کراچی اور لاہور کی صورتحال
سندھ کے وزیر بلدیات سید ناصر شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ نومنتخب بلدیاتی نمایندوں کے بعد سندھ حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی اور ضلع بلدیات میں جن ایڈمنسٹریٹروں کی تعیناتی کی ہے، اس سے بہت زیادہ بہتری آئی ہے۔
انھوں نے بلدیہ عظمیٰ کے دفتر میں سیکریٹری بلدیات اور ایڈمنسٹریٹر کراچی سے ترقیاتی کاموں پر گفتگو کرتے ہوئے انھیں ہدایت کی کہ شہر میں جاری منصوبوں کی تکمیل کو ترجیح دی جائے۔
اجلاس میں صرف جاری ترقیاتی کاموں کی اسکروٹنی کرنے اور جوکام شہر کے لیے اہم ہیں وہ پہلے مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی اورکے ایم سی کی آمدنی بڑھانے کے لیے چارجڈ پارکنگ کے نظام کو شفاف بنانے اور ایڈورٹائزمنٹ کے بائے لاز مرتب کرنے کا بھی کہا گیا مگر شہریوں کو درپیش فراہمی و نکاسی آب، کچرے کے ڈھیروں اور صفائی کے فقدان پر وزیر بلدیات و سیکریٹری بلدیات کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلا اور صرف ترقیاتی کاموں کی جلد تکمیل پر زور دیا گیا کیونکہ ترقیاتی کاموں کی تکمیل سے حکومت اور بلدیہ عظمیٰ بلوں کی ادائیگی کریں گی تو سب کو مقررہ کمیشن گھر بیٹھے ملے گا۔
شہر میں ترقیاتی کاموں کے نام پر ضروری تعمیری کاموں کو نظرانداز کیا گیا جب کہ اس وقت شہر کو تعمیری کاموں کی ترقیاتی کاموں سے زیادہ ضرورت ہے۔ اندرون شہرکی گلیاں تو کیا معروف مارکیٹوں اور اہم سڑکیں بھی آمد و رفت کے قابل نہیں ہیں اور شہر کا کوئی ایسا علاقہ نہیں ہے جہاں سڑکیں گندے پانی سے زیر آب اور گٹر نہ ابل رہے ہوں۔
ترقیاتی کاموں سے زیادہ اہمیت اور ضرورت فراہمی و نکاسی آب اور آمد ورفت کے لیے سڑکوں کی ہوتی ہے جسے سندھ حکومت نے ساڑھے بارہ برس کے اپنے طویل اقتدار میں نظرانداز کر رکھا ہے اور اگر یہ بنیادی سہولتیں کہیں دی بھی ہیں تو وہ اپنے ووٹ بینک کے حامل یا دیہی علاقوں کو دی ہیں اور ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کے علاقوں کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے سندھ حکومت کچھ نہیں کر رہی اور نہ ہی اس نے ان ضرورت مند علاقوں کے لیے بلدیہ عظمیٰ یا ڈی ایم سیز کو فنڈ دیے اور ایم کیو ایم کے سابق میئر اور چار ڈی ایم سی چیئرمین عوام کو یہ سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام رہے مگر انھوں نے بھی چار سالوں میں عوام کے مفاد پر ذاتی اور سیاسی مفادات کو ترجیح دی۔
کراچی کے برعکس لاہور مسلم لیگ (ن) کا گڑھ اب بھی ہے، جس کے لیے الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی دس سال اقتدار میں رہنے والی حکومت نے جنوبی پنجاب کے فنڈ لاہور کی ترقی پر خرچ کر دیے تھے جب کہ ملک کو سب سے زیادہ مالی وسائل فراہم کرنے والے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو ماضی سے اب تک ہر وفاقی اور سندھ میں پی پی کی حکومت نے نظرانداز کرکے اسلام آباد و دیگر شہروں اور اندرون سندھ تعمیری و ترقیاتی کام کرائے جب کہ کراچی کا حق زیادہ تھا اور کراچی کو لاہور کی طرح ترقی نہیں دی گئی۔
لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں ان ہی کا میئر رہا اور شریف فیملی بھی لاہور میں رہتی ہے جب کہ کراچی میں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے میئر رہے جن کے دور میں پی پی کے ایڈمنسٹریٹروں کے دور سے زیادہ اچھے کام اور ترقی ہوئی جب کہ لاہور میں (ق) لیگ حکومت میں بھی ترقی ہوئی اور لاہور کی حالت کبھی کراچی جیسی لاوارث نہیں رہی اور بقول الخدمت کے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کہ کراچی کو کوئی اون نہیں کرتا اور اسی وجہ سے کراچی لاہور کے مقابلے میں نظرانداز کیا جاتا رہا۔
پنجاب میں اب پی ٹی آئی کی حکومت اور وزیر اعلیٰ کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے جب کہ وزیر اعظم عمران خان کا ایک گھر لاہور میں بھی ہے اور وہ 2018 میں لاہور اورکراچی سے منتخب بھی ہوئے تھے۔ گزشتہ ڈھائی سالوں میں لاہور اب وہ لاہور نہیں رہا جو کبھی مسلم لیگ (ن) کے دور میں تھا۔ اب لاہور میں بھی کراچی کی طرح کچرے کے ڈھیر، صفائی کا شدید فقدان اور تاریکی کا راج ہے اور موجودہ پنجاب حکومت نے لاہور کو کراچی بنا کر رکھ دیا ہے۔