جائے گی اور ایسا ہو بھی جاتا ایک تو فوجی جنتا نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کیا، دوسرا پیپلزپارٹی نے سوشلزم کی جگہ مساوات محمدی کا نعرہ لگایا اور تیسرا مولانا غلام غوث ہزاروی اور ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام جماعت اسلامی کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں آگئے
اور انھوں نے جماعت اسلامی کا انھی ہتھیاروں سے مقابلہ کیا جو جماعت اسلامی استعمال کر رہی تھی۔ مولانا مودودی عوامی لیگ کے خلاف مشرقی بنگال میں بھی انتخابی مہم کے دوران یہی فضا پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ان کی جماعت نے پہلے مغربی پاکستان خاص طور پر پنجاب اور کراچی میں مولانا بھاشانی پر قاتلانہ حملہ کیا اور ان کے جلسوں میں رکاوٹ ڈالی بعد ازاں جب شیخ مجیب الرحمان لاہور میں ناصر باغ میں جلسہ کرنے پہنچے تو اس جلسے پر بھی حملہ کردیا اور شیخ مجیب وہاں تقریر درمیان میں چھوڑ کر چلے گئے اور انہوں نے جماعت اسلامی سمیت مغربی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو چیلنج کیا کہ وہ اب مشرقی پاکستان میں کوئی جلسہ کرکے دکھائیں۔ مولانا مودودی ڈھاکہ پہنچے لیکن وہ وہاں کسی جلسے سے خطاب نہیں کر پائے اور ناکام و نامراد لوٹ آئے۔
جماعت اسلامی کا کردار مشرقی بنگال میں ایک فاشسٹ جماعت کا کردار رہا اور یہ جماعت مشرقی بنگال میں بنگالی عوام کی نسل کشی میں براہ راست ملوث تھی۔
پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو پر بنگالی عوام کی نسل کشی میں ملوث ہونے اور وہاں فوجی ایکشن میں شریک ہونے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو لاہور کے جس جلسے میں مشرقی پاکستان جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کا جو بیان دیا تھا وہ اپنے اراکین قومی اسمبلی بارے تھا لیکن انھوں نے کسی کی ٹانگیں نہیں توڑی تھیں کیونکہ وہ اجلاس منعقد ہی نہیں ہوا تھا۔
جماعت اسلامی پاکستان کو پیپلزپارٹی کی قیادت، اس کے کارکنوں اور حامیوں سے حساب چکتا کرنے کا موقعہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء لگنے کے وقت میسر آیا۔ پیپلزپارٹی کے خلاف جماعت اسلامی اور اس کے طلباء ونگ اسلامی جمعیت طلباء نے فوجی جنتا کی بی ٹیم کا کردار ادا کرتے ہوئے نہ صرف اس کی قیادت اور سیاسی کارکنوں اور حامیوں کی لسٹیں فوج، پولیس اور سول و ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں کو فراہم کیں بلکہ اس کے لوگ فوجی عدالتوں میں گواہ بن کر پیش ہوتے رہے۔ اس نے پی پی پی اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اور ان سے ہمدردی رکھنے والے تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور طالب علموں کو نکلوایا بلکہ ہر سرکاری ادارے میں جس پر پی پی پی یا بائیں بازو کے ہمدرد ہونے کا شبہ تھا اس کے خلاف انتقامی کاروائی میں ہاتھ بٹایا۔
سرکاری اور غیر سرکاری پریس سے ہر ایک ترقی پسند صحافی کو نکلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ باوردی اور بے وردی نوکر شاہی میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والوں کی ان گنت بھرتیاں ہوئیں۔ ماتحت عدالتوں اور ہائیکورٹس و سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کے حامی ججز بھرتی ہوئے۔ پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں اکثر وبیشتر جماعت اسلامی کے حامی ہیڈماسٹرز، پرنسپل اور وی سی لگائے گئے۔ پنجاب، کے پی کے، بلوچستان اور شہری سندھ بشمول کراچی کی اکثر جامعات میں وی سی اور اکثر شعبہ جات کے سربراہان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہوا کرتا تھا۔ لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان اور کراچی کی جامعات اور اکثر کالجز پر اسلامی جمعیت طلباء کا قبضہ کرایا گیا۔
تعلیمی نصاب کی تمام کمیٹیوں میں جماعت اسلامی کی حکمرانی تھی۔ یہاں تک کہ این سی اے لاہور کا پرنسپل بھی جماعت اسلامی سے لایا گیا۔ نیشنل آرٹس کونسل پاکستان کا چئیرمین بھی جماعت اسلامی کا بندہ لگایا گیا اور فیض احمد فیض کو وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ گیارہ سال دور آمریت میں جماعت اسلامی کی ذہنیت رکھنے والے پاکستان کی سول و ملٹری نوکر شاہی کے نچلے اور درمیانے رینکس میں چھا گئے۔ آرٹ، کلچر اور فلم، تھیڑ سب برباد کر دیے گئے۔ اپنے تئیں جماعت اسلامی نے پاکستان کی سول و ملٹری انتظامیہ اور تعلیمی ڈھانچے سے دھریوں، کمیونسٹوں سوشلسٹ اور سیکولر اور کلی طور پر طاغوت و کفر کی نمائندگی کرنے والوں سے پاک صاف کر دیا اور پاکستان کی فوجی افسر شاہی کو ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کا محافظ بنا دیا۔
اس نے مشرقی بنگال کی علیحدگی اور بنگلہ دیش بننے کی ساری ذمہ داری ذوالفقار علی بھٹو پر ڈالی اور اپنے قاتلانہ، خون آشام اور ظلم و بربریت پر مبنی کردار کو پاکستان کے پریس اور تاریخ پر چھپنے والی کتابوں سے غائب کر دیا۔
آج پاکستان کی نئی نسل کو جماعت اسلامی کی ذہنیت سے متاثرہ سوشل میڈیا پر ابھرنے والے
Raftar
جیسے کئی درجنوں ڈیجیٹل پلیٹ فارم
Construed and selective distorted script
پر مبنی دستاویزی فلموں کے زریعے یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مشرقی بنگال کی آزادی۔۔ پاکستان ٹوٹنے کے ڈرامے کا سب سے بڑا ولن مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ اس نے جان بوجھ کر پاکستانی فوج کو مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کی طرف راہ دی اور پاکستانی فوج کی ڈھاکہ میں ذلت آمیز شکست کا وہ ذمہ دار تھا۔
ایسی ڈاکومنٹری میں کہیں بھول کر بھی یہ ذکر نہیں ہوتا کہ جماعت اسلامی پاکستان سمیت یہ مغربی پاکستان کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں تھیں جنھوں نے 5 فروری کو متحدہ اپوزیشن کی بلائی گئی کانفرنس میں شیخ مجیب کو چھے نکات پیش کرنے نہیں دیے اور پھر اس کے بعد شیخ مجیب سمیت مشرقی پاکستان کی مقبول لیڈر شپ کو مغربی پاکستان میں جلسے کرنے سے بزور طاقت اور غنڈا گردی روکا۔
سن 1969ء کو جب شیخ مجیب کو اسی مغربی پاکستان کی متحدہ اپوزیشن جو ایوب خان کے خلاف چلنے والی احتجاجی تحریک کی قیادت بھٹو اور بھاشانی کے ہاتھ آنے اور تحریک کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئی تو ان کی رہائی کرائی گئی جو پاکستان توڑنے کی سازش میں گزشتہ ایک سال سے نظر بند تھے اور انھیں ایوب حکومت سزائے موت دینے کے دعوے کر رہی تھی۔ لیکن جب شیخ مجیب نے ایوب خان کے سامنے ایک بار پھر چھے نکات رکھے تو پہلے نیپ کو چھوڑ کر اپوزیشن اتحاد نے شیخ مجیب کو چھے نکات ترک کرنے پر رام کرنے کی کوشش کی جب وہ راضی نہ ہوئے تو لاہور میں اپوزیشن کے منعقدہ کنونشن میں ایک بار پھر شیخ مجیب الرحمان کی تقریر کے دوران جماعت اسلامی کے غنڈوں نے ہلڑ بازی مچائی۔
شیخ مجیب الرحمان پر حملہ کرنے کی کوشش ہوئی۔ انہوں نے تقریر درمیان میں چھوڑی اور مشرقی پاکستان روانہ ہوگئے۔ مولانا بھاشانی پر ان کے آخری دورہ لاہور کے دوران ساہیوال اسٹیشن پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچ گئے۔ حملے کا الزام انھوں نے جماعت اسلامی پر لگایا اور مغربی پاکستان کو خدا حافظ کہہ گئے۔ مشرقی پاکستان جاکر انہوں نے اپنی پارٹی کو انتخابات سے دستبردار کرایا اور صاف صاف کہا کہ وہ عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تقسیم کرکے مغربی پاکستان کے سرمایہ دار، جاگیردار، فوجی جنتا اور ملاں استحصالی طبقات کو موقعہ نہیں دینا چاہتے کہ وہ منقسم پارلیمنٹ میں اس نظام کو جاری رکھ سکیں اور مشرقی بنگال کے عوام کو غلام بنائے رکھیں۔
پاکستان کی فوجی جنتا، سرمایہ دار، جاگیردار اور ملاں آپس میں چاہے لاکھ لڑیں لیکن ان کے درمیان آج بھی ایک بات پر اتفاق ہے کہ وہ پاکستان کی مظلوم و محکوم و مجبور اقوام کو کبھی داخلی خودمختاری اور ان کے وسائل پر انھیں اختیار نہیں دیں گے۔ وہ مضبوط مرکز کے نام پر انھیں غلام بناکر رکھیں گے۔ آج ان کے جبر اور قہر کا سب سے بڑا نشانہ بلوچ قوم اسی وجہ سے ہے کہ ان کی اکثریت اپنے حقوق اور اپنی شناخت پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ مرکز کے نام پر پنجاب کے حکمران طبقات کی غلامی قبول کرنے سے انکاری ہی نہیں بلکہ اس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
انھوں نے اپنے سمجھوتہ باز اور مصلحت پسند سیاست دانوں کو غیر معتبر بے نام و نشان کر دیا ہے اور ان کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جیسی غیر اشرافی سیاسی طبقے کی نوجوان لڑکیاں کر رہی ہیں۔ بلوچستان پاکستان کی ایک کالونی سے زیادہ کچھ نہیں ہے یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس ملک کے سرمایہ دار، جاگیردار، جرنیل، سول بابو اور ملاں آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کی نئی نسل کو تاریخ کے پسندیدہ اور جھوٹے پاٹھ پڑھا کر اور یونیورسٹیوں میں جاکر تقریریں کرکے بلوچ قومی تحریک سمیت ہر اس عوامی تحریک کو ختم کردیں گے جو ان کے چورن کو خریدنے پر تیار نہیں ہیں اور اس طرح اپنے مظالم پر پردہ ڈالے رکھیں گے۔
پاکستان کے طبقہ اشرافیہ کے حکمران اور ریاستی اپریٹس کو یہ غلط فہمی ہے کہ ان کے بیانیے کے خلاف پاکستان کی نئی نسل میں بڑھتی ہوئی نفرت اور بے زاری کسی فرد واحد اور اس کی جماعت کی وجہ سے ہے جبکہ معاملہ اس کے الٹ ہے نئی نسل کے ایک بڑے حصے میں خاص طور پر پنجاب، کے پی کے اور سندھ کے شہری علاقوں میں اس کی جانب سے فوجی جنتا کے خلاف جو رویہ ہے اور موقف ہے وہ اس کی مقبولیت کا سبب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بلوچ، پشتون، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کی عوامی تحریکیں تو اس فرد واحد اور اس کی جماعت کی قیادت میں چل رہی ہوتیں۔ پاکستان کی خاص طور پر بلوچ، سندھی، پشتون، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کی نئی نسل کی اکثریت عمران خان کی حمایت کے سبب نہیں بلکہ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والی روایتی سیاسی جماعتوں کی قیادت کے فوجی جنتا کے ساتھ مصالحت کے سبب ان سے الگ اور بے زار نظر آ رہی ہے۔
پاکستان کی روایتی پارلیمانی پاور پالیٹکس آج جتنی غیر معتبر، غیر موثر اور بے وزن ہے اتنی پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ اشرافیہ کے پاکستان کی ترجمان سیاست ہے جو اس کے لیے پوری ریاست کی جابرانہ مشینری کے عوام کے خلاف استعمال ہونے اور انھیں جھکانے کی کوشش میں ممد و معاون بنی ہوئی ہے۔ اسی لیے نئی نسل اس سیاست کو جوتے کی نوک پر رکھے ہوئے ہے۔

