حکومت،الیکشن کمیشن ،آمنے سامنے
سینیٹ الیکشن نے حکومت اور الیکشن کمیشن کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے، دونوں اداروں میں کھلی محاذ آرائی کی کیفیت ہے، وزیر اعظم عمران خان براہ راست الیکشن کمیشن کو ہٹ کر رہے ہیں اور سینیٹ الیکشن میں ہونے والی ہارس ٹریڈنگ کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد کر رہے ہیں، وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ اگر حالیہ سینیٹ الیکشن اچھے ہیں تو پھر برے کیا ہونگے؟ یہ الیکشن کمیشن کیلئے لمحہ فکریہ اور اسکی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، اپوزیشن موجودہ صورتحال پر بغلیں بجا رہی ہے اوریہ رد عمل فطری بھی ہے، الیکشن کمیشن اگر چہ آزاد خود مختار ادارہ ہے مگر ماضی میں ایسی آزادی اور خود مختاری کی کوئی نظیر نہیں ملتی، وزیر اعظم کا اعتراض بھی کسی حد تک درست دکھائی دیتا ہے، جب سپریم کورٹ نے کمیشن کو الیکشن شفاف بنانے کیلئے رائے دی تھی تو الیکشن کمیشن کو چاہئے تھا اس ضمن میں اگر فوری اقدام ممکن نہیں تو سیاسی جماعتوں کی قیادت کو طلب کر کے ان سے تجاویز لیتا اور مشاورت سے بیچ کی کوئی ایسی راہ نکالتا جس پر عمل کر کے آج ہونے والی تنقید سے بچا جا سکتا تھا، مگر کمیشن نے الیکشن کو شفاف بنانے کیلئے بھی کوئی اقدام نہ کیا حالانکہ یہ کوئی مشکل کام نہ تھا بلکہ بیلٹ پیپر پر ہی خفیہ نمبر یا نشان سے ووٹ کی شناخت کو ممکن بنایا جا سکتا تھا، مگر ایسا نہ ہو سکا جوآج وجہ تنازع بنا ہوا ہے۔
پنجاب حکومت نے الیکشن کمیشن کے احکامات پر سیالکوٹ کے ضلعی اور ڈویزنل انتظامی افسروں کو تو ہٹا دیا مگر غصے میں چیف الیکشن کمشنر کے ایک عزیز، اسسٹنٹ کمشنر ماڈل ٹاؤن ذیشان رانجھا کو بھی ہٹا دیا اور اوپر سے انکی جگہ پر وزیر اعظم کے مشیر ارباب شہزاد کے صاحبزادے کو لگا کر کیا پیغام دیا گیا ہے؟ ذیشان رانجھا صوبائی سروس کا ایک نوجوان اور محنتی افسر ہے اس کے ساتھ یہ زیادتی کی گئی ہے اور اگر اسے بغیر وجہ کے تبدیل ہی کرنا تھا تو پھر کسی اور اچھی جگہ تعینات کر دیتے مگر اب ہم نے چیف الیکشن کمشنر اور صوبائی سروس کو مفت میں اپنے خلاف کر لیا ہے۔ صوبائی سروس کے ساتھ تو پہلے ہی ہم کوئی اچھا سلوک نہیں کر رہے اور جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے سابق اسسٹنٹ کمشنر ماڈل ٹاون ذیشان رانجھا اپنے ماموں، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سفارش پر کبھی لگے ہی نہیں اسکی سفارش تو اس کا کام اور محنت ہے جو پی اے ایس گریڈ سترہ کے نو آموز افسران کم ہی کر سکتے ہیں۔
ماضی میں چیف الیکشن کمشنر کے طور پر ججز ہی رہے ہیں اور اگر پی اے ایس کے ایک سابق افسر جو مختلف جگہوں پر چیف سیکرٹری اور وفاقی سیکرٹری بھی رہے ہیں تو ان کے ساتھ ایوان وزیر اعظم، مرکز اور پنجاب کی اہم پوسٹوں پر تعینات پی اے ایس افسران کا رابطہ بہتر ہونا چاہئے تھا مگر یہاں کام الٹ ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کے منتخب کردہ اعلیٰ افسران اس طرح وزیر اعظم کی کوئی خدمت نہیں کر رہے یہ تو انکی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی کی اسلام آ باد کی نشست پر کامیابی حکومت کیلئے سبکی کا باعث ہے، تو الیکشن کمیشن کیلئے بھی کوئی باعث عزت و احترام نہیں کہ 180ارکان کی حمائت رکھنے والے حفیظ شیخ شکست سے دوچار ہوئے اور 160ارکان کی حمائت رکھنے والے یوسف رضا گیلانی کامیاب ٹھہرے، اگر چہ یہ معاملہ اب عدالت میں ہے اس لئے اس پر کسی بھی قسم کی رائے زنی مناسب نہیں، لیکن کمیشن کی طرف سے گیلانی کے بیٹے علی گیلانی کی ویڈیو کے منظر عام پر آنے اور ارکان کو ووٹ ضائع کرنے کا سلیقہ بتانے کا بھی نوٹس نہ لیا گیا، جبکہ یہ الیکشن اور ووٹرز پر اثر انداز ہونے کی براہ راست کوشش تھی، کم از کم کمیشن کو چاہئے تھا ان کو طلب کیا جاتا اور پوچھ گچھ کی جاتی کہ علی گیلانی کس کس سے ملے ہیں، اخلاقی طور پر یہ ایک بہت بڑی خرابی ہے، الیکشن کو شفاف بنانے کیلئے اس کا خاتمہ ضروری ہے، ورنہ شفاف الیکشن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا، اس بات کا سراغ لگانا بھی انتہائی ضروری ہے کہ جن ارکان نے پارٹی امیدوار کو ووٹ نہیں دئیے یہ ان کے ضمیر کا فیصلہ تھا یا اس کیلئے نوٹوں کا لین دین ہوا، اگر روپے لے کر ووٹ دئیے گئے تو یہ بات کسی کے صادق اور امین نہ ہونے کا ثبوت ہے، اور کسی خائن یا جھوٹے کا قانون ساز اسمبلی کا رکن بننا شائد ملکی سیاسی اور انتخابی نظام کیلئے نیک شگون نہ ہو۔
چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کی تقرری حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے متفقہ ہوتی ہے، تقرری کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کو قبل از وقت ملازمت سے برطرف کرنے کیلئے بھی حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق رائے ضروری ہے، ورنہ کسی صریح غیر قانونی اقدام یا خیانت پرہٹانے کیلئے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنا ہو گا اور معزز عدالت فریقین کو سن کر فیصلہ دے گی، اس لئے حکومت کیلئے چیف الیکشن کمشنر کو اس و قت مقررہ سے پہلے عہدے سے برطرف کرنا ممکن نہیں، وزیر اعظم کو بھی اس حوالے سے محتاط رویہ اپنانا ہو گا، الیکشن کمیشن کے فیصلوں پر تنقید کے بجائے ثبوت و شواہد کیساتھ اگر متعلقہ فورم سے رجوع کریں تو جوتیوں میں دال بھی نہیں بٹے گی اور کمیشن کا قبلہ بھی درست ہو جائے گا، ورنہ باہر بیٹھ کر تنقید کرنے سے معاملات سلجھنے کے بجائے الجھتے جائیں گے۔
تحریک انصاف نے علی گیلانی کے حوالے سے یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن روکنے کیلئے الیکشن کمیشن کو درخواست دی، چیف الیکشن کمشنر نے ذاتی وجوہ کی بناءپر خود کو درخواست سننے والے بینچ سے الگ کر لیا اور ان کا یہ فیصلہ احسن بھی ہے۔ درخواست تحریکِ انصاف کے ارکان ملیکہ بخاری، کنول شوذب اور فرخ حبیب کی طرف سے دائر کی گئی تھی جس میں پی ٹی آئی نے یہ موقف اختیار کیا کہ سینیٹ انتخابات میں بد عنوانی اور پیسے لینے کے نتیجے میں انتخابات کا نتیجہ یوسف رضا گیلانی کے حق میں آیا۔ وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 178 ارکان نے وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، اگر سینیٹ الیکشن میں بد عنوانی نہ ہوتی تو حفیظ شیخ کو بھی اتنے ہی ووٹ ملتے، سماعت کے آخر میں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو ترمیم شدہ درخواست جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی درخواست میں موجود لوگوں کو بھی فریق بنائیں اور دوبارہ آئیں۔ تحریک انصاف کی درخواست اور کمیشن کے اعتراضات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہاں بھی جذبات سے کام لیا گیا ثبوت و شواہد کو اہمیت نہیں دی گئی، یہ صورتحال زیادہ نقصان کا باعث ہو گی، شفاف الیکشن کیلئے آخر کار سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کے ساتھ ہی سر جوڑ کے بیٹھنا ہو گا، ورنہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں بھی یہی کچھ ہوگا۔