انتخابی اصلاحات میں جاری تاخیر
حکومت نے اپوزیشن سے کہا ہے کہ وہ اجتماعی سیاست چھوڑے اور حکومت سے انتخابی اصلاحات پر بات کرے۔ حکومتی وزیروں نے اپنی اس آفر کے ساتھ یہ بھی کہا کہ پی ڈی ایم ایک ایسا اکٹھ ہے جس کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں بنتا۔ اپوزیشن حکومت کے مینڈیٹ کو تسلیم کرکے ہمارے ساتھ بیٹھے اور انتخابی اصلاحات پر بات کرے۔
دونوں وفاقی وزیروں نے اپوزیشن رہنماؤں پر تنقید جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سیاسی لاوارثوں نے حکومت کے خلاف مہم شروع کی مگر عوام نے اپوزیشن کو مسترد کردیا اور اس کا ساتھ نہیں دیا، لانگ مارچ میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی ہے۔ اپوزیشن سیاسی نابالغوں کے ہاتھوں اپنی سیاست گروی نہ رکھے۔
پی ٹی آئی کی حکومت اپنی نصف مدت پوری کرچکی ہے جس کے پاس قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں تھیں اور اب وہ سینیٹ میں بھی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے اور حکومت میں ہونے کے باعث اپوزیشن سے کم نشستیں رکھنے کے باوجود سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ بھی حاصل کر لیا ہے مگر پی ٹی آئی کی مقبولیت کا یہ حال ہے کہ وہ سندھ، پنجاب، کے پی کے اور پنجاب میں تمام ضمنی انتخابات میں شکست کھا چکی ہے حالانکہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ جس پارٹی کی وفاق، پنجاب اور کے پی کے میں حکومت ہو اور وہ ضمنی الیکشن ہار جائے۔
فاٹا اور گلگت بلتستان میں سرکاری وسائل استعمال کرکے حکومت نے ضرور کامیابی حاصل کی ہے اور وفاق، پنجاب اور گلگت میں پی ٹی آئی نے مجبوری میں مخلوط حکومت بنائی تھی جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھیں عمران خان نے دہشت گرد اور پنجاب کا بڑا ڈاکو قرار دیا تھا۔ حکومت کا بس صرف اپوزیشن پر چل رہا ہے اور نیب کی وجہ سے اس نے اپوزیشن کے ساتھ بھٹو دور سے بھی برا سلوک اختیارکر رکھا ہے اور تمام اہم اپوزیشن رہنما اور دو سابق حکمرانوں پر بے شمار مقدمات قائم ہیں مگر اکثر عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہو گئے اگر عدالتیں بھی حکومت کے کنٹرول میں ہوتیں تو ایک بھی اپوزیشن رہنما ضمانت پر نہ ہوتا۔
حکمران قیادت اپنی مخالف سیاسی جماعتوں اور سابق حکمرانوں اور مولانا فضل الرحمن سے اس قدر بے زار ہے کہ ان سے ملنا کے بھی روادار نہیں، حکومت کی طرف دونوں سابق حکمران جماعتوں نے دوستی اور مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا تھا جس کی حکمران قیادت نے قدر نہیں کی اور کہا کہ وہ این آر او لینا چاہتے ہیں اور ڈھائی سال بعد بھی وہ مسلسل کہہ رہی ہے کہ اپوزیشن اس سے تعاون این آر او کے لیے کرنا چاہتی ہے جب کہ اپوزیشن کی طرف سے کبھی این آر او نہیں مانگا گیا اور اپوزیشن متعدد بار کہہ چکی ہے کہ انھیں حکومت سے کوئی این آر او نہیں چاہیے بلکہ اپوزیشن نے تو حکومت کو میثاق معیشت کی بھی پیشکش کی مگر حکمران قیادت نے اپوزیشن کو اپنا دشمن سمجھا اور اس کا کوئی تعاون قبول نہیں کیا اور اسمبلی کے اندر اور باہر ہمیشہ یہی کہا کہ ان چوروں، ڈاکوؤں کو چھوڑیں گے نہ انھیں این آر او دیں گے۔
اپوزیشن کو گزشتہ سال ستمبر میں حکمران قیادت نے اکٹھا ہونے پر مجبور کیا تو ان کے خلاف پی ڈی ایم وجود میں لایا گیا جو ملک بھر میں بڑے بڑے جلسے کر چکا جس میں ملک بھر میں بڑی تعداد میں افراد نے شرکت کی اور حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے 2018 کے عام انتخابات کو جانبدارانہ قرار دیا تھا اور مولانا فضل الرحمن کی تجویز پر اسمبلیوں کا بائیکاٹ کرنے سے انکار کردیا تھا اور متنازعہ ہونے کے باوجود اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے تک حکومت اپوزیشن کا وجود تسلیم کر رہے ہیں نہ ان سے کسی اہم ملکی مسئلے پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے چیف الیکشن کمیشن کے تقرر کے لیے اپوزیشن لیڈر سے آئینی مشاورت کرنا ضروری نہیں سمجھی اور ملکی سلامتی جیسے اہم مسئلے پر جب اپوزیشن رہنماؤں کے لیے بریفنگ کا کام کیا گیا۔
حکمران قیادت ڈھائی سالوں میں کسی ایک اپوزیشن رہنما بلکہ اپوزیشن لیڈر سے نہیں ملی اور اسے اپوزیشن کا خیال سینیٹ الیکشن کے موقع پر آیا کہ اپوزیشن اس کی خواہش پر چیئرمین سینیٹ کا انتخاب خفیہ رائے شماری کی بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے پر راضی ہو جائے اور صرف اس مسئلے پر آئینی ترمیم کے لیے حکومت کا ساتھ دے۔ حکمران قیادت نے آج تک اپوزیشن کو یہ تجویز نہیں دی کہ وہ الیکشن کو منصفانہ بنانے کے لیے حکومت سے مل کر انتخابی اصلاحات کرے تاکہ آیندہ ملک میں منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے۔
حکمران قیادت نے اسپیکر قومی اسمبلی کو انتخابی اصلاحات کے لیے تمام پارلیمانی رہنماؤں سے رابطے کے لیے کہا ہے اور ایک کمیٹی بھی بنا دی ہے جس پر اپوزیشن کا موقف ہے کہ حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ نہیں بلکہ کمیٹی کمیٹی کھیل کر وقت ضایع کرنا چاہتی ہے۔ اپنے مطلب پر حکمران قیادت کو انتخابی اصلاحات یاد آجاتی ہیں اور مطلب نکل جانے کے بعد انھیں نہ ضمیر فروشی یاد رہتی ہے نہ اپوزیشن کا تعاون چاہیے ہوتا ہے۔