کراچی پیکیج حقیقت کب بنے گا؟
وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کراچی پیکیج کے لیے 739 ارب روپے کی منظوری ایک بار پھر ملتوی کردی ہے۔ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کی منظوری اگلے اجلاس تک ملتوی کردی ہے جس پر سندھ حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے کراچی کے لیے چند ماہ قبل اعلانات تو کیے مگر عمل نہیں ہوا۔
سندھ حکومت وفاقی حکومت سے گلہ کرتی ہے کہ وہ کراچی کے لیے صرف وعدے کرتی ہے پورے نہیں کرتی۔ وزیر اعظم نے اعلانات توکیے مگر وفا نہیں ہوئے۔ گرین لائن کا وعدہ آج تک پورا نہیں ہوا۔ کراچی میں اصل تبدیلی سندھ حکومت لا رہی ہے۔ وزیر اعظم وعدے کریں تو پورے بھی کریں۔ وزیراعظم عمران خان بھی کراچی سے منتخب ہوئے لیکن انھوں نے شہرکے لیے کچھ نہیں کیا۔ وعدے کے مطابق کراچی کو 162 ارب روپے نہیں دے سکتے تو ایک ارب باسٹھ کروڑ ہی دے دیں۔
جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے بھی کہا ہے کہ حکمرانوں کی لاپرواہی نے کراچی کو تباہ وبرباد کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں جماعتیں اقتدار میں رہیں لیکن مسائل حل کرنے کے بجائے مزید بڑھائے گئے۔ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے بھی ڈھائی سال میں کراچی کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے عملاً کچھ نہیں کیا۔
سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی بھی کراچی کی بدتر صورتحال اور وزیر اعظم کی طرف سے کراچی سے متعلق اعلانات پر گزشتہ دنوں جذبات میں آکر اپنی ہی وفاقی حکومت پر برس پڑے تھے کہ وزیر اعظم نے اپنا وعدہ پورا کیا نہ وفاقی حکومت کراچی کے لیے کچھ کر رہی ہے۔ کراچی کے لیے کچھ نہ کرنے پر انھوں نے اپنے وزیر اعظم کو ان کے وعدے یاد دلا دیے تھے، بعد ازاں بوجوہ انھوں نے بیان واپس اور معذرت کر لی، جس کے بعد سے وہ کراچی سے متعلق وفاق کے رویے پر اب کچھ نہیں بولتے اور صرف سندھ حکومت پر برستے ہیں۔
عشروں تک کراچی کی ٹھیکیدار بنی رہنے والی ایم کیو ایم اب سکڑا دی گئی ہے، جس کے بعد ڈھائی سال سے وہ بھی مصلحت کا شکار اور خاموش رہنے پر مجبور ہے اور اپنی ایک وفاقی وزارت کے لیے خاموش رہنے پر اکتفا کیے ہوئے ہے۔ اس کے کسی رہنما میں فردوس شمیم نقوی جیسی عارضی جرأت بھی نہیں ہے کہ برملا یا وزیر اعظم سے ملاقات میں انھیں کراچی سے متعلق اپنے وعدے اور اعلانات یاد دلا دے یا امیر جماعت اسلامی کی طرح وفاقی حکومت پر کڑی تنقید کرسکے۔
امیر جماعت اسلامی کے مطابق پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے اپنے ادوار میں کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی ساڑھے 12 سالوں سے اقتدار میں ہے اور 5 سال وفاقی حکومت میں بھی رہی ہے مگر وہ لیاری اورکراچی کے مضافاتی علاقوں کو ہی کراچی اور اپنا ووٹ بینک سمجھ کر اہمیت دیتی ہے اور پیپلز پارٹی کی ترجیح بھی ایم کیو ایم کی طرح کراچی سے مال بناؤ رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے دور میں کراچی سے زیادہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے ترقی کی جو اس کے قائد کے بقول کراچی کے پس ماندہ علاقوں سے نکل کر پوش علاقوں میں جا بسے یا بیرون ملک چلے گئے اور کراچی ان کا منہ دیکھتا رہ گیا۔
سیاسی جماعتوں کے لیے کراچی ہمیشہ سونے کی چڑیا رہا۔ سندھ حکومت اور اس کے افسروں کی کرپشن، ملازمتوں کی فروخت اور لاکھوں روپے کے عوض تقرروتبادلوں کے لیے کراچی ان کے لیے جنت رہا ہے جس کے نتیجے میں کراچی میں وہی ترقیاتی کام کرائے گئے جن میں معقول کمیشن ملتا تھا۔ کراچی کے اندرونی علاقے کبھی سندھ حکومت کی ترجیح نہیں رہے۔ یہ کام مفلوج بلدیاتی اداروں کا تھا جو اپنے ملازمین کو وقت پر تنخواہ نہیں دے سکتے تھے۔ ان کے میئر اور چیئرمینوں کو اپنا بھی پیٹ بھرنا تھا اور سندھ حکومت انھیں فنڈ نہیں دیتی تھی۔
کراچی سے کمائی جانے والی ناجائزکمائی سے اندرون سندھ جائیدادوں اور زمینوں کی ویلیو بڑھی اورکراچی سے حاصل ہونے والی آمدنی سے وفاقی حکومت نے ملک چلایا مگر کما کر دینے والے کراچی کو اس کا جائز حق بھی نہیں دیا اور ماضی کی طرح موجودہ حکومت نے بھی کراچی کو نظر اندازکیا۔ کراچی سے صرف وعدے کیے گئے، ترقی کراچی کے بجائے دوسرے شہروں نے کی اورکراچی جنرل پرویز مشرف کے دور کے سوا ہر دور میں لاوارث اور ناانصافیوں کا شکار ہی رہا۔
ملک کے کراچی سے تعلق رکھنے والے چار صدور میں سے صرف صدر جنرل پرویز مشرف نے کراچی سے تعلق کا حق ادا کیا اور ان کی بدولت سابق سٹی حکومت کو مطلوبہ فنڈ ملے تو ترقی بھی ہوئی مگر اس فنڈ سے کراچی سے باہر بھی بڑی تعداد میں مال گیا مگر پھر بھی ترقی نظر آئی اورکراچی کے مسائل حل ہوئے اور شہریوں کو سہولتیں حاصل ہوئیں۔
چند ماہ قبل کراچی سے پہلی بار منتخب ہونے والے عمران خان کی پارٹی کو ایم کیو ایم کی مضبوط نشستوں پر بھی حیران کن کامیابی دلائی گئی تھی اور عمران خان وزیر اعظم بنے تھے جن سے کراچی کو بڑی توقعات تھیں کیونکہ وہ انصاف کے بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے مگر دو سال تک انھوں نے کراچی کے لیے عملی طور پر کچھ نہ کیا اور چند ماہ قبل کراچی آکر جس بڑے کراچی پیکیج کا اعلان کیا اس کے لیے وفاق سے زیادہ رقم سندھ حکومت نے دینی تھی۔
وزیر اعظم کے اعلان پر سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کے دعوے کی پول کھول دی تھی جو کراچی پیکیج خواب تھا۔ اس سے قبل بھی وزیر اعظم نے کراچی کے لیے 162 ارب روپے گرانٹ کا اعلان کیا تھا جو دو سالوں میں نہیں ملے تو کراچی پیکیج کب حقیقت بنے گا، بتایا جائے۔