حلیفوں کا اظہار اعتماد
مارچ میں وزیر اعظم پر ان کی پارٹی ہی نہیں بلکہ حکومتی حلیفوں نے بھی 178 ووٹوں کے ذریعے اپنے اعتماد کا اظہارکیا تھا مگر صرف دو ماہ بعد ہی حلیفوں کی شکایات پھر شروع ہوگئی ہیں۔
پہلے ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان نے شکوے کیے، پھر بلوچستان میں پی ٹی آئی کے اکلوتے رکن اسمبلی نے وفاقی وزیر اسد عمر سے مل کر بی اے پی کی حکومت کی شکایات کیں، جس کے بعد بلوچستان کے اسپیکر اور بعض ارکان کو اپنی حلیف حکومت کے وزیر اعلیٰ سے شکایات پیدا ہوئیں۔
بی اے پی کے ایک وزیر نے وفاق کو یاد دلایا کہ اپنے اکلوتے رکن کو سمجھائے کیونکہ وفاقی حکومت بی اے پی کی حمایت سے ہی قائم ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما چوہدری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ حکومت کے خلاف ہماری طرف سے کبھی عدم اعتماد نہیں آئے گی۔
یہ وہی رہنما ہیں جو اپنی چند نشستوں کے باعث ہی پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ہیں اور وفاق اور پنجاب میں وزارتیں بھی ملی ہوئی ہیں مگر چوہدری برادران کبھی خود حکومت کو آنکھیں نہیں دکھاتے بلکہ اس کام کے لیے اپنے وفاقی وزیر اورکچھ رہنماؤں سے بیانات دلا دیتے ہیں اور حکومت گھبرا جاتی ہے اور اسی وجہ سے وزیر اعظم بھی نہ چاہتے ہوئے بھی چوہدری شجاعت حسین کی عیادت کافی دنوں بعد کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔
چوہدری پرویز الٰہی نے حکومت کی حمایت جاری رکھنے کے ساتھ یہ بھی گلہ کیا ہے کہ ہمارے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ وزیر اعظم کے کہنے پر ہم نے دھرنے کا مسئلہ حل کیا۔ راتوں کو جاگ کر تحریک انصاف کے سینیٹروں کو جتوایا۔ حکومتی اتحادی ہونے کی وجہ سے ہمیں زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پہلے دن ہمارے ساتھ جو چیزیں طے ہوئی تھیں ان پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ ہم نے ولید اقبال اور جہانگیر ترین کی بہن کو سینیٹر منتخب کرایا تھا اور شکایتوں کے باوجود حکومتی اتحادی ہیں۔ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم دونوں حکومتی حلیف ہیں۔
ایم کیو ایم کے اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹر (ق) لیگ سے زیادہ ہیں۔ اس کے پاس سندھ اسمبلی کی کچھ نشستیں بھی ہیں اور وہ سندھ کی اپوزیشن میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں مگر وفاقی حکومت میں ان کی اہمیت مسلم لیگ (ق) سے اس لیے کم ہے کہ ان کے پاس پنجاب اسمبلی میں کوئی نشست نہیں ہے اور پنجاب میں (ق) لیگ کی کچھ نشتوں کی وجہ سے ہی پرویز الٰہی وہاں اسپیکر پنجاب اسمبلی ہیں۔
مسلم لیگ (ق) نے ہوشیاری سے اپنا ایک سینیٹر بھی بڑھا لیا ہے اور (ق) لیگ کے ارکان اسمبلی کے علاقوں میں (ق) لیگ نے اپنے پسندیدہ افسران مقرر کرا رکھے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے دونوں کو ایک ایک وفاقی وزارت دے رکھی ہے وہ چوہدری ہاؤس ضرورگئے مگر کبھی ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد نہیں آئے۔ ایم کیو ایم کا اب وہ دور بھی نہیں رہا جب میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو وہ اپنے پاس آنے پر مجبور کر دیا کرتے تھے کیونکہ وقت بدل چکا ہے۔
مسلم لیگ (ق) صدر جنرل پرویز مشرف نے بنوائی تھی اور چوہدریوں کو چند ماہ کی وزارت عظمیٰ اور پنجاب کی 5 سال وزارت اعلیٰ دی تھی۔ مسلم لیگ (ق) نے تحفظات کے باوجود جنرل پرویز مشرف کا مکمل ساتھ دیا تھا۔ انھیں وردی میں صدر منتخب کرایا تھا اور پرویز الٰہی نے انھیں مزید بھی وردی میں صدر منتخب کرانے کا اعلان کیا تھا۔ جنرل پرویز نے چوہدریوں کی مرضی کے بغیر بے نظیر بھٹو کو این آر او دیا تھا مگر شکایات کے باوجود (ق) لیگ نے جنرل پرویز کی حمایت جاری رکھی تھی کیونکہ اس کے پاس ایسا کرنے کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔
مسلم لیگ (ق) کو آصف زرداری نے قاتل لیگ کہا تھا مگر جب انھیں (ق) لیگ کی حمایت کی ضرورت پڑی (ق) لیگ ان کے ساتھ آگئی تھی اور پرویز الٰہی آئین میں عہدہ نہ ہونے کے باوجود ڈپٹی وزیر اعظم بن گئے تھے۔ پی پی حکومت کی حمایت ان کی مجبوری تھی۔
وزیر اعظم عمران خان کے حلیفوں میں یہ خوبی ہے کہ وہ اپنی شکایات اور تحفظات کے باوجود حکومت میں شامل ہیں۔ بی اے پی کو بلوچستان کی حکومت ملی ہوئی ہے (ق) لیگ کو پنجاب کی اسپیکر شپ اور وزارتیں مگر ایم کیو ایم اپنی ایک وزارت پر قناعت کیے ہوئے ہے۔ بی این پی مینگل اپنے اصولوں پر قائم رہی اور حکومتی حلیف دو سال رہی مگر کوئی وزارت نہیں لی اور حکومت نے ان سے کیے وعدے پورے نہ کیے تو وہ اپوزیشن میں آگئے حکومتی عہدہ ان کی مجبوری نہیں تھی۔
کوئی اصولوں پر کوئی شرکت اقتدار اور سیاسی مفاد کے لیے ہر دور میں حکومتی حلیف رہا ہے مگر مسلم لیگ (ق) نے کئی حکومتوں میں حلیف ہوتے ہوئے شکایتیں ضرور کیں مگر الگ ہونے کی دھمکی کبھی نہیں دی اور اب بھی شکایتوں کے باوجود کہا جا رہا ہے کہ ہماری طرف سے حکومت کے خلاف کبھی عدم اعتماد نہیں آئے گی اس طرح وہ حکومت میں بھی شامل چلی آ رہی ہے اور اپنی سیاست سے اپنے کام بھی لے رہی ہے اور اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔