پولیسنگ اور شیخ عمر فارمولا
ریاستوں کی باقاعدہ تشکیل اور ایک ملک ایک نظام کے نظریہ کے تحت پولیس اور عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا، ان محکموں کو قواعد و ضوابط اور شہریوں کو قانون کا پابند بنایاگیا تاکہ ظلم، زیادتی، دھکا شاہی، دھوکہ، فریب کا خاتمہ ہو اور عوام الناس اطمینان سے بے خوف و خطر ہو کر زندگی بسر کر سکیں۔ اس لحاظ سے مہذب معاشروں میں پولیس کا کردار بہت اہم ہے، اگر تھانہ کی سطح پر ہی مقامی نوعیت کے معمولی تنازعات کو حل کر دیا جائے تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے، کسی زمانے میں مقامی سطح پر ایس ایچ او کی تعیناتی سے جرائم کے گراف میں تبدیلی آتی تھی، عدالتوں میں پیش کئے جانے والے مقدمات کی تحقیق و تفتیش بھی پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے، اگر پولیس سائنیٹفک بنیادوں پر جدید طریقوں سے تفتیش کرے تو شائد ہی مقدمات سالہا سال تک طوالت اختیار کریں، ظالم سزا سے نہ بچ پا ئے اور کسی بے گناہ کو ناکردہ گناہ کی سزا بھی نہ بھگتنا پڑے، عدالتوں کو فیصلے کرنے میں آسانی ہو، اور فیصلوں کے خلاف اپیلوں کا سلسلہ بھی محدود ہو جائے، ہر شہری مطمئن، محفوظ زندگی بسر کرے، مگر بد قسمتی سے مملکت خداداد میں انصاف کی فوری فراہمی کے خواب کو تعبیر نہ مل سکی، اس کی دیگر وجوہات کیساتھ سب سے بڑی وجہ پولیس کا کردار ہے کیونکہ جس پولیس نے قانون کا نفاذ یقینی بنانا ہوتا ہے، اس کے اکثر افسران خود کو قانون سے بالا سمجھنے لگیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔ زبان خلق نقارہ خدا، ہو کیا رہا ہے، اکثر پولیس اہلکار اور افسرکھل کر جرا ئم میں حصہ داری کرتے ہیں، بڑے مجرموں کی سرپرستی، منشیات فروشوں، اسلحہ سمگلروں کو محفوظ راستے، پکڑے جانے پر تحفظ دیا جاتا ہے، قبضہ گروپوں کی تو باقاعدہ سرپرستی کی جاتی ہے، قطعہ اراضی دکان مکان پر قبضہ میں معاونت اور بعد میں قبضہ برقرار رکھنے کیلئے فورس تک فراہم کی جاتی ہے۔ اکثر پولیس افسر رئیل سٹیٹ کے کاروبار میں مصروف ہیں۔ ایسے پولیس افسروں و اہلکاروں کیخلاف قانونی کارروائی کا بھی کوئی آسان ذریعہ نہیں، اعلیٰ افسروں کو شکائت پر درخواست ہی غائب کر دی جاتی ہے یا مجرم افسر کوآگاہ کر دیا جاتا ہے جو شکایت کرنے والے کو ہی اٹھا کر نجی عقوبت خانے میں بند کر کے دیہاڑی بھی بناتے ہیں اور درخواست واپس لینے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔
ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور کی پولیسنگ کا تو نہ ہی پوچھیں، ماضی میں ہونے والی اندھا دھند سیاسی بھرتیاں، بھاری رشوت لیکر جرائم پیشہ عناصر کی پولیس میں تعیناتیاں، حکمران طبقہ کی طرف سے مرضی سے تھانے چلانے، مقدمات کے اندراج، گرفتاریوں کے چلن نے پولیس فورس کو قانون سے بے خوف کر دیا ہے، اہم ترین بات یہ کہ اکثر پولیس افسر قوانین سے عدم واقفیت کی وجہ سے کار خاص اور منشیوں پر انحصار کرتے ہیں۔
ماضی میں لاہور پولیس میں کئی قسم کے کمانڈر(سی سی پی او)آئے، ان کی طرف سے جرائم پر قابو پانے کی کوشش تو ہوئی مگر ان پولیس افسروں کو کسی نے نہ پوچھاجو جرائم میں حصہ دار تھے یا جرائم کے خلاف آنکھیں بند کئے بیٹھے تھے۔ موجودہ سی سی پی او لاہور شیخ عمر نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تو شہر کے بڑے بڑے ڈان اور بدمعاش تو ادھر ادھر ہونا شروع ہو ہی گئے مگر ساتھ ہی ساتھ بہت سارے بڑے پولیس افسروں کی چیخیں بھی نکلنا شروع ہو گئیں جو بڑی حیرت کی بات تھی، پتہ چلا ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو اکثر معاملات میں حصہ دار تھے جبکہ کچھ ممی ڈیڈی کلاس والے تھے جن کو دفاتر میں ٹائم دینا پڑ رہا تھا۔ شیخ عمر خود تو دفتر میں بیٹھتا ہی ہے اس کے ساتھ اب لاہور پولیس کے تمام افسروں کو بھی وردی پہننا ا ور دفتروں کو دفتر سمجھنا پڑ رہا ہے۔ یہ پولیس افسر مجبور اور بے کس سائلین کے ساتھ جیسا سلوک کر رہے تھے ویسا ان کے اپنے ساتھ ہونا شروع ہوا تو یہ لاہور سے بھاگنے لگے۔ شیخ عمر نے پولیسنگ ان پولیس فارمولا شروع کیا تو شہریوں نےاسے سراہا کہ ان پولیس افسروں کو بھی کسی نے پوچھنا شروع کیا ہے جو دن رات بے گناہ عوام کو بے عزت کرنا شان افسری سمجھتے تھے۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر کا بھائی ایک غریب عورت کا کرائے دار بنا، کرایہ دے رہا تھا نہ گھر خالی کر رہا تھا شیخ عمر نے اسے فون کیا ایک مہینے بعد گھر بھی خالی چاہیے اور کرایہ بھی ورنہ۔۔۔۔۔ لاہور میں پولیس افسروں کے تبادلوں اور قبضو ں کے لئے مشہور ایک ڈان کو شیخ عمر نے فون کیا جناب میں کچھ عرصے کےلئے لاہور کا سی سی پی او لگ گیا ہوں مہربانی فرمائیں اور اپنی سرگرمیاں بند کر دیں ورنہ۔۔۔۔ ایک ایس پی بالا بالا رپورٹس پہنچا رہا تھا شیخ عمر نے اسے بلایا، سی سی پی او میں ہوں آپ ڈسپلن کی پابندی کریں مجھے بتایا کریں اگر ایسا نہیں کرنا تو میرا تبادلہ کرا دیں ورنہ۔۔۔۔ وہ ایس پی اپنا تبادلہ کرا گیا۔ ایک اور ایس پی کو سی سی پی او نے سرنڈر کر دیا کہ اسکی سرگرمیاں مشکوک تھیں، اس ایس پی نے اپنا تبادلہ اچھی جگہ مینج کر لیا اور اپنے پرانے ڈویزن میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں، شیخ عمر نے اسے میسج کیا، آپ کو نئی تعیناتی مبارک ہو مگر آپ لاہور پولیس کے دائرہ اختیا ر میں مداخلت بند کر دیں ورنہ۔۔۔۔۔۔۔ شیخ عمر کی ورنہ، بھی کیا فارمولا ہے جس نے لاہور کے امن و امان اور پولیسنگ کو واقعی ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔ معاملات بہتر ہونا شروع ہو گئے ہیں، مظلوموں کو ان کا حق ملنا شروع ہو گیا ہے، عوام کو تھانوں میں عزت ملنا شروع ہو گئی ہے، یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ مجھے تو شیخ عمر کا پولیسنگ ان پولیس اور ورنہ کا یہ فارمولا بڑا اچھا لگا ہے۔ کہتے ہیں بیماری شدت اختیار کر جائے تو مریض کی زندگی بچانے کیلئے بے رحمانہ سرجری ضروری ہو جاتی ہے، محکمہ پولیس بھی اس وقت عوام اور اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے حوالے سے عالم نزاع میں ہے، جرائم کے خاتمہ کیلئے اس میں بڑے پیمانے پر آپریشن کی ضرورت ہے، سیاسی بھرتیوں سے اس محکمہ کو پاک کرنا وقت کی اہم ضرورت، جرائم میں ملوث افسروں اور اہلکاروں کے خلاف فوری اور سخت کاررائی کرنا ہو گی، معطلی کوئی سزا نہیں اکثر معطل افسر اور اہلکار تھانوں میں باقاعدہ حاضر ہوتے اور اپنے غیر قانونی کاموں میں ملوث رہتے ہیں، جب تک سزا جزا کا نظام پوری طرح نافذالعمل نہیں ہو گا تب تک محکمہ کی تطہیر ممکن ہے اور نہ پولیس سے وہ کام لیا جا سکتا ہے جو اس کا دائرہ کار ہے، اصلاحات کی اہمیت اپنی جگہ مگر سرجری سے پہلے بہترین اصلاحات بھی افسروں اہلکاروں کو سیدھے راستے پر نہیں لا سکتیں، شیخ عمر نے اگر لاہور پولیس میں تطہیر کا عمل شروع کیا ہے تو یہ اچھی بات ہے، اگر اس نے مافیاز اور لینڈ گریبرز کو نتھ ڈالنی شروع کی ہے تو اسے دعائیں مل رہی ہیں، وزیر اعلیٰ بزدار صاحب، آپ کورونا کے مرض کے باوجود محنت کر رہے ہیں تو شیخ عمر کو شاباش ضرور دیں اور آخری بات شیخ عمر فارمولا پورے پنجاب میں کیوں لاگو نہیں ہو سکتا؟