سیاست ایسے بھی ہوتی ہے
رمضان المبارک کی دوپہر موسم گرما کی بارش میں مظفرگڑھ شہرکی قومی شاہراہ پر واقع خان گڑھ کا مقامی اسٹیڈیم سوگواروں سے بھرا ہوا تھا اور قومی شاہراہ پر بھی ہر طرف ارکان اسمبلی، سیاستدانوں، علاقہ معززین کی گاڑیوں اور شہریوں اور ان کی موٹر سائیکلوں کے باعث ٹریفک جام تھا اور جنازہ گاہ میں سیکڑوں افراد رو رہے تھے۔
لوگوں کی بڑی تعداد اسٹیڈیم بھر جانے کے باوجود اندر آ رہی تھی جہاں بارش کے باوجود ہزاروں افراد نماز جنازہ میں شرکت کے لیے بھیگ رہے تھے۔ وقت مقررہ پر تین بجے نماز جنازہ ادا کر دی گئی اور سیکڑوں افراد شرکت سے محروم رہ گئے۔ میت رش کے باعث بہ مشکل سڑک پر لائی گئی اور سڑک پر بارش کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے ٹرالی پر رکھ کر قبرستان کی طرف روانہ ہوئی جس کے پیچھے سیکڑوں افراد تھے۔
یہ خان گڑھ شہر کے ایک بڑے جنازے کا اعزاز چوالیس سالہ چوہدری عامر کرامت کو صرف تیرہ برس کی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان اپنے شہر کے اس نوجوان سے بڑی شفقت رکھتے تھے جو نوابزادہ کی سیاست سے متاثر تھا اور نوابزادہ کے انتقال کے بعد سیاست میں آیا۔ نوابزادہ نصر اللہ کی زندگی میں ان کے ایک بیٹے کو صوبائی وزیر بننے کا موقعہ بھی ملا تھا مگر پھر وہ شاید دوبارہ کامیاب نہ ہوسکے۔ بہرحال مرحوم نوابزادہ نصر اللہ کے لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سیاست اپنی زمینیں فروخت کرکے جاری رکھی تھی اور قومی سیاسی شخصیت ہونے کے باوجود سیاست میں صرف عزت اور دیانت کو فروغ دیا اور اپنے اصولوں پر قائم رہے۔
ضلع مظفر گڑھ کی سیاست میں ہمیشہ روایتی سیاستدانوں کا راج رہا اور پہلی بار 2000کی دہائی میں متوسط طبقے کے ایک رہنما جمشید دستی سیاست میں آئے اور اپنی سیاست سے انھوں نے اپنے حلقے میں اتنی مقبولیت حاصل کرلی کہ 2008 میں وہ پی پی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اب کی سیاست دیکھ کر خان گڑھ کے ایک زمیندار چوہدری کرامت کا اکلوتا بیٹا چوہدری عامر کرامت، جمشید دستی کے کارواں میں شامل ہوا جسے عوام میں مقبولیت حاصل ہوتی رہی۔
یہ وہی چوہدری عامر کرامت تھا جو سیاست میں آنے سے قبل عوام سے دور زمینداروں والی زندگی گزارتا تھا مگر پھر اس کی کایا پلٹی اور وہ عوامی آدمی بن گیا جس کے ڈیرے پر صبح سے ہی ضرورت مند لوگوں کا ہجوم جمع ہونے لگا اور نوجوان عامرکرامت ان کے مسئلے حل کراتا۔ لوگوں کے ساتھ سرکاری دفاتر میں جاکر متعلقہ افسران سے ملتا اور لوگوں کے کام کراتا۔ اپنی گاڑی میں ضرورت مندوں کو لے کر ضلع کے مختلف دفاتر میں جاکر ان کی داد رسی کرتا جس کی وجہ سے اس کے ڈیرے پر لوگوں کا ہجوم بڑھتا گیا۔ جہاں انھیں عزت سے بٹھایا جاتا خاطر تواضح کی جاتی اور چوہدری عامر صبح سے لوگوں کے ساتھ نکلتا اور ان کے مسائل حل کرانے میں مصروف رہ کر رات گئے گھر آتا اور عوامی خدمت کا یہ سلسلہ اگلی صبح پھر شروع ہو جاتا۔
2013 کے انتخابات میں عامر کرامت نے پہلی بار صوبائی اسمبلی کے لیے بڑے جاگیرداروں کے مقابلے میں انتخاب لڑا اور تقریباً 27 ہزار ووٹ لے کر سب کو حیران کردیا۔ اسے ہرانے کے لیے اس کے ووٹوں کے تھیلے تک غائب کرا دیے۔
عامر کرامت کی عوامی سیاست نے علاقہ جاگیرداروں کی نیندیں اڑا دیں اور 2018 میں اس کا حلقہ 3 حصوں میں تقسیم کرا دیا گیا مگر پھر بھی وہ دوسرے نمبر پر رہا۔ لوگ سیاست میں پیسہ بنانے آتے ہیں مگر عامر اپنی سیاست میں اپنے بڑوں کی زمینیں فروخت کراتا رہا۔ اپنے خاندان میں پہلی بار سیاست میں آنے والے عامر کرامت نے اپنی جیب سے کروڑوں روپے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے۔ لوگ اسے اپنے علاقوں میں مدعو کرکے اپنی ضرورت پوری کراتے۔ نہ جانے کتنے گھرانوں کو راشن فراہم کرتا، دینی اور فلاحی کاموں میں لوگوں کی ضروریات اپنی جیب سے پوری کرکے خدمت کی سیاست کو فروغ دے کر عامر کرامت نے ثابت کر دکھایا کہ سیاست ایسے بھی ہوتی ہے۔ کورونا کا اچانک شکار ہو کر عامر کرامت اپنے ہزاروں چاہنے والوں کو اچانک روتا چھوڑ گیا اور لوگ رو رو کر کہہ رہے تھے کہ اب ان کی سیاسی خدمت کون کرے گا؟