بلدیاتی نمایندے
سپریم کورٹ نے 25 مارچ کو پنجاب کے تحلیل کیے گئے بلدیاتی اداروں کو بحال کردیا تھا، جس پر پنجاب حکومت نے عمل نہیں کیا اور سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کرنے کو کہا اور دو ماہ میں تفصیلی فیصلہ نہ آنے سے قبل ہی سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل داخل کی اور موقف اپنایا کہ ملک بھر میں بلدیاتی اداروں کی مدت مکمل ہوچکی ہے اور نئے انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں اور نئی حلقہ بندیاں ہونی ہیں، اس لیے سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کے خلاف عدالتی کیس میں بلدیاتی ادارے بحال نہ کرنے پر چیف سیکریٹری پنجاب سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرکے جواب بھی طلب کر رکھا ہے۔
پنجاب میں 2015 میں جو بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیاد پر ہوئے تھے، اس میں مسلم لیگ (ن) کے بلدیاتی نمایندوں نے واضح کامیابی حاصل کی تھی اور پی ٹی آئی کسی ایک ضلع کی کونسل کی چیئرمین شپ بھی حاصل نہیں کرسکی تھی اور اسے برائے نام چند بلدیاتی نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں تھیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو واضح کامیابی ملی تھی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ نشستیں ملی تھیں مگر اپنی حکومت ہونے کے باوجود پی ٹی آئی اپنی توقع کے مطابق کامیابی حاصل نہیں کرسکی تھی۔
ملک میں مارشل لا حکومتیں قائم کرنے والے اور آمر کہلانے والے صدور نے اپنے اپنے دور میں ملک کو تین مختلف بلدیاتی نظام دیے جن میں جنرل پرویز کا ضلعی حکومتوں کا نظام سب سے بہتر اور با اختیار تھا جس میں منتخب ناظمین کو مالی اور انتظامی طور پر جتنے اختیارات حاصل تھے اتنے صدر جنرل ایوب اور صدر جنرل ضیا الحق کے دیے گئے بلدیاتی نظام میں نہیں تھے اور بلدیاتی نمایندے ہر صوبے میں محکمہ بلدیات کے محتاج تھے۔
جنرل پرویزکا بلدیاتی نظام صوبائی نہیں وفاقی اور ملک بھر میں ایک جیسا تھا جب کہ اب چاروں صوبوں میں بلدیاتی نظام مختلف اور صوبوں کے مکمل کنٹرول میں ہے جہاں سب سے زیادہ اختیارات وزرائے اعلیٰ اور محکمہ بلدیات کے وزیروں کے ہاتھ میں ہیں اور منتخب بلدیاتی اداروں کو برائے نام اختیارات دے کر تین صوبوں میں منتخب بلدیاتی نمایندوں کو اس لیے مدت پوری کرنے دی گئی کہ وہاں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی اپنی حکومت تھی اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت نے قائم ہوتے ہی انتقامی طور پر مسلم لیگ (ن) کی واضح بلدیاتی اکثریت ختم کرنا تھی۔
اس لیے پہلا وار پنجاب کے بلدیاتی اداروں پر کیا گیا اور انھیں اپنی نصف مدت بھی پوری نہیں کرنے دی گئی اور بلدیاتی عہدیداروں پر حکومت بدلتے ہی پہلے ان کے اختیارات محدود کیے گئے اور چند ماہ بعد انھیں تحلیل کردیا گیا جس کے خلاف انھوں نے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا مگر شنوائی نہ ہوئی اور دو سال بعد سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا جسے پنجاب حکومت نے تسلیم نہیں کیا۔
پنجاب کے بلدیاتی نمایندے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اپنے اپنے بلدیاتی اداروں میں پہنچے تو حکومتی ہدایت پر انھیں ان کے دفاتر میں داخل نہیں ہونے دیا اور متعلقہ بلدیاتی افسروں نے انھیں چارج دینے سے انکارکردیا جس پر لاہور کے لارڈ میئر سمیت دیگر میئروں اور اضلاعی تحصیلوں اور شہروں کے بلدیاتی اداروں نے وہاں موجود سبزہ زاروں میں اجلاس منعقد کیے جن میں کسی بلدیاتی افسر نے شرکت نہیں کی۔
بعض بلدیاتی عہدیداروں نے اپنے گھروں پر بھی اجلاس منعقد کرکے قراردادیں منظور کرکے حکومت پنجاب سے اپیل کی کہ انھیں اپنے دفاتر میں بیٹھنے دیا جائے مگر ان کی نہیں سنی گئی۔ اٹک کے میئر نے اپنے دفتر میں اجلاس کرنا چاہا تو ان پر مقدمہ قائم کردیا گیا اور دو ماہ تک بلدیاتی عہدیداروں کی تذلیل کی گئی اور تفصیلی فیصلے کو چارج نہ دینے کا جواز بنایا گیا۔
قانونی طور پر بلدیاتی اداروں کے اجلاس متعلقہ بلدیاتی ادارے کے بڑے سرکاری افسر یا کونسل افسر کے جاری کردہ ایجنڈے کے مطابق کونسل ہالوں یا چیئرمین کے دفتر میں ہوتے ہیں جن میں منتخب نمایندے اور بلدیاتی افسر شریک ہوتے ہیں۔
بلدیاتی اداروں کے بعض سربراہوں نے غیر سول صدور اور گورنروں تک کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا تھا اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی مگر نام نہاد جمہوری حکومتوں میں منتخب بلدیاتی نمایندے اتنے بے بس تھے کہ محکمہ بلدیات کے افسر کے حکم کے خلاف احتجاج یا حکم عدولی نہیں کرسکتے تھے۔ لاہور کا لارڈ میئر ہو یا ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا میئر متعلقہ کمشنر سے وقت لے کر ان سے ملتے اور محکمہ بلدیات کے وزیر اور سیکریٹری کو ناراض نہیں کرتے تھے جب کہ ضلعی حکومتوں میں وزیر بلدیات بے بس اور ضلعی چیئرمینوں کے ماتحت ڈی سی اوز کی شکل میں کمشنر، صوبائی سیکریٹری اور ڈپٹی کمشنر ہوا کرتے تھے اور حکم نہ ماننے والے اپنے ماتحت اعلیٰ افسروں کے تبادلے تک کرا دیا کرتے تھے۔