اصولی سیاست اب کہاں
مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی کو شکایت ہے کہ پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کو نظرانداز کرکے حکومتی سینیٹروں کی حمایت حاصل کرکے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر نامزد کرا لیا ہے جو اصولی سیاست کے بھی خلاف ہے۔
اس سے پی ڈی ایم کے موقف کو نقصان پہنچا ہے جب کہ باہمی فیصلے کے مطابق یہ عہدہ مسلم لیگ (ن) کو ملنا چاہیے تھا۔ مریم نواز کا بھی کہنا ہے کہ بہتر ہوتا کہ آصف زرداری، پارٹی(باپ)کے چار ووٹ لینے کے بجائے نواز شریف سے رابطہ کرلیتے تو اپوزیشن کے 27 ووٹ انھیں مل سکتے تھے۔
پی ڈی ایم کی 8 جماعتوں نے ایسا کرنے پر پیپلز پارٹی اور اے این پی سے وضاحت مانگی جس کے جواب میں اے این پی نے علیحدگی اختیار کرلی اور کہا کہ ہم بلوچستان حکومت میں شامل ہیں مگر پی ڈی ایم کے قیام کے وقت ہم سے باپ کی حکومت میں شمولیت کا نہیں پوچھا گیا تھا، اگر پوچھا جاتا تو ہم اس کا بھی جواب دیتے۔
پی پی کا دعویٰ ہے کہ بلاول زرداری نے پی ڈی ایم کے قیام کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا اور اب مسلم لیگ، پی پی پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتی ہے جب کہ پیپلز پارٹی اپنے اصولوں پر چلنے والی پارٹی ہے اور اپنے فیصلے خود کرتی ہے کسی اور پارٹی کی بالادستی قبول نہیں کی جاسکتی۔
یوسف رضا گیلانی نے بھی کہا ہے کہ باپ کے چار ووٹ لینے سے کون سی بے اصولی ہوئی ہے۔ پی پی رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے پی ڈی ایم سے پوچھے بغیر مسلم لیگ (ق) اورپی ٹی آئی کی ملی بھگت سے پنجاب میں اپنے تمام امیدوار کامیاب کرائے اور (ق) لیگ کو سینیٹرکی نشست دلائی۔
ملک میں سیاسی بے اصولیاں نئی ہیں، نہ ایسا کرنا برائی سمجھی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی سمیت ملک میں کوئی ایسی پارٹی نہیں جو سیاسی اصولوں پر قائم رہی ہو۔ سیاسی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے جاوید ہاشمی جیسے اصول پرست رہنماؤں نے اپنا سیاسی نقصان بھی کیا ہے۔ 2014 میں پی ٹی آئی نے مہینوں اسمبلی کا بائیکاٹ کرکے استعفے واپس لے کر مراعات تک وصول کرلی تھیں مگر جاوید ہاشمی نے پی ٹی آئی کے صدر کا عہدہ بھی گنوایا اور قومی اسمبلی سے استعفیٰ واپس نہیں لیا تھا۔
اپنے اصولوں پر انھوں نے مسلم لیگ (ن) چھوڑی تھی جس کے وہ برے وقتوں میں صدر رہے اور قید میں طویل عرصہ پابند سلاسل رہے مگر جنرل پرویز مشرف سے سمجھوتہ نہیں کیا تھا جب کہ اصولوں کے بڑے بڑے دعویدار اصولی سیاست میں جاوید ہاشمی ثابت نہیں ہوئے اور انھوں نے ہمیشہ سیاسی مفادات کو ترجیح دی۔
سیاسی بے اصولی میں آصف زرداری اور عمران خان سر فہرست اور میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن بھی موقعہ پرستی میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔ بلوچستان کے رہنما اختر مینگل کو موجودہ سیاستدانوں میں کسی حد تک اصول پرست کہا جاسکتا ہے جنھوں نے کسی وزارت کے بغیر وزیر اعظم عمران خان کا دو سال ساتھ دیا اور حکومتی وعدے پورے نہ ہونے پر حکومت کسی حمایت سے دستبردار ہوگئے تھے۔
چند سال قبل ایم کیو ایم کے بانی کے یوٹرن بہت مشہور تھے جن کا ریکارڈ عمران خان نے توڑا۔ انھوں نے سیاسی مفاد کے لیے ق لیگ کو پنجاب کا اسپیکر اور شیخ رشید کو وزارت دی ہے۔ آصف زرداری نے مسلم لیگ (ق) کو پہلے قاتل لیگ قرار دیا پھر ایم کیو ایم سے تنگ آکر (ق) لیگ کو اپنے اقتدار میں شریک کرلیا تھا۔ آصف زرداری نے 2018 میں کسی کے کہنے پر نئی پارٹی باپ کے صادق سنجرانی کو پہلے چیئرمین سینیٹ بنوایا پھر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے مگر ناکام رہے۔
میاں نواز شریف اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ووٹ کو عزت دو کے دعویدار ہیں مگر 2019 میں انھوں نے اپنے موقف کے برخلاف آرمی چیف کو ایکسٹینشن دلائی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بالاتروں کو خوش رکھنے کے لیے آصف زرداری سے طے شدہ ملاقات منسوخ کردی تھی اور جنرل پرویز مشرف کے اہم ساتھیوں کو اہم عہدے اور مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ دیے تھے۔
ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت مولانا فضل الرحمن کو اپنی جماعت کے سینئر رہنماؤں کے بجائے ہمیشہ اپنے بھائی، عزیز اور صاحبزادے یاد رہے جس کی وجہ سے جے یو آئی میں تقسیم بڑھی اور اہم رہنما الگ ہونے پر مجبور ہوئے۔ جماعت اسلامی کو قومی اسمبلی میں بائیکاٹ کا اصول یاد رہا مگر پھر سینیٹ میں اسی یوسف رضا گیلانی کی نہ جانے کون سے اصول پر حمایت کی گئی۔ مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے اصول کہیں اور طے ہوتے ہیں اس لیے ان کے اصول ہمیشہ سیاسی مفادات رہے ہیں۔
پہلے غدار اور بعد میں غداروں سے اعتماد کا ووٹ لینا بھی اب درست سمجھا جاتا ہے اور یوٹرن لینے کو بڑے لیڈر کی شان سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی مفاد پرستی کے تالاب میں سب غسل کر رہے ہیں اور ہر سیاسی قائد اپنے سیاسی مفاد کے لیے جب پینترا بدلنا چاہے بدل سکتا ہے اور اس کے ساتھی رہنما بھی سیاسی مجبوری کے لیے خاموش رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔