صدارتی نظام یا خواہش بادشاہت
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ صدارتی نظام کے حامی ملک کے خیر خواہ نہیں ہیں ملک صدارتی نظام سے ہی ٹوٹا تھا۔ الیکشن چوری کرنا چھوڑ دیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ملک کی سب جماعتیں ہی نہیں بلکہ مقتدر حلقے بھی ملک میں پارلیمانی نظام کے حامی نظر آتے ہیں اور صرف وزیر اعظم عمران خان ہی ہیں جو پارلیمانی نظام سے مطمئن نظر نہیں آ رہے۔
اسی لیے وہ کبھی چین کی مثال دیتے ہیں کبھی انھیں سعودی عرب کا بادشاہی نظام اچھا لگتا ہے جہاں حکمرانوں کو تمام اختیارات حاصل ہیں۔ حکومتی حلقوں میں صدارتی نظام کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں اور وزیر اعظم کی طرف سے پارلیمانی نظام کی کھلے عام حمایت نہ کیے جانے کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ملک میں کمزور پارلیمانی نظام کی بجائے بااختیار صدارتی نظام کے حامی ہیں مگر کھلے عام ایسی بات نہیں کر رہے یا ابھی وہ وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔
پاکستان میں صدارتی موثر اور مضبوط نظام غیر جمہوری حکومتوں میں قائم رہا ویسے تو ملک کے پہلے سویلین صدر اسکندر مرزا تھے اور 1958تک ملک میں آئے دن وزیر اعظم تبدیل ہوتے رہے جس سے دنیا میں ہمارا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ اسکندر مرزا کو معزول کرکے بیرون ممالک جانے دیا گیا اور جنرل ایوب خان نے بااختیار صدر بن کر دس سال سے زائد حکومت کرکے ملک کو صنعتی اور مواصلاتی ترقی دلائی جن کے بعد جنرل یحییٰ نے ملک کا منتخب صدر بننے کے لیے منصفانہ انتخابات کرائے مگر نتائج ان کی توقع کے خلاف رہے اور ملک دولخت ہو گیا۔
جس کا فائدہ ایوب دور کے وزیر خارجہ ذوالفقار بھٹو کو ہوا اور وہ صدر مملکت ہی نہیں سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی بنے اور 1973 کا متفقہ آئین بنوا کر وزیر اعظم منتخب ہوئے اور ایک خود ساختہ بے اختیار صدر بھی منتخب کرایا جس کے بعد متفقہ آئین میں اختیارات حاصل کرنے کے لیے ترامیم کرکے اتنے بااختیار ہوئے کہ انھوں نے مخالفین کو قید کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور بااختیار وزیر اعظم غیر سول صدر کے ہاتھوں پھانسی پر لٹکائے گئے۔
بھٹو دور کے بعد دو طویل مارشل لا لگے اور تقریباً بیس سال بااختیار غیر سول صدارتی دور رہا۔ اس دوران مختلف وزرائے اعظم آئے اور بااختیار سویلین اور غیر سویلین صدور کے ہاتھوں برطرف ہوئے۔ 1999 کے بعد نام نہاد جمہوری و پارلیمانی نظام چلا آ رہا ہے۔ غیر سویلین صدور کے علاوہ کوئی سویلین وزیر اعظم اپنی 5 سالہ مدت پوری نہ کرسکا البتہ دو بے اختیار سویلین صدور نے اپنی 5 سالہ مدت اس لیے پوری کی کہ اختیارات منتخب کروائے گئے وزرائے عظم کے پاس رہے مگر ان کی راہ میں حائل کی گئی رکاوٹیں بھی برقرار رہیں۔
جنرل مشرف کے دور میں (ق) لیگ کے تین وزرائے اعظم رہے جن میں ایک غیر ملکی تھے جو واپس چلے گئے۔ پہلے فوت ہوگئے، دوسرے مختصر مدت کے وزیر اعظم حیات اور موجودہ حکومت کے اہم اتحادی ہیں۔ عمران خان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دس سال مدت کے اقتدار کو کرپٹ قرار دیتے رہے اور اسی وجہ سے وزیر اعظم بنائے گئے جب کہ دیگر پارٹیوں کے دور کو ایسا نہیں کہتے۔
ایک سینئر اینکر کے بقول موجودہ آئینحکومتی قیادت کی راہ میں رکاوٹ ہے اور اسے وہ کچھ نہیں کرنے دے رہا جو وہ کرنا چاہتی ہیں۔ بھٹو دورکی طرح موجودہ حکومت کے اپوزیشن رہنما نیب کے ذریعے بار بار گرفتار ہوتے رہے مگر حکومتی قیادت کی خواہش کے برعکس عدالتوں سے ضمانت حاصل کرتے رہے اور سپریم کورٹ میں یہ تک کہا گیا کہ ثبوت کے بغیر نیب کی خواہش پر حکومت مخالف رہنماؤں کو قید نہیں رکھا جاسکتا۔ حکومت نے تو بھٹو دور کی طرح اپنے مخالف کو ہیروئن کیس میں کئی ماہ تک قید بھی رکھا مگر عدلیہ کے ذریعے وہ رہا ہوگئے جو آئینی طریقہ تھا۔
موجودہ پارلیمانی نظام میں حکومت کے مخالف عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں، کرپشن کے الزامات ثابت نہ ہونے پر کسی کو سزا نہیں ہو رہی، اگر ملک میں صدارتی نظام امریکا جیسا ہوتا تب بھی موجودہ حکمران قیادت صدر بن کر وہ کچھ نہ کر پاتی جو وہ چاہتی ہے کیونکہ صدارتی نظام میں پارلیمنٹ رکاوٹ ڈال دیتی اسی لیے وہ ملک میں چین جیسا بااختیار صدر بننے کے خواہاں ہیں۔
امریکا میں صدر اپوزیشن کو برداشت کرتا ہے جب کہ چین اور بادشاہت میں اپوزیشن ہوتی ہی نہیں اور عدالتیں حکمرانوں کی مرضی کے برعکس فیصلے نہیں کرسکتیں اس لیے امریکا جیسا صدارتی نظام بھی ملکی پارلیمانی نظام جیسا اور منتخب پارلیمنٹ کے آگے مجبور اور حکمران کو من مانی نہیں کرنے دے گا اور پاکستان حکمران مطمئن نہیں ہوں گے۔ وہ دوسری بار بھی اپنی حکمرانی چاہتے ہیں مگر ملک میں صدارتی نظام آئے یا موجودہ پارلیمانی نظام چلے مگر ان دونوں کی جگہ بادشاہی نظام آ نہیں سکتا تاکہ حکمرانوں کی مکمل بادشاہت کی خواہش پوری ہو اور وہ مطمئن ہوں۔