ایم کیو ایم کی سیاست کا نیا رخ
ایم کیو ایم کے سینئر ڈپٹی کنوینئر نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے تین سالوں میں ہمارے ساتھ کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا، جب کہ ہم نے وزیر اعظم کے ساتھ کیے گئے تمام وعدے پورے کیے ہیں۔
کراچی کی ترقی کے لیے گزشتہ 20 سالوں میں ووٹ لینے والی پارٹیوں نے کراچی کی ترقی کا نہیں سوچا۔ وفاقی حکومت کا رویہ دیکھ کر ایم کیو ایم وفاقی حکومت کے ساتھ کیے گئے باہمی اتحاد پر کوئی بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے 37 ویں یوم تاسیس پر اپنے خطاب میں ایم کیو ایم کے قیام کی وجوہات ایک بار پھر بیان کیں اور کہا کہ ہمیں ملک کی سلامتی عزیز ہے۔ ہمارا قصور صرف مظلوم طبقے کی آواز بلند کرنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہماری استقامت کام آ رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے سربراہ سمیت تمام رہنماؤں نے کراچی کی مردم شماری درست نہ کرائے جانے پر تنقید کی مگر یہ نہیں کہا کہ مردم شماری کے سلسلے میں گزشتہ دنوں عوام کے پاس جانے کا جو اعلان کیا تھا، اس اعلان پر عمل کیوں نہیں کیا جا رہا اور ایم کیو ایم مردم شماری دوبارہ اور درست کرانے کے لیے مسلسل مطالبے کر رہی ہے مگر پی ٹی آئی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر کی موجودگی میں وزیر اعظم مردم شماری کی تصدیق کرا چکے ہیں مگر ایم کیو ایم کے وزیر کو مذکورہ اجلاس کے بائیکاٹ کی ہمت تک نہیں ہوئی تھی۔
کابینہ کی توثیق ایم کیو ایم کے مطالبات کی نفی تھی جس کے بعد گورنر سندھ اور پی ٹی آئی کے وزرا یہ واضح کر چکے ہیں کہ دوبارہ مردم شماری نہیں کرائی جاسکتی اور 2023 میں نئی مردم شماری ممکن ہو سکے گی۔
2017 کی مردم شماری پر سندھ حکومت سمیت ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، پی ایس پی و دیگر پارٹیاں اور عوامی حلقے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں مگر وفاقی حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی اور ایم کیو ایم صرف مطالبات تک محدود ہے اور اس نے اس سلسلے میں عملی طور پر کچھ نہیں کیا اور نہ اپنے اعلان کے مطابق عوام سے کوئی رابطہ کیا ہے۔
پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال نے پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ متنازعہ مردم شماری پر ایم کیو ایم کا احتجاج محض دکھاوا ہے۔ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے صرف اعلانات کیے جاتے ہیں عملی طور پر ایم کیو ایم کچھ بھی نہیں کرے گی وہ ایک وزارت کے لیے کبھی حکومت نہیں چھوڑے گی۔ ایم کیو ایم پاکستان ملک کی واحد سیاسی پارٹی ہے جو ملک میں مزید صوبوں اور خصوصاً سندھ میں شہری صوبے کے قیام کو سب سے اہم قرار دیتی ہے مگر پی ایس پی سمیت ملک کی کوئی بھی چھوٹی یا بڑی پارٹی ایم کیو ایم کے شہری صوبے کی حمایت نہیں کرتی۔ تحریک انصاف کی اتحادی حکومت میں ایم کیو ایم سب سے اہم اتحادی ہے اور ایم کیو ایم کے رہنما یہ دعوے کرتے آ رہے ہیں کہ ملک میں پی ٹی آئی حکومت ہماری وجہ سے قائم ہے۔
ایم کیو ایم کے سینئر ڈپٹی کنوینئر اور سابق میئر کراچی سمیت ایم کیو ایم کے رہنما یہ بھی کہتے آ رہے ہیں کہ حکومت ہمارے ساتھ کیا گیا کوئی وعدہ پورا نہیں کر رہی اس لیے ہم بھی کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں، یہ محض دعوے ہیں۔ ایم کیو ایم کی ایسی دھمکی کو پی ٹی آئی والے بلیک میلنگ قرار دیتے ہیں اور کہتے رہتے ہیں کہ ایم کیو ایم ہمارے ساتھ حکومت میں شامل رہے گی۔ پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ ایم کیو ایم خود کراچی سے مخلص نہیں اور مردم شماری کے اہم مسئلے پر حکومت کو مجبور نہیں کرے گی اور ایک وزارت کے لیے کراچی کے مسائل پر وفاقی حکومت کے آگے جھکی ہوئی ہے اور اقتدار میں رہنا چاہتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کے بانی سمیت کسی بھی رہنما میں مولانا فضل الرحمن اور منظور وٹو جیسا سیاسی شعور نہیں ہے۔ ایم کیو ایم جنرل مشرف کے ساتھ تھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں شامل رہی اور اب ڈھائی سال سے پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی ہے اور تسلیم کرتی ہے کہ وفاق نے ہمارے ساتھ کیا گیا کوئی ایک وعدہ پورا نہیں کیا۔ پی پی، پی ایس پی متعدد بار استفسار کر چکے ہیں کہ اہمیت نہ ملنے کے باوجود ایم کیو ایم حکومتی اتحادی کیوں ہے۔ حکومت چھوڑ کیوں نہیں دیتی جب کہ بلاول بھٹو بھی انھیں اتحاد کی پیشکش کر چکے ہیں۔
ایم کیو ایم کی یقینی طور پر ایسی سیاسی مجبوریاں اور اسی کے رہنماؤں کے ایسے جرائم ہیں جن کی وجہ سے وہ حکومت نہیں چھوڑ رہے اور کوئی فیصلہ کرنے کی آئے دن باتیں کرتے ہیں اور موجودہ حکومت بھی ایم کیو ایم کی ایسی باتوں کو اہمیت نہیں دیتی۔ وفاقی حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح کراچی کو مسلسل نظرانداز کر رہی ہے اور ایم کیو ایم کے پاس حکومت سے شکایتوں کے سوا کچھ نہیں، جس کی وجہ سے اس کی مقبولیت دن بہ دن کم ہو رہی ہے کیونکہ اس کی سیاست اب محض موقع پرستی تک محدود ہے۔