اسرائیل فلسطین تنازع
1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں پورا یورپ اور امریکہ اسرائیل کے ساتھ تھے اور مصر کو عربوں کی حمایت حاصل تھی۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل اس جنگ کے مرکزی کردار تھے اور انہوں نے پہلی دفعہ اس جنگ میں تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔ عربوں نے تیل کی سپلا ئی بند کر دی اور پورا یورپ اور امریکہ اندھیرے میں ڈوب گئے۔
کارخانے اور ملیں بند ہوگئیں، ٹرانسپورٹ اور گاڑیاں سڑکوں سے غائب ہوگئیں، لوگوں نے پیدل سفر شروع کر دیئے۔ ان دنوں یورپ میں ایک عجیب قانون بنا جس کی رو سے کو ئی بندہ اپنی گاڑی میں اکیلے سفر نہیں کر سکتا تھا، ہر گاڑی کے لیئے ضروری تھا کہ وہ پیدل چلنے والوں کو لفٹ دے اور تیل کی بچت کے لیئے گو رنمنٹ کی پالیسیوں پر عمل کرے۔ اس قانون کے پیش نظر یورپی ملک کے وزیر پر ایک مقدمہ بھی درج ہوا کیونکہ اس نے گاڑی میں اکیلے سفر کیا تھا اورکسی کو لفٹ نہیں دی تھی۔
اس ساری صورتحال نے امریکہ اور یورپ کی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی، امریکی انتظامیہ حرکت میں آئی، ہنری کسنجر دوڑتا ہوا سعودی عرب پہنچا لیکن شاہ فیصل نے دو دن تک اسے ٹائم نہیں دیا۔ دو دن بعد جدہ کے ایک خیمے میں ملاقات ہو ئی، ہنری کسنجر نے پہلے دھونس دھاندلی سے شاہ کو قائل کر نے کی کو شش کی کہ اگر ہم نے تیل کا بائیکاٹ کر دیا تو دنیا میں کوئی آپ کا تیل نہیں خریدے گا۔ شاہ نے پوری سنجیدگی سے جواب دیا: "مسٹر کسنجر ہمارے آباؤ اجداد کجھوروں اور اونٹوں کے دودھ پر گزارا کرتے تھے، ہم بھی ویسے ہی جی لیں گے لیکن اگر آپ کو تیل چاہیے توآپ کو فلسطین کو آزادی دینا پڑے گی ورنہ ہم تیل کے کنوؤں کو آگ لگا دیں گے"۔
کسنجر نے تیور بدلے اور خوشامد پے اتر آیا: "معزز بادشاہ میرا جہاز ایندھن نہ ہو نے کے باعث آپ کے ہوائی اڈے پر کھڑا ہے کیا آپ اس میں تیل بھرنے کا حکم نہیں دیں گے؟ دیکھئے میں آپ کو اس کی ہرقیمت ادا کر نے پر تیار ہوں۔ "شاہ فیصل پوری سنجیدگی سے بولے: "میں ایک ضعیف اور عمر رسیدہ آدمی ہوں میری ایک ہی خواہش ہے میں مرنے سے پہلے مسجد اقصیٰ میں دو رکعت نماز پڑھنا چاہتا ہوں کیا تم اس میں میری مدد کرو گے"۔
عرب اسرائیل میں اب تک چار جنگیں ہو چکی ہیں اور میں آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو ان جنگوں کی تھوڑی ہسٹری بتانا چاہتا ہوں۔ عرب اسرائیل میں پہلی جنگ 1948میں ہو ئی تھی اور اس جنگ میں اسرائیل کا پلڑا بھا ری رہا۔ دوسری عرب اسرائیل جنگ 1956میں نہر سوئز کی وجہ سے ہو ئی، نہر سوئز مصر کی سمندری گزرگا ہ ہے جو بحیرہء روم کو بحیرہء قلزم سے ملا تی ہے، یہ 163کلومیٹر طویل نہر ہے اور اس نہر کی بدولت تجارتی جہازوں کا فاصلہ سمٹ کر آدھا رہ جاتا ہے۔
تجارتی جہاز افریقہ کے گرد چکر لگائے بغیر ایشیا اور یورپ میں داخل ہو جا تے ہیں۔ یہ نہر 1869میں کھودی گئی تھی اور اس وقت یہ معاہدہ ہو اتھا کہ نوے سال تک یہ نہر عالمی طاقتوں کے قبضے میں رہے گی اس کے بعد مصر اسے قومی تحویل میں لے لے گا۔ 26 جولائی 1956میں جمال عبدالناصر نے نہر کو قومی تحویل میں لے لیا جس کی وجہ سے برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کی مدد سے مصر پر حملہ کر دیا۔
اقوام متحدہ کی مداخلت سے یہ جنگ ختم ہو ئی اور برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ جنگ ختم ہوئی تو صدر ناصرنے "عظیم تر مصر" کے منصوبے پر عمل شروع کر دیا۔ اس نے پہلے یمن میں مداخلت کی، ستر ہزار فوجی یمن میں بھیجے اور ساتھ ہی اسرائیل کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ اسرائیل کو صدر ناصر کی توسیع پسندانہ پالیسیاں ہضم نہیں ہوئیں۔ اسرئیل نے جنگ کی تیاری کی اور 1967میں اچانک مصر پر حملہ کر دیا۔ اسرائیل کو امریکہ کی حمایت حاصل تھی، مصر کے اکثر ہو ائی اڈے اور جنگی جہاز تباہ ہو گئے، ہزاروں لوگ شہید ہوئے۔
اسرائیل کا حملہ اچانک تھا اس لیے مصر کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا۔ اسرائیل جنگ جیت گیا، ہزاروں مصری فوجی قید ہو گئے، اسرائیل نے شام کے کئی علاقے، مصر کے جزیرہ نمائے سینا پر قبضہ کر لیا۔ چھ روزہ جنگ میں عرب افواج کے 21 ہزار فوجی ہلا ک ہوئے، 45 ہزار زخمی اور چھ ہزار قیدی بنا لیے گئے۔ سیکڑوں ٹینک اور چار سو سے زائد طیارے تباہ ہوئے۔ عربوں نے آج تک اتنی ذلت آمیز شکست نہیں دیکھی تھی چناچہ صدر ناصر نے استعفیٰ دے دیا۔
نہر سوئز مصری آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ تھی اور اس سے ہر سال اسے ساڑھے نو کروڑ ڈالر کی آمدنی ہو تی تھی۔ 1967 کی جنگ کے بعد یہ نہر بند ہوگئی جس سے مصری معیشت پر بہت برا اثر پڑا۔ صدر ناصر نے نہر سوئز کی واپسی کے لیے ایک نئی جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ صدر ناصر نے روس کا دورہ کیا اور روس کو اسلحے کی فراہمی پر قائل کر لیا۔ کچھ عرصہ بعد صدر ناصر کی وفات ہوگئی، انور سادات صدر بنا اور اس نے 6 اکتوبر 1973 میں بھرپور تیاری کے ساتھ سینا کے مقبوضہ مصری علاقے کو چھڑانے کے لئے حملہ کر دیا۔
جنگ کا آغاز یہودیوں کے مقدس تہوار یوم کپور کے دن ہوا۔ مصر نے سویز کے پار سینا کے کچھ علاقے کو واگزار کرا لیا۔ قریب تھا کہ اسرائیل کی کمر ٹوٹ جاتی اوراسرائیل جنگ ہار جاتا، امریکہ میدان میں کود پڑا اور بات مذاکرات کی میز پر چلی گئی۔ مذاکرات میں عربوں کا مؤقف مضبوط تھا لہٰذا اسرائیل کو مقبوضہ عرب علاقے خالی کرنا پڑے اور یوں 27 سالہ کشمکش میں پہلی دفعہ عربوں کو فتح حاصل ہوئی۔ اس جنگ میں پاکستان نے بھی عربوں کی مدد کی تھی اور سولہ پاکستانی ہوا باز جنگی جہاز اڑانے کے لیے مصر روانہ ہوئے تھے۔
آپ حالیہ فلسطینی جنگ کی طرف آئیں، فلسطینی مسلمانوں پر تاریخ کا بدترین ظلم ڈھایا جا رہا ہے لیکن ساٹھ ممالک کے حکمرانوں میں سے کسی کی آنکھیں نہیں کھلی۔ کسی نے آگے بڑھ کر جنگ بندی کے لیے کردار ادا نہیں کیا۔ او آئی سی بھی نشستند، گفتند اور برخاستند سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ عالم اسلام آج لیڈر سے محروم ہے، لیڈروں کی کثرت نے لیڈروں کے فقدان کو جنم دیا ہے۔ مختلف مسلم ممالک غزہ کے مظلومین کی مدد تو کر رہے ہیں لیکن وہ اسرائیل کے ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کر رہے۔
غزہ میں پھول مسلے جا رہے ہیں اور سعودی عرب میں فلم فیسٹول جاری ہے۔ پاکستان میں حکومتی اور سرکاری سطح پر کنسرٹ جاری ہیں۔ یہ مسلم ممالک کے دو نمائندہ ملکوں کے حکمرانوں کا طرز عمل ہے بقیہ اٹھاون اسلامی ممالک کے حکمرانوں کیا کر رہے ہیں اس کا آپ کو اندازہ ہو جانا چاہئے۔ جنگیں عوام نہیں لیڈر اور حکمران لڑا کرتے ہیں اور ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم ایک ارب پینسٹھ کروڑ ہونے کے باوجود لیڈر سے محروم ہیں۔