سب سے بڑا موضوع مہنگائی
پاکستان میں آج کل سب سے بڑا موضوع مہنگائی ہے جب مہنگائی کو ڈسکس کیا جاتا ہے تو پٹرول کی قیمتوں کو ڈسکس کیا جاتا ہے۔ آٹا، گھی، چکن، گوشت، دودھ، بجلی اور گیس کو ڈسکس کیا جاتا ہے کہ یہ سب چیزیں بہت مہنگی ہو گئی ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک یہ نوید سنا رہے ہیں کہ اس سال ملکی معاشی ترقی کی شرح 5فیصد رہے گی جب کہ دوسری طرف جب دیکھتے ہیں تو عوام بیچاری مہنگائی کے ہاتھوں پس رہی ہے. ادارہ شماریات کہتا ہے کہ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں تین سال میں 133فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک طرف دیکھیں تو پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارہ 11ارب 66 کروڑ روپے ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پہلی سہ ماہی میں 500ارب روپے زیادہ ٹیکس جمع ہوا ہے۔
پاکستان کی اکانومی پر نظر ڈالیں تو کرنٹ اکائونٹ خسارہ میں 3.4ارب ڈالر کا اضافہ ہوا لیکن اس کے باوجود اگر کرنٹ اکائونٹ خسارے کو پچھلے 2 سال میں ملا کر دیکھیں اور پچھلے10 سال کی کار کردگی سے مقابلہ کیا جائے تو پاکستان کی معاشی حالت بہت بہتر ہے۔ حکومت جو اپنے لئے اہداف مقرر کر رہی ہے اس میں گردشی قرضہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ گردشی قرضے میں اس سال425 ارب روپے کم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے یعنی حکومت اتنا قرضہ اتارے گی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی جانب سے 4ارب 20 کروڑ ڈالر کا اسپورٹ پیکیج اور ادھار تیل ملنے کے اعلان کی وجہ سے ملکی معیشت کو نئی توانائی ملی، زر مبادلہ کے ذخائر میں متوقع اضافے سے روپے کی قدر کچھ مضبوط ہوئی، ڈالر نیچے آیا۔
اب آئی ایم ایف سے بھی جلد پروگرام طے ہونے کا امکان ہے۔ اچھی بات ہے کہ اسٹاک مارکیٹ اوپر جا رہی ہے۔ سعودی عرب سے ادھار تیل ملنے کی وجہ سے بیرونی ادائیگیوں میں توازن اور امپورٹ بل میں کمی آئے گی۔ وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب اور ولی عہد سے ملاقات کے ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ سعودی عرب سے تین ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرانے اور ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات کی فنانسسنگ سے معیشت کچھ بہتر ہو گی، اس خبر کے ساتھ ہی ڈالر کا ریٹ کم ہوا اور ہمارے روپے کو کچھ سکھ کا سانس مل۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ سعودی عرب پہلے بھی اسی حکومت کو 3 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں پارکنگ کے لیے دے چکاہے، یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کرنے میں مشکلات پیش آرہی تھیں۔ پھر انہوں نے 2 ارب ڈالر واپس مانگ لیے تھے جو ہم نے چین سے لے کر دیے تھے۔ اس وقت بھی وہی صورتحال ہے۔
چین کے سرمایہ کاروں اور پاور کمپنیوں کو پاکستان نے فوری طور پر ایک ارب 40 کروڑ ڈالر ادا کرنے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب نے یہ مدد اس وقت فراہم کی ہے جب پاکستان ایک مالی بحران میں پھنس چکا تھاآئی ایم ایف سے قسط جاری ہونے میں شدید مشکلات نظر آرہی تھیں۔ پاکستان میں روپے کی قدر روز کم ہو رہی تھی۔ حکومت کے پاس ان مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا۔ ایسے میں سعودی عرب کی جانب سے مالی پیکیج ایک بہت بڑے ریلیف کا باعث بنے گا۔ سعودی عرب نے پاکستان کی آئی ایم ایف جتنی مدد کی ہے، لیکن سعودی عرب نے آئی ایم ایف جیسی شرائط عائد نہیں کی ہیں۔
سعودی عرب کے پیکیج میں پاکستان کی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔ عام پاکستانی پر ٹیکس لگانے کی کوئی شرط نہیں۔ بجلی مہنگی کرنے کا کوئی مطالبہ نہیں۔ بلکہ ادھار تیل دیا گیا ہے تاکہ پاکستان اپنے زرمبادلہ کے ذخائر بھی بہتر کر سکے اور پاکستان میں پٹرول کی قیمتوں میں استحکام آسکے۔ سعودی پیکیج آنے کے بعد روپے کی قدر میں کمی نہ صرف رکی ہے بلکہ اس میں بہتری آئی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق سعودی حکومت ایک سال کے لیے پاکستان کے اکاؤنٹ میں 3 ارب ڈالر جمع کرائے گی اور اسے کم از کم اکتوبر 2023 میں آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل تک برقرار رکھے گی۔ یاد رہے کہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے دس ارب ڈالر تک مصنوعات باہر کی دنیا سے منگواتا ہے اور آر ایل این جی کی درآمد سے توانائی کے شعبے کی درآمدات 14 سے 15 ارب ڈالر پہنچ جاتی ہیں۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ادھار پر تیل حاصل ہونے سے پاکستان کو زرِمبادلہ کے ذخائر برقرار رکھنے میں مدد تو ملے گی لیکن قرض بڑھے گا اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گیا۔ آنے والے دنوں میں مہنگائی بڑھے گی۔ اس کی وجہ گلوبل فنیمنا ہے۔ کوویڈ کے بعد تمام اکانومی دوبارہ اوپن ہو گئی ہیں۔ کوویڈ کے دنوں میں کمپنیوں نے جتنے بھی قسم کے پیکیج دئیے تھے اب ان کو حکومت برقرار نہیں رکھ سکتی بلکہ ٹیکسوں اور دیگر مد میں عوام پر ان کا بوجھ ڈالا جائے گا۔ کوویڈ میں جو سپلائی لائن متاثر ہو ئی تھی وہ اب بحال ہو رہی ہے اور چیزوں کی قیمتیں اوپر جانا شروع ہو گئی ہیں۔ ابھی آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد انرجی کی قیمتیں بھی بڑھانا ہوں گی۔ گیس مہنگی کرنی ہو گی۔ جب تک پوری دنیا میں چیزوں کی سپلائی لائن بحال نہیں ہوتی اس وقت تک مہنگائی بڑھتی رہے گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ امپورٹ بل بڑھنے کی وجہ ایک تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہے دوسرا کھانے پینے کی اشیا عالمی مارکیٹ میں مہنگی ہو گئی ہیں اسی لئے پاکستان میں بھی چیزیں مہنگی ہوئی ہیں۔ دنیا میں اس وقت سپلائی چین بری طرح ڈسٹرب ہے۔ تیل کی قیمت انتہائی درجے مہنگی ہو گئی اس کا اثر نہ صرف پوری دنیا بلکہ پاکستان پر بھی پڑ رہا ہے لیکن سوچنا یہ ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، کسی زمانے میں جتنی بھی ہماری اجناس تھیں وہ ایکسپورٹ کیا کرتے تھے بد قسمتی سے اب بیشتر چیزیں امپورٹ کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں فوڈ انفلیشن ہے، وہ بہت تیزی سے اوپر جا رہی ہے۔ اب لوگوں کا زیادہ انحصار اس بات پر نہیں کہ حکومت جو معاشی اشارئیے دے رہی ہے وہ کیا ہیں، ان کا تعلق اس بات سے ہے کہ انہیں روزانہ کھانے پینے کی اشیا کس بھائو مل رہی ہیں۔ کسی بھی ملک میں معاشی ترقی اس وقت ہوتی ہے جب ملک میں غیر یقینی صورتحال نہ ہو۔ اس وقت دیکھیں تو پاکستان میں غیر یقینی صورتحال زیادہ نظر آ رہی ہے۔
وفاقی حکومت کی اپوزیشن اور سندھ حکومت سے نہیں بن رہی، امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات نظر نہیں آ رہے، افغانستان کی صورتحال بھی پاکستان پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، آئی ایم ایف سے بھی ابھی تک مذاکرات معنی خیز نہیں لگ رہے تو اس قسم کی غیر یقینی صورتحال میں معیشت پر اثر پڑتا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کے دو رخ ہیں ایک مہنگائی تو یہ ہے کہ کچھ چیزیں پاکستان امپورٹ کرتا ہے، وہ ظاہر ہے مہنگی ملیں گی تو ملک میں بھی مہنگی ہونگی۔
دوسرا وہ چیزیں جو پاکستان میں پیدا ہوتی ہیں، پاکستان میں بنتی ہیں، وہ ہیں گندم، گنا، جس سے آٹا اور چینی بنتی ہے، سبزیاں ہیں۔ ان کے نرخوں میں اگر پچھلے تین سالوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو یہاں حکومت کی نا اہلی لگتی ہے۔ ملکی پیداوار کا مہنگا ہونا سمجھ سے باہر ہے۔ ایک طرف تو حکومت کہہ رہی ہے کہ اجناس کی بمپر پیداوار ہو ئی دوسری طرف وہ مہنگی بھی ہو رہی ہیں تو یہ ناقابل فہم ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی معاشی پالیسی نہیں ہے۔