مہنگائی بہت بڑا چیلنج
وزیر اعظم اور ان کے رفقا شادمانی کے ڈھول پیٹتے ہیں خوشحالی کی نوید سناتے ہیں، اشارے نیچے سے اوپر تک جاتے ہوئے دکھاتے ہیں، انڈسٹری کے چلنے کا شور سناتے ہیں، معیشت بہتر ہونے کی نغمہ الاپتے ہیں لیکن یقین کیوں نہیں آتا، دل ہے کہ مانتا نہیں، اسکی وجہ مارکیٹیں ہیں، جہاں مہنگائی اپنے پنجے گاڑے بیٹھی ہے۔ پا کستان میں آج تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں، کسی نے عوام کو کوئی خاطر خواہ ریلیف نہیں دیا، عوام کو ہر حکومت نے ریلیف دینے کا کہا، ریلیف دینے کے نعرے لگا کر ووٹ لئے لیکن حکومت میں آتے ہی خزانہ خالی ہونے کا رونا رویا، پچھلی حکومتوں کو کوسا کہ وہ ملک کا بیڑہ غرق کرگئیں اور یہ رونا روتے ہوئے نئے ٹیکس لگائے اور تمام تر بوجھ عوام پر ڈال دیا کسی بھی حکومت کے پاس انکم بڑھانے کے دو بڑے ذرائع ہوتے ہیں بجلی کی قیمت بڑھادو یا پٹرول مہنگا کر دو اس سے حکومت کو فوری طرف پر رقم ملتی ہے لیکن عوام پس جاتے ہیں، سابقہ حکومتوں نے بھی یہی کیا اور اب تحریک انصاف کی حکومت بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے، ایک ماہ میں دو بار پٹرول مہنگا کیا گیا جس کی وجہ سے عام استعمال کی چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں صرف پٹرول مہنگا ہونے سے ہر چیز پر اثر پڑتا ہے۔ اب دیکھا یہ جا رہا ہے کہ سندھ کی گیس میں سے سندھ کو پورا حصہ نہیں مل رہا، وہاں کی ملیں، انڈسٹریاں بند ہو رہی ہیں، لوگوں کو روز گار نہیں مل رہا۔
بجلی مہنگی کی جا رہی ہے، بجلی مہنگی ہو گی، تو اس سے بننے والا آٹا مہنگا ہو گا، چینی مہنگی ہو گی، گھی مہنگا ہو گا، موجود حکومت کیلئے مہنگائی ایک بہت بڑا چیلنج بن گئی ہے، وزیر اعظم جب بھی مہنگائی کا نوٹس لیتے ہیں مہنگائی اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، مہنگائی کی بنیادی وجہ بجلی پٹرول، گیس مہنگی ہونا ہے، ڈیزل مہنگا ہو تو اس کا اثر ٹرانسپورٹ پر بھی پڑتا ہے دوسرا کسان جب کھیت میں ہل چلاتا ہے تو آج کل ٹریکٹر استعمال ہوتا ہے، پانی کیلئے ٹیوب ویل چلاتا ہے، سامان لانے لیجانے کیلئے ٹریکٹر ٹرالی کا استعمال ہو تا ہے کسان کو زمین ہموار کرنے اور فصلیں کاشت کرنا مہنگا پڑ تا ہے تو وہ اپنی فصل کی قیمت زیادہ وصول کرے گا وہاں سے مہنگائی شروع ہوتے ہوتے شہروں تک وہ فصل 10 گنا مہنگی ہو جاتی ہے۔ اسکے علاوہ اسٹیٹ بنک کو چاہئے کہ شرح سود مزید کم کرے، ایک وقت تھا کہ شرح سود 13 فیصدتھی اس وقت انڈسٹری بند ہونے کے قریب تھی جیسے ہی شرح سود کم ہوئی بنکوں سے بھاری قرضے لئے گئے انڈسٹری چل پڑی جو لوگ بے روز گار ہو رہے تھے انہیں دوبارہ روز گار ملنا شروع ہو گیا۔ اسی طرح اگر شرح سود اور کم کردی جائے تو مزید بہتری آ سکتی ہے۔
دوسرا ڈیزل کی قیمت کم رکھی جائے۔ پٹرول اُمرا اور متوسط طبقے کو متاثر کرتا ہے لیکن ڈیزل براہ راست کسانوں اور عام آدمی کو متاثر کرتا ہے، بسوں اور ٹرکوں کے کرائے بڑھ جاتے ہیں۔ حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے ٹائیگر فورس بھی بنائی تھی لیکن اب نہ جانے وہ ٹائیگر فورس کدھر ہے، کہاں گئی۔ دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں کہ جہاں اس قسم کی فورس بنا کر قیمتیں کم کرائی جا سکیں، قیمتیں کم کرنے یا برقرار رکھنے کیلئے حکومت کو جاندار پالیسی بنا نا پڑتی ہے۔ حکومت کو غریب آدمی کی حالت بہتر کرنے کیلئے عام استعمال کی چیزیں ان کی پہنچ میں کرنی ہوں گی حکومت کہہ رہی ہے کہ معاشی اشاریے بہتر ہو رہے ہیں لیکن معاشی اشاریے اسی وقت بہتر ہو تے ہیں تو عوام کی انکم بھی بہتر ہونی چاہئے، اگر اشاریوں کے فوائد عوام تک نہیں پہنچ رہے تو سب کچھ مصنوعی ہو گا۔ دنیا میں جن ملکوں نے بھی ترقی کی ہے، انہوں نے پہلے عوام کوترقی دی ہے، وزیر اعظم چین کی مثال دیتے ہیں، وہاں بھی پہلے عوام کو غربت سے نکالا گیا، پھر ملک نے ترقی کی۔ جب آپ لوگوں کو انکم بڑھائو گے تو پھر وہ مہنگائی کو بھی برداشت کرسکتے ہیں لیکن جب لوگوں کی انکم ہی کم ہو اور مہنگائی بڑھتی جائے تو نا ممکن ہے کہ ملک ترقی کرے۔ اس میں چھوٹا سا طبقہ ضرور امیر ہو سکتا ہے لیکن عوام نہیں۔
حکومت بات کرتی ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہوا بلکہ اب تو سر پلس ہو گیا لیکن اسکا عوام آدمی کو فائدہ نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے زرعی انقلاب لانے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن لگتا اب حکومت کی ترجیحات میں زراعت اہمیت نہیں رکھتی، کاشتکاروں کو کھاد مافیا کے رحم کرم پر چھوڑدیا گیا۔ اکتوبر 2020 میں ڈی اے پی کھاد کا ریٹ 3700 روپے تھا جو بڑھ کر 400 روپے ہو گیا تھا۔ اب اسی ماہ جنوری میں کھاد کی قیمت 4500 روپے ہو گئی، اکتوبر سے لیکر جنوری 2021 تک کھاد کی قیمتوں میں 800 روپے اضافہ ہو چکا حکومت نے کھاد پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا تھا لیکن سبسڈی تو دور کی بات، الٹا قیمتیں بڑھ گئیں۔ اب گنا اور مکئی کی بیجائی فروری میں شروع ہوگی اور دونوں فصلوں کیلئے کسان کو کھاد مہنگی ملے گی۔ جبکہ یہی کھاد بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں کسانوں کو کم قیمت میں دستیاب ہوتی ہے۔ معیشت کا ایک خوشگوار پہلو بھی ہے کہ گزشتہ 7 ماہ سے ترسیلات زر سوا دو ارب ڈالرز کے لگ بھگ آ رہی ہیں۔ دسمبر میں تو پاکستانیوں نے 2 ارب 43 کروڑ ڈالرز بھیجے، اگر اسی طرح اضافہ ہوتا گیا تو مالی سال میں ترسیلات زر ریکارڈ 30 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ مالی سال کے پہلے چھ ماہ جولائی سے دسمبر تک پاکستانیوں نے 14 ارب 20 کروڑ ڈالر بھیجے، جو پچھلے سال اس عرصے میں 11 ارب 37 کروڑ ڈالر تھے اس وقت زر مبادلہ کے ذخائر تین سال کی بلند سطح پر ہیں۔
پاکستانی روپیہ بھی مستحکم نظر آ رہا ہے اور چار ماہ سے ڈالر 160 روپے کے ارد گرد گھوم رہا ہے حکومت کے طرف سے بینکنگ نظام کے ذریعے ترسیلات زر بھیجنے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے خاص طور پر روشن ڈیجیٹل اکائونٹ اور نیا پاکستان سر ٹیفیکیٹ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے بچت آمدنی اور سرمایہ کاری کا پر کشش ذریعہ بن رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش زر مبادلہ بڑھ رہا ہے، بھارت میں نہیں ہو رہا۔ پچھلے پانچ سال میں زرمبادلہ کی اوسط ساڑھے سات فیصد کے قریب ہے جبکہ 2018 سے اب تک کی اوسط 13 فیصد بن رہی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ کورونا کی وجہ سے بارڈر بند ہیں اور کیش کو موقع نہیں مل رہا۔ ٹرانسفر ہونے کا اس کے نتیجے میں پیسوں کی ٹرانسفر بنکوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں 38 فیصد کی گروتھ چل رہی ہے، پاکستان میں 25 فیصد ہے جبکہ بھارت میں 9 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس وقت بیرونی دنیا میں تقریباً 90 لاکھ پاکستانی رہتے ہیں جن میں سے پچاس فیصد مڈل ایسٹ میں ہیں۔ بھارت کے پاکستان سے دگنے لوگ باہر رہتے ہیں یعنی ایک کروڑ 90 لاکھ افراد ہیں اس کے باوجود پاکستانی زیادہ پیسے بھیج رہے ہیں۔
بھارتیوں کی نسبت، حکومت یہ سلسلہ بر قرار رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی بنکوں کے ذر یعے پیسے بھیجتے رہیں یہ سلسلہ چلتا رہے تو 40 ارب ڈالر بیرون ملک سے آ سکتے ہیں۔ ایک طرف تو اس طرح کی خوشخبریاں اور دوسری طرف عوام جو مہنگائی کا بو جھ اٹھا تے اٹھاتے تھک چکے ہیں، کیا کوئی ہے جو ان کی بھی سنے۔