پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید،اچھا فیصلہ
کسی بھی صوبے کے انتظامی معاملات کو چلانے کےلئے وہاں تعینات بیوروکریسی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور اس بیوروکریسی کا انتخاب کرنے کےلئے وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری اور چیف سیکرٹری کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ چیف سیکرٹری کا کردار تو رولزآف بزنس میں متعین ہے مگر وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کا اصل کردار وزیر اعلیٰ خود متعین کرتا ہے کہ اس کو کتنے اختیارات دینے ہیں، کیونکہ اس نے وزیر اعلیٰ کے نام پر ہی تمام احکامات جاری کرنا ہوتے ہیں۔ یہ عہدہ پچھلی کئی دہائیوں سے بہت ہی اہمیت اختیا ر کر گیا ہے، وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے دور میں تو پرنسپل سیکرٹری، چیف سیکرٹری سے بھی زیادہ اہم ہوتا تھا۔ 1985 کی اسمبلی اور حکومت کے بعد سے وزیر اعلیٰ کی ملاقاتیں، کابینہ اجلاس، اسمبلی کی مصروفیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں، اس لئے انہیں ایک محنتی، ویژنری، ان کی ترجیحات سمجھنے، ان کے اعتماد پر پورا اترنے والے، انتظامی کم سیاسی امور پر معاونت فراہم کرنے والے پرنسپل سیکرٹری کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار خوش قسمت ہیں کہ انہیں اس عہدے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے طاہر خورشید کی خدمات میسر آ گئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ کا پرنسپل سیکرٹری ایک طرف صوبائی انتظامی معاملات چلانے کےلئے وزیر اعلیٰ، چیف سیکرٹری اور انتظامی سیکرٹریوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے تو دوسری طرف کابینہ کے ارکان اور پنجاب اسمبلی کے حکومتی ارکان کو ان کے انتخابی حلقوں میں ترقیاتی کاموں، تقر ر تبادلوں کے سلسلے میں مطمئن رکھتا ہے، تا کہ وزیر اعلیٰ کے اوپر کم سے کم پریشر آئے۔ سردار عثمان بزدار جب سے وزارت اعلیٰ کے منصب پر متمکن ہوئے ہیں تو انہیں اچھے چیف سیکرٹری ملتے رہے مگر ایک اچھے پرنسپل سیکرٹری کی ضرورت بہرحال باقی رہی، ڈاکٹر شعیب نے یہ کمی پوری کرنے کی کوشش کی تھی مگر انہیں موقع ہی نہ دیا گیا اور مختلف غلط فہمیوں کی بنا پر اس اچھے افسر کو پنجاب سے ہی دور کر دیا گیا۔
اگر ہم پچھلی ایک دو، دہائیوں میں وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کا جائزہ لیں تو پرنسپل سیکرٹری کے طور پر تعینات مختلف افسروں کے جو نام سامنے آتے ہیں ان میں سلمان صدیق وزیر اعلیٰ میاں منظور وٹو کے ساتھ، جاوید محمود اور سید توقیر شاہ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے ساتھ اور جی ایم سکندر وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ تعینات رہے۔ ان تمام افسروں میں پرنسپل سیکرٹری کے عہدے پر نظر آنے والے سب سے کامیاب افسر جی ایم سکندر ہیں، جی ایم سکندر کی شکل میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الہٰی کو الٰہ دین کا چراغ مل گیا تھا جو انہیں بروقت اور درست فیصلوں کا مشورہ دیتے تھے، ان کے ساتھ چیف سیکرٹری سلمان صدیق، چیئرمین پی اینڈ ڈی سلمان غنی کی صورت میں ایک ایسی انتظامی ٹرائیکا تھی جس نے چودھری پرویز الٰہی کے ویژن اور ترجیحات کو پورا کیا جس کی وجہ سے لوگ آج بھی اس دور کو یاد کرتے ہیں۔ طاہر خورشید کے لئے میرا مفت مشورہ ہے کہ وہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے جی ایم سکندر بنیں، ان کے ساتھ بھی جواد رفیق ملک کی شکل میں سافٹ اور ساتھ چلنے والا چیف سیکرٹری ہے تو حامد یعقوب کی صورت میں محنتی چیئرمین پی اینڈ ڈی بھی موجود ہے۔
طاہر خورشید، پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے انیسویں کامن سے تعلق رکھنے والے افسر ہیں اور چیف سیکرٹری جواد رفیق کے بعد جو چند سینئر ترین افسر ہیں ان میں سے ایک ہیں۔ ان دنوں وہ مقامی حکومتوں کے محکمہ کے سیکرٹری تھے جہاں انہوں نے بہت شاندار کام کیا۔ یہ درست ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے دوست ہیں، ان کی تعیناتی ڈیرہ غازی خان اور اس کے قریبی اضلاع میں اس وقت رہی جب عثمان بزدار وزیر اعلیٰ نہیں تھے۔ وہ افسروں کے جس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہ اپنے کام کے ماسٹر اور گو گیٹر ہیں۔ طاہر خورشید ایک محنتی اور اپنے کام کو سمجھنے والے افسر ہیں اور تو اور خود وزیر اعظم پاکستان عمران خان ان کے کاموں اور محنت کے معترف ہیں۔ گزشتہ دنوں پنجاب کے مختلف پراجیکٹس کے بارے میں انہوں نے وزیر اعظم کو بریفنگ دی تو وزیر اعظم عمران خان بڑے متاثر ہوئے اور انہوں نے بڑی حیرانگی سے پوچھا آپ ہی طاہر خورشید ہیں؟ طاہر خورشید نے لوکل باڈیز ایکٹ اور دوسرے معاملات میں بھی بڑی محنت اور چابکدستی سے کام کو سنبھالا۔ ایک بات جو بڑی اہم ہے وہ کسی بھی انتظامی عہدے پر بیٹھے افسر کا رویہ ہوتا ہے، اس لحاظ سے طاہر خورشید بڑے مثبت اور عوام دوست افسر ہیں۔
وزیر اعلیٰ بزدار بھی افسر فرینڈلی ہیں، وہ سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی طرح افسران کی بات بات پر عزت نہیں اچھالتے بلکہ انہیں عزت اور احترام دیتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بزدار اب آہستہ آہستہ اپنی ایڈمنسٹریٹو ٹیم کو بہتر بنا رہے ہیں وہ ایسے افسر تعینات کر رہے ہیں جو محنتی ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کا عہدہ بڑا اہم ہوتا ہے مگر اس عہدے پر اولین تعینات راحیل صدیقی اس عہدے سے انصاف نہ کر سکے، انکی وجہ سے وزیر اعلیٰ اور کئی چیف سیکرٹریوں کے درمیان فرینک کے بجائے ٹینس ماحول رہا، دوریاں بڑھیں جس کے نتیجے میں انتظامی اور سیاسی معاملات خراب ہوئے۔ اداروں اور افراد میں بد گمانی ہو یا ایک دوسرے کےا ختیارات کو تسلیم کرنے میں تامل ہو تو ان کی کارکردگی آدھی رہ جاتی ہے، وزیر اعلیٰ بزدار کے ابتدائی عرصہ حکومت میں یہی کچھ پنجاب میں ہوا۔ یوسف نسیم کھوکھر اور میجر اعظم سلیمان بہترین افسر تھے مگر وزیر اعلیٰ کے دفتر اور چیف سیکرٹری کے دفتر کے درمیان غلط فہمیوں کا خاتمہ ہونے کے بجائے ان میں اضافہ ہوا، ان غلط فہمیوں کے خاتمہ کےلئے وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری نے اپنا کردار ادا نہ کیا۔ ڈاکٹر شعیب کے پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیر اعلیٰ بننے سے معاملات میں بہتری ضرور آئی، دیگر اعلیٰ افسران اور وزیر اعلیٰ کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ بہتر ہوئی مگر ڈاکٹر شعیب مختلف سازشوں کی نذر ہو گئے۔ افتخار سہو شروع میں اتنے موثر نہیں تھے مگر اب انتظامی اور دوسرے معاملات پر ان کی گرپ بہتر ہو رہی تھی۔
وزیر اعلیٰ بزدار نے ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اپنا آپ منوا لیا ہے مگر انہیں اس سلسلے میں کام کرنے والے اچھے اور محنتی افسروں کی مزید ضرورت ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک اور نئے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید مل جل کر پنجاب کے انتظامی معاملات کو مزید بہتر بنائیں گے۔
بیوروکریسی کا کام جمہوری حکمرانوں کو ان کے منشور پر عملدرآمد کیلئے ضسیڑھی فراہم کرنا ہوتی ہے، حکومتی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے، طاہر خورشید یہ کام احسن طریقے سے سر انجام دے سکیں گے، وہ بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ وزرا، ارکان اسمبلی اور تحریک انصاف کے عہدیداروں میں بھی یکساں مقبول ہیں۔ انتخابی مہم میں عمران خان نے جن خرابیوں کی نشاندہی کی تھی ان کو دور کرنے کے لئے بھی اسی بیوروکریسی نے کام کرنا ہے، ضرورت صرف یہ ہے کہ طاہر خورشید جیسے محنتی اور مثبت سوچ کے حامل افسروں کو زیادہ سے زیادہ کلیدی عہدوں پر تعینات کیا جائے۔