آئی ایم ایف پرو گرام اور پاکستان کی مشکلات
پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے پرو گرام میں لگتا ہے بریک آ گیا ہے۔ تین ماہ کا وقفہ آ گیا ایک ارب ڈالر کی قسط کے لئے آئی ایم کا جائزہ اجلاس اب ستمبر میں ہونے کا امکان ہے۔ اس وقت تک وزیر خزانہ شوکت ترین پاور ٹیرف اورانکم ٹیکس بڑھائے بغیر آئی ایم کو مستحکم گروتھ اور ٹیکس آمدن میں اضافے کے ابتدائی نتائج دکھانا چاہتے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق جولائی سے پاکستان کو سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا تیل ادھار ملنے کی امید ہے، اس حوالے سے جو پریشر ہمارے امپورٹ بل پر ہے وہ مستحکم رہے گا، اسی لئے آئندہ مالی سال یعنی جولائی سے ستمبر کی سہ ماہی ٹیکس ٹارگٹ کی سمت اور نتائج کا تعین کریگی۔ اگلے تین ماہ کے دوران ٹیکس آمدن میں کم از کم 20 فیصد اضافہ ہونا چاہیے جو ایک بہت بڑا ٹارگٹ ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ پاور ٹیرف کی بجائے ریکوری اوربجلی کا استعمال بڑھائینگے ٹیکس ریٹ کی بجائے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرینگے انہوں نے کہا کہ ہم آئی ایم پرو گرام سے نکلے نہیں لیکن پاکستان کے پاس انٹرنیشنل کیپٹل مارکیٹ سمیت دیگر آپشنز موجود ہیں۔ جولائی 2019 میں آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے 6 ارب ڈالر کے پرو گرام کی منظوری دی تھی کورونا کی وجہ سے پچھلے سال اپریل میں پرو گرام منجمد ہو گیا تھا 11 ماہ کے تعطل کے بعد آئی ایم بورڈ نے اس سال مارچ میں پاکستانی معیشت پر اطمینان کا اظہار کیا تھا اور 500 ملین کی تیسری قسط جاری کی تھی 6 ارب ڈالر تھا۔ پرو گرام میں 2 سال کے دوران آئی ایم ایف پاکستان کو 2 ارب ڈالر دے چکا ہے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ شرکت ترین نے کہا کہ 28 سے 30 ارب ڈالر پے کرنے تھے، کہاں سے لاتے، اسی لئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ڈالر چھاپنے کی کوئی مشین تو تھی نہیں جب آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو انہوں نے کہا اگر آپ لوگ آئے ہیں تو یہ ایک دو تین چیزیں کریں اپنے ڈسکائونٹ ریٹ بڑھائیں، کرنسی کو زیادہ ڈی ویلیو کریں، اور جو ٹیرف وغیرہ ہے وہ بڑھائیں، جب تک آپ یہ نہیں کرینگے پیسے نہیں دینگے۔ بجٹ کے زیادو تر اعدادو شمار صنعت او رکارو بار کی ترقی اور ایکسپورٹ میں اضافے کے لئے رکھے گئے ہیں، حکومت نے معاشی ترقی کا ہدف 4.8فیصد اور 5829ارب ر وپے مقرر کیا ہے، دونوں ٹارگٹ بہت مشکل ہیں اس مالی سال میں کورونا کے باوجود 10 مہینوں میں ایکسپورٹ میں 14 فیصد، ایل ایس ایم میں 9 فیصد، رٹیل ہول سیل کی گروتھ میں 7.50فیصد اضافہ ہوا ہے اور حکومت کی امیدوں کا مرکز بھی یہی ہے۔ اس مالی سال کے 11 مہینوں میں 18 فیصد ٹیکس زیادہ جمع کیا گیا اور ٹیکس فائلر میں 12 فیصد اضافہ ہوا۔ اب یونیورسل سیلف اسیسمنٹ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم، پوائنٹ آف سیل میں اضافہ اور نظام میں اصلاحات سے بھی حکومت کی امیدیں وابستہ ہیں۔
ماہرین کے مطابق حکومت کی خواہش ہے کہ وہ تین ماہ اپنا پرو گرام آزمائیں اور آئی ایم ایف کو ثابت کریں کہ ہماری سوچ درست ہے لیکن اس میں ایک مسئلہ آ رہا ہے کہ مارچ میں اس پرو گرام کے نیم پیرا میٹر طے ہوئے ہیں۔ اب جو شوکت ترین صاحب کرنا چاہ رہے ہیں وہ تین ماہ میں شاید نہ ہو سکے اس میں تو کئی سال لگ سکتے ہیں، خاص طور پر محصولاتی نظام میں جو اصلاحات آتی ہیں اس میں 5 سے 10 سال کا ٹائم فریم درکار ہوتا ہے، لیکن بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جن کے نتائج جلدی آ سکتے ہیں ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف سے بات چیت میں ہماری پر فارمنس بہتر ہورہی ہے۔ ریونیو کے حوالے سے پوزیشن بہتر ہے ریونیو کا ٹارگٹ4700تک پہنچنا ان حالات میں بہت بڑی کامیابی ہے۔ سرکولر ڈیبٹ میں بھی کمی ہوئی ہے، اس وقت حکومت کی مذاکرات کی پوزیشن مضبوط ہے، آئی ایم ایف نے حکومت کے لئے جو پیرا میٹر طے کے تھے وہ بہت مشکل تھے۔ اسی لئے وزارت خزانہ میں حکومت نے کئی تبدیلیاں کیں، بجلی کا ٹیرف 100 فیصد بڑھانا، انکم ٹیکس 50 فیصد بڑھانا یہ حکومت کے بس کی بات نہیں، یہ اگر کسی بھی حکومت نے کیا تو ا سکا سیاسی نقصان ہو گا۔ ماہرین کے مطابق آئی ایم کا جو ڈیزائن ہے وہ بالکل غلط ہے اور فیل ہو چکا ہے۔ جب 2008 میں پاکستان میں بجلی کا ٹیرف بڑھانا شروع کیا تو اب تک 400 فیصد بجلی کے نرخ بڑھ چکے ہیں اور گردشی قرضہ 160 ارب سے2600 ارب تک پہنچ چکا ہے۔ اس سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کا پرو گرام درست نہیں ہے، اس میں حکومت کا بھی قصور ہے آئی ایم ایف سے مذاکرات درست نہیں تھے۔ حفیظ شیخ نے انکی تمام شرائط مان لیں۔
ماہرین کے مطابق ابھی تک2021 میں ہماری جو پرفارمنس رہی یہ بہت اچھی تھی اس پر فارمنس پر آئی ایم ایف سے مضبوط مذاکرات ہو سکتے ہیں لیکن جو آئندہ سال آ رہا ہے اس میں آئی ایم ایف کی شرائط اور ہمارے بجٹ کے اعدادو شمار میں بہت واضح فرق آ رہا ہے۔ آئی ایم ایف اگست میں ہمیں تھوڑی سے ٹف پوزیشن دے گا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پروگرام کے دوبارہ شروع کرنے سے متعلق کچھ شرائط تھیں جن میں نمایاں بجلی کے قانون یعنی نیپرا ایکٹ میں ترامیم، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایکٹ میں ترامیم، اضافی ٹیکس کی وصولی اور بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ اور مختلف شعبوں کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ شامل تھی۔
پاکستان کی حالیہ نظر ثانی کی درخواست کا جائزہ لینے کے لیے کوئی سپیشل جائزہ اجلاس نہیں ہو گا بلکہ اب اس حوالے سے بات چیت ہو گی جب شیڈول کے مطابق چھٹا جائزہ اجلاس منعقد ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دوران پاکستان کو ان تمام شرائط پر عمل پیرا ہونا پڑے گا جس پر پہلے سے اتفاق ہے اور جس کے تحت پاور سیکٹر کے نرخوں میں مزید اضافہ کرنا بھی شامل ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 'ہمیں آئی ایم ایف کو ثابت کرنا ہے کہ ہم جو اقدامات کریں گے اس سے پیسے بنا سکیں گے۔ شوکت ترین کے مطابق اس موجودہ پروگرام کی وجہ سے معیشت متاثر ہو رہی ہے اور عوام پر بہت زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے جس میں خاص طور پر بجلی کے نرخوں میں اضافے کی شرائط شامل ہیں۔