دسمبر اور زندگی کا آرٹ
یہ گزرتے دسمبر کے آخری دن تھے، موسم انتہائی سرد تھا اور پورا شہر دھند کی لپیٹ میں تھا۔ میں 2024 کی نئی قراردادیں ترتیب دے رہا تھا اور اس کے لیے مختلف بزرگوں، بابوں، دانشوروں اور اہل علم سے ملاقاتیں کر رہا تھا۔ میں فطرتاً تنہائی پسند ہوں اور عموماً اس طرح کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتا لیکن اس بار میں نے سوچا کہ مجھے میل ملاقات بڑھانی چاہیے۔ انسانوں کی معلوم تاریخ میں دسمبر کو بڑی اہمیت حاصل ہے، دنیا کے ہر ملک میں دسمبر کو ظالم، دردناک اور ہجر و وصال کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔
دنیا بھر کے شاعروں نے دسمبر کو شاعری کا موضوع بنا کر اسے ہمیشہ کے لیے امر کر دیا ہے اور آج دنیا بھر میں دسمبر ہجر، تنہائی، اداسی، مایوسی اور پریشانی کی تصویر بن گیا ہے۔ دسمبر میں ہر انسان گزرے سال کو سامنے رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ اگر ہم نئے سال کے شروع میں گزرے سال کو سامنے رکھیں، اس میں کی جانے والی غلطیوں، کوتاہیوں اور ناکامیوں کی فہرست بنائیں تو آئندہ ہم کافی حد تک اپنی غلطیوں کو درست اور زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔ زندگی گزارنے اور جینے میں بڑا فرق ہے، ہم رو دھو کر زندگی گزار تو لیتے ہیں لیکن ہم زندگی کو ہنسی خوشی جی نہیں پاتے۔
ہم میں سے اسی فیصد لوگ زندگی کو بوجھ سمجھتے ہیں اور ہمارے چوبیس میں سے بیس گھنٹے زندگی کو کوستے اور بُرا بھلا کہتے گزر جاتے ہیں حالانکہ زندگی ایک نعمت ہے اور نعمت کبھی زحمت نہیں ہوتی۔ فرق صرف یہ ہے ہم زندگی گزارنے کے آرٹ سے ناواقف ہوتے ہیں اور جب تک یہ آرٹ نہیں سیکھ لیتے زندگی ہمارے گلے کا طوق بن جاتی ہے۔ آپ ہر سال کے شروع میں اپنے مستقبل کیلئے نئی قراردادیں مرتب کریں، ماضی کی غلطیوں پر اپنے دل سے سوری کہیں اور آئندہ زندگی گزارنے کے بجائے زندگی جینے کا عزم کر لیں۔ آپ آئندہ کیلئے پلان ترتیب دیں اور پورا سال اس پلان کے مطابق گزاریں۔ کامیابی کے لیے 75 فیصد نمبر مینجمنٹ اور ارادے کے ہوتے ہیں، اگر آپ نے اچھی مینجمنٹ کے ساتھ اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا اور اس ہوم ورک پر عمل کا پختہ ارادہ کر لیا توآپ نے 75 فیصد کامیابی حاصل کر لی۔
میں مختلف شخصیات سے مل چکا تھا اور آج میری ملاقات ایک بابے سے طے تھی۔ صبح کے دس بج چکے تھے لیکن دھند اور سورج کے درمیان ابھی تک کشمکش جاری تھی۔ میں شہر کی مرکزی شاہراہ سے ہوتا ہوا شہر کے ایک مضافاتی علاقے میں پہنچ گیا، مجھے بابا جی کا صحیح ایڈریس معلوم نہیں تھا میں گاؤں کے لوگوں سے پوچھتا ہوا بابا جی کی خانقاہ پر پہنچ گیا۔ مجھے یہ خانقاہ تھوڑی عجیب سی لگی، کوئی قبر نہ مزار، کوئی بھنگی نہ چرسی، کوئی قطار نہ لنگر کے لیے ہاتھا پائی اور کوئی نذر نہ نذرانہ۔ مجھے ایک لمحے کے لیے خوشی سی ہوئی جیسے میں کسی اچھی جگہ پر پہنچ گیا ہوں۔ ایک چھوٹی سی مسجد، مسجد سے متصل وضو خانہ، ایک طرف قرآن ترتیب سے رکھے ہوئے اور مسجد میں بیٹھے کچھ لوگ ذکر و فکر میں مشغول۔
میں نے ایک صاحب سے بابا جی کے متعلق پوچھا اس نے انگلی کے اشارے سے بتایا بابا جی سامنے چاشت کی نماز پڑھ رہے ہیں، میں ایک طرف ہٹ کر ان کا انتظار کرنے لگا، بابا جی نے سلام پھیرا، فارغ ہوئے اور مجھے اپنے پاس بلا لیا۔ رسمی حال احوال کے بعد میں نے عرض کی: بابا جی میں نئے سال کی قراردادیں ترتیب دے رہا ہوں اور اس کے لیے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، میں چاہتا ہوں میں اخلاقیات اور معاملات میں آپ سے راہنمائی لوں۔ بابا جی نے گہری نظروں سے میری طرف گھورا اور بولے: تم نیا سال کس طرح گزارنا چاہتے ہو۔ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا: میں چاہتا ہوں 2024 میرے لیے 2023 سے زیادہ خوش کن، کامیابیوں اور کامرانیوں کا سال ثابت ہو اور میں اس سال خود کو کامیاب لوگوں کی صف میں دیکھنا چاہتا ہوں۔
بابا جی نے گہرا سانس لیا اور بولنا شروع ہوئے: تم اپنے اندر چیزوں کو کھونے کا حوصلہ پیدا کر لو تم زندگی میں کبھی پریشان نہیں رہو گے۔ میں نے تفصیل چاہی تو وہ گویا ہوئے: جس طرح ہم کامیابیوں کے لیے تیار رہتے ہیں اسی طرح ہمیں دکھوں، غموں اور ناکامیوں کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ ہمارے اندر چیزوں کو کھونے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے اور جس انسان نے چیزوں کو کھونے کا یہ آرٹ سیکھ لیا اس نے زندگی کی حقیقت کو پا لیا۔ مجھے بابا جی سے ان فلسفیانہ موشگافیوں کی توقع نہیں تھی، میں سراپا سوال بنا بیٹھا تھا، باباجی نے میری کیفیت کو جان لیا اور اس فلسفے کی گرہیں کھولنا شروع کیں: دیکھو! ہم اپنی زندگی میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے کھو جانے سے ناراض ہو جا تے ہیں، غصے میں آ جاتے ہیں اور یہی غصہ بعد میں ہماری بڑی پریشانیوں کا سبب بن جاتا ہے۔
دنیا کے اسی فیصد مسائل غصے سے شروع ہوتے ہیں اور غصے پر آ کر ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم سے کوئی کتاب گم ہو جائے، کوئی قیمتی قلم کھو جائے یا گاڑی، الماری یا لاک کی چابیاں گم ہو جائیں ہم فوراً پریشان ہو جاتے ہیں حالانکہ ہم نے یہ چیزیں خود ہی کہیں رکھی ہوتی ہیں اور ہم بھول گئے ہوتے ہیں۔ ہمیں کوئی کتاب نہ ملے، موبائل کا چارجر گم ہو جائے، ضرورت کے وقت کمپیوٹر کا ماؤس نہ ملے، آفس جانے سے قبل شوز گم ہو جائیں، کالج، یونیورسٹی جانے سے پہلے ہمارا بیگ نہ ملے، مسجد جانے سے قبل ہماری ٹوپی نہ ملے، میٹنگ یا کانفرنس پر جاتے ہوئے ہماری جرابیں گم ہو جائیں، سیر و تفریح پر جانے سے قبل ہم اپنا کیمرا ساتھ لانا بھول جائیں یا دفتر جاتے ہوئے اپنا موبائل گھر بھول آئیں تو ہم فوراً جذباتی ہو جاتے ہیں۔ غصے سے ہماری رگیں پھولنے لگتی ہیں اور ہمارے سامنے دوست، ملازم، بھائی، بہن یا کوئی بھی ہو ہم بادل کی طرح اس پر برسنے لگتے ہیں۔ حالانکہ یہ چیزیں یہیں کہیں ہوتی ہیں اور گھنٹے دو گھنٹے یا ایک دو دن بعد خود بخود مل جاتی ہیں۔
دراصل یہ قدرت کی طرف سے ہماری قوت برداشت کا امتحان ہوتا ہے اور ہم میں سے ننانوے فیصد انسان اس امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ ہمیں چیزوں کو کھونے کا یہ آرٹ سیکھنا چاہیے اور جب تک ہم یہ آرٹ نہیں سیکھ لیتے ہماری زندگی جذبات کی کمزور بنیادوں پر کھڑی رہتی ہے اور جیسے ہی ان جذبات کو حدت ملتی ہے یہ دھڑام سے نیچے گرتی ہے اور کانچ کے کھلونے کی طرح ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔ بابا جی ذرا دیر کے لیے رکے اور گویا ہوئے: ہمیں چیزوں کو کھونے کے ساتھ پرانی یادوں، بیتے ہوئے پل اور ماضی کے خوشگوار لمحات کو بھی کھو دینا چاہیے۔ تقدیر ماضی کے حسین جزیروں سے کبھی کسی کو خوشیاں مستعار نہیں دیتی اور جو انسان ماضی سے خوشیوں کی بھیک مانگنے کا عادی ہو حال اور مستقبل کبھی اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ ہمیں اپنے ماضی کو بھول کر اپنے مستقبل کو ماضی سے زیادہ یادگار اور شاندار بنانا چاہئے اور جب تک ہم یہ آرٹ نہیں سیکھ لیتے ہم صحرا میں بھٹکنے والے مسافر کی طرح سرگرداں رہتے ہیں اور ہمیں اپنی زندگی عذاب دکھائی دینے لگتی ہے۔
ظہر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا، مؤذن نے آواز بلند کی، بابا جی نے وہیں گفتگو ختم کی اور حجرے کی جانب چل دیے۔ میں نے بابا جی سے چیزوں کو کھونے، پرانی یادوں کو فراموش کرنے اور ماضی سے نکلنے کا آرٹ سیکھ لیا تھا، میں نے مزید کیا سیکھا وہ پھر کبھی۔