بلدیاتی انتخابات کا مزید التوا
مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں کیے گئے فیصلے کے تحت وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے جو سال رواں میں ستمبر یا اکتوبر میں شروع ہو کر مارچ 2023میں مکمل ہونگے۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا، پی ٹی آئی کی حکومتوں نے اس اجلاس میں 2017میں کی گئی متنازعہ مردم شماری کے نتائج جاری کرنے کی حمایت اور سندھ حکومت نے اس کی مخالفت کی اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج کو آیندہ مردم شماری سے منسلک کرنے کی تجویز پیش کی۔ بلوچستان نے اس سلسلے میں مشاورت کے لیے وقت مانگ لیا ہے جس پر آخری فیصلہ نہ ہو سکا۔
گزشتہ بلدیاتی انتخابات 2015 کے آخر میں سپریم کورٹ کے حکم پر کرائے گئے تھے جن میں برسر اقتدار حکومتوں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے جماعتی بنیاد پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی جس میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سب سے بڑی اور واضح تھی جس کی سزا پی ٹی آئی حکومت نے آتے ہی پنجاب کو دی اور دو سال بھی انھیں پورے کرنے نہیں دیے گئے اور سیاسی مخالفت میں مسلم لیگ (ن) سے وابستگی کے باعث پنجاب کے بلدیاتی ادارے توڑ کر مسلم لیگی بلدیاتی عہدیداروں کی جگہ پنجاب حکومت نے سرکاری افسروں کو ایڈمنسٹریٹر مقررکردیا تھا۔
2015 کے بلدیاتی انتخابات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے 2016 میں بلدیاتی عہدیداروں کو چارج ملا اور پی ٹی آئی حکومت نے 2018 میں آتے ہی انھیں ختم کردیا تھا۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے بلدیاتی عہدیداروں کی اکثریت تھی اس لیے وہاں بلدیاتی اداروں کو برقرار رکھا گیا جن کی مدت 2020 کے وسط میں مکمل ہوئی اور وہ ختم کردیے گئے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان پنجاب میں کے پی طرز کا بلدیاتی نظام لانا چاہتے تھے جو جان بوجھ کر نہیں لایا گیا۔
پی ٹی آئی کے منشور میں بااختیار بلدیاتی نظام شامل تھا جو تین سالوں میں بھی نہیں آیا اور عوامی نمایندوں کو ہٹا کر ارکان اسمبلی کی خوشنودی کے لیے بلدیاتی نظام میں تبدیلی کی باتیں ہوتی رہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات اس خوف سے نہیں کرائے گئے کہ اس میں مسلم لیگ کامیاب ہو جاتی۔ کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی مگر وہاں بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے اور سندھ اور بلوچستان میں بھی یہی ہوا جو آئین کی کھلی خلاف ورزی تھی۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ اپنے فیصلے میں پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال کردیے اور پنجاب حکومت کے فیصلے کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا مگر پنجاب حکومت نے سابقہ بلدیاتی عہدیداروں کو چارج نہیں لینے دیا اور سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا ایک ماہ سے انتظار کیا جا رہا ہے تاکہ اس پر سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل داخل کرکے (ن)لیگی بلدیاتی عہدیداروں کوکام سے روک کر وقت ضایع کیا جائے۔
پی ٹی آئی کی طرح پیپلزپارٹی بھی آئین کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے خلاف ہے کیونکہ ملک بھرکے ارکان اسمبلی بھی چاہتے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کو حکومتوں کی طرف سے ملنے والے فنڈز ترقیاتی کاموں کے لیے انھیں ملتے رہیں اور وہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے وہ فنڈز مرضی سے استعمال کرتے رہیں۔
آئین کے آرٹیکل 140-Aکے تحت وقت مقررہ پر ملک میں بلدیاتی انتخابات ضروری ہیں اور سپریم کورٹ کے مطابق ایسا نہ کرنا آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے مگر بدقسمتی سے اب تک اس آئینی خلاف ورزی کی سزا کسی کو نہیں ملی۔
بلدیاتی انتخابات پہلے وفاقی حکومت کی ذمے داری تھے مگر 18 ویں ترمیم کے بعد بلدیات کے تمام معاملات صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہیں۔ پہلے ملک میں ایک جیسا بلدیاتی نظام ہوتا تھا اب چاروں صوبوں کے بلدیاتی نظام مختلف اور آئین کے مطابق بااختیار نہیں ہیں اور اس بے اختیار بلدیاتی نظام کے تحت بھی انتخابات نہیں کرائے جا رہے اور اب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے سے جواز میسر آگیا ہے جس کے باعث 2023 میں مردم شماری مکمل ہوگی اور وہ بھی متنازعہ ہو جائے گی۔
اگر قابل قبول ہوئی تو پہلے حلقہ بندیاں اسمبلیوں کی ہوں گی اور پی ٹی آئی حکومت عام انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کا رسک کبھی نہیں لے گی کیونکہ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کو مشکلات کا سامنا ہے اور 2023میں عام انتخابات کے بعد ہی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوگا اور بلدیاتی انتخابات رواں سال بھی نہیں ہوں گے اور آئینی خلاف ورزی کا تسلسل جاری رہے گا۔