قربانی کی ضرورت
وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک میں کورونا کے باعث اپنی احتجاجی تحریک دو تین ماہ کے لیے ملتوی کردیں کیونکہ جلسوں سے وہ ڈرنے والے نہیں ہیں اور وہ کرپشن پر اپوزیشن کو این آر او دینے اور دباؤ میں آنے کی بجائے اقتدار چھوڑنا اور مستعفی ہونا پسند کریں گے۔
انھوں نے اپوزیشن سے پارلیمنٹ میں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔ حکومت سے اپوزیشن کی تمام جماعتیں کسی بھی قسم کی بات کرنے سے انکار کر چکی ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ حکومت سے بات کرنے کا موقعہ حکومت ضایع کر چکی ہے۔
اپوزیشن نے تو حکومت بنتے ہی حکومت کے ساتھ چل کر ملک میں جمہوریت کے فروغ کا فیصلہ کیا تھا جو وزیر اعظم نے اپنے متکبرانہ انداز میں مسترد کردیا تھا اور اپوزیشن کی بات کو این آر او مانگنے کا طریقہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ وہ حکومت سے اپنی کرپشن بچانے کے لیے بات منوانا چاہتی ہے جب کہ ایسا نہیں تھا کیونکہ اپوزیشن حکومت سے این آر او نہیں مانگ رہی تھی اور جمہوریت میں وزیر اعظم کسی کو این آر او نہیں دے سکتا بلکہ آمریت میں آمر حکمران ہی این آر او دیتے ہیں اور پیپلز پارٹی کے مطابق جنرل پرویز مشرف سے بھی این آر او نہیں مانگا گیا تھا بلکہ انھوں نے اپنے مفاد کے لیے خود یو اے ای جا کر این آر او کیا تھا۔
اپوزیشن کی یہ بات درست ہے کہ جمہوریت میں پارلیمنٹ موجود ہوتی ہے، جو سپریم ہے اور حکومت اور اپوزیشن کی بات صرف پارلیمنٹ میں ہوا کرتی ہے اور اپوزیشن نے 2018 کے متنازعہ انتخابات کے باوجود مولانا فضل الرحمن کی طرف سے حلف نہ اٹھانے کی تجویز مسترد کردی تھی اور پارلیمنٹ کو اہمیت دی تھی اور متنازعہ امور پارلیمنٹ کے ذریعے ہی طے کرنے کی پالیسی اختیارکی تھی جسے وزیراعظم عمران خان نے مسترد کر دیا تھا حالانکہ پی ٹی آئی کی اکثریت نہیں تھی اور بالاتروں نے دوسری چھوٹی جماعتوں کو پی ٹی آئی سے ملوا کر حکومت قائم کرائی تھی۔ اپوزیشن اپنے موقف میں یہ الزامات بھی لگاتی رہی ہے کہ پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے ارکان اسمبلی کو بنی گالا لالا کر حکومت کے لیے اکثریت بنوائی تھی اور وہ رہنما حکومت کے لیے این ٹی ایم کا کردار ادا کر رہے تھے۔
اپوزیشن کا یہ بھی الزام ہے کہ حکمران جمہوریت کے نام پر آمر بنے ہوئے ہیں اور وہ اپنے حلیفوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اپوزیشن کو تو تسلیم ہی نہیں کرتے اور نہ ان کی پارلیمنٹ میں کوئی بات سنتے ہیں اور نہ پارلیمنٹ میں آکر اسے اہمیت دیتے ہیں بلکہ آمرانہ فیصلوں کے قائل ہیں، جب کہ وزیراعظم عمران خان کا موقف بھی یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ اس لیے نہیں آتے کہ وہ وہاں بولنا چاہتے ہیں تو اپوزیشن شور شرابا کرکے انھیں وہاں بولنے ہی نہیں دیتی جس پر وہ واپس چلے جاتے ہیں۔
حکمران وقت کو پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے شور پر تو اعتراض رہا ہے مگر انھیں وہاں اپنے بعض وزیروں کا اپوزیشن کے ساتھ اختیارکیا گیا رویہ بھی دیکھنا چاہیے تھا جو اپوزیشن پر تعمیری تنقید یا درست جواب دینے کی بجائے اپوزیشن رہنماؤں کے لیے چور ڈاکو، چور ڈاکو کی گردان کیا کرتے ہیں اور اپوزیشن ارکان کو بولنے نہیں دیتے تو جواب میں اپوزیشن ارکان بھی وزیروں کو ویسا ہی جواب دیتے ہیں جس سے پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی معمول بنی رہی۔ اپوزیشن یہ بھی الزام لگاتی ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور انھیں بولنے نہیں دیتے تو انھیں بھی شور اور واک آؤٹ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔
موجودہ وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر اعظم نواز شریف میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتے اور غیر حاضر رہتے ہیں۔ دونوں کو پارلیمنٹ صرف اپنے مفاد کے لیے یاد آئی اور عمران خان کو پارلیمنٹ میں بولنے کا موقعہ ہمیشہ اپوزیشن کے واک آؤٹ کر جانے پر ملا تو وہ بھی غیرموجودگی میں اپوزیشن کے لیے نرم یا خوشگوار رویے کے قائل نہیں اور انھوں نے بھی ہمیشہ اپوزیشن کے لیے سخت رویہ اختیار کیا اور کبھی مفاہمانہ تقریر نہیں کی۔
حکمران وقت اور بعض حکومتی مشیروں وزیروں کا پارلیمنٹ میں اپوزیشن سے رویہ جارحانہ رہا تو اپوزیشن نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا اور اب پی ڈی ایم وزیر اعظم سے بات کرنے سے صاف انکار کرچکی ہے اور اپوزیشن کے بڑے جلسوں کے بعد حکومت نے لچک تو دکھائی ہے مگر بعض وزرا آنکھیں بند کرکے بڑے جلسوں کو جلسی قرار دینے اور اپوزیشن کو رگیدنے کی پالیسی پر قائم ہیں اور قوم دیکھ رہی ہے کہ حکمران خود اپوزیشن کو ایک توانا آواز بنا رہے ہیں اور ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد اب انھوں نے نیشنل ڈائیلاگ کی بات کی ہے۔
وزیر اعظم پارلیمنٹ کی بجائے اپنی کابینہ کے ہر ہفتے باقاعدگی سے اجلاس منعقد کرتے آئے ہیں اور اب کہہ رہے ہیں کہ سیاسی ڈائیلاگ کی بہترین جگہ پارلیمنٹ ہے۔ کاش انھیں یہ بات پہلے سمجھ میں آجاتی تو اب موجودہ سیاسی صورتحال پیدا نہ ہوتی اور اپوزیشن آج اس مقام پر نہ آتی اور مذاکرات کے دروازے بند نہ کرتی۔
حکومت نے اپوزیشن پر تنقیدکے لیے جو ترجمان سرکاری خرچ پر مقرر کر رکھے ہیں ان کا کام صرف اپوزیشن کو مطعون کرکے حکومت اور اپوزیشن میں فاصلے بڑھانا تھا جو وہ کر رہے ہیں اور اب اپوزیشن اس مقام پر پہنچا دی گئی ہے جہاں سے اس کی واپسی اور حکومت سے مذاکرات کرنا اس کے لیے ناممکن ہو چکا ہے۔
کورونا کی دوسری لہر حکومت کو فائدہ دے سکی نہ اپوزیشن کو اپنے جلسوں سے روک سکی ہے۔ حکومت کے عزائم پتا دے رہے ہیں کہ کشیدگی مزید بڑھے گی۔ جمہوریت کو بچانا اپوزیشن سے زیادہ حکومت کی بھی ذمے داری ہے۔ ماضی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو پہلی بار تقریباً دو سال کا اقتدار ملا تھا اور عمران خان کے پہلے اقتدارکو ڈھائی سال ہونے کو ہیں اس لیے موجودہ انتہائی سنگین صورتحال میں عمران خان کو قربانی دے کر جمہوریت کو بچانا چاہیے اور ازخود اسمبلیاں توڑ کر نئے مگر غیر متنازعہ اور منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کردینی چاہیے۔
پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس کی مقبولیت اور عمران خان کا سحر برقرار ہے تو آزمانے کا بہترین موقعہ ہے اس لیے وہ مدت پوری کرنے کی بجائے نئے الیکشن کے لیے عوام میں جائیں اور عوام سے اپنے لیے نیا مینڈیٹ حاصل کریں تو عوام خود فیصلہ کردیں گے کہ حکومت اور اپوزیشن میں کون غلط ہے اور کون درست؟