خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوئہ دانش فرنگ
مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
شاعرِ مشرق، علامہ اقبال نے آج سے 143 سال قبل سیالکوٹ میں جنم لیا۔ کون جانتا تھا کہ یہ بچہ صدیوں تک اپنی سوچ اور فکری قابلیت کی شمع جلا جائے گا۔ اپنی نوجوان نسل کی سمت درست کرنے اور قوم کو اپنی مشرقی روایات کو سمجھانے اور مغرب سے بیجا مرعوب نہ ہونے دینے کے لئے سرگرم رہے گا۔ اقبال اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس مٹی کی خدمت میں صرف کر گئے۔
ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف
عشقِ بتاں سے ہاتھ اٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوء دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
غور کیجئے تو یہ محض اشعار نہیں بلکہ کامیاب زندگی گزارنے کے نایاب اصول ہیں، جو اقبال کی زندگی کا حاصل ٹھہرے۔ ہم جنوبی ایشیا کے باسیوں کو بچپن سے ہی فرنگی اقدار سے خطرناک حد تک مرعوب ہونا سکھایا جاتا ہے۔ پاکستان کا نظام تعلیم بھی کچھ اس حد تک "معاشرتی فرقہ واریت" کا شکار ہے کہ ایک طرف مہنگے نجی تعلیمی اداروں میں اردو زبان بولنا شان کے خلاف تصور کیا جاتا ہے اور بیشتر نجی تعلیمی اداروں میں اردو بولنے پر باقاعدہ جرمانہ عائد کیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب بہت سے سرکاری اسکولوں میں انگریزی زبان سکھا کر بچوں کو دنیاوی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مقابلے کے فزا میں آگے بڑھنے میں مدد کرنے کی بجائے، الٹا اسزبان سے نالاں کروایا دیا جاتا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نجی ادارے انگریزی زبان سے زیادہ انگریزی اقدار سکھا کر بچوں کو یہ یقینِ راسخ کروانے میں مگن ہیں کہ مشرقی اقدار اپنانے والے اور اردو زبان بولنے والے "پینڈو" ٹھہرے اور فرنگی اقدار اپنانے والے "ماڈرن"۔ جبکہ سرکاری سکولوں میں انگریزی زبان سے نالاں ہونا بچے اپنے اساتذہ سے سیکھتے ہیں، جنہوں نے بھلے وقتوں میں انگریزی زبان سیکھنے کی بجائے اس سے لا تعلق رہنے کو "مشرقی" ہونا تصور کیا۔ اقبال، جناح اور سرسید احمد خان جیسے نایاب رہنماؤں نے مشرقی روایات سے محبت اور انگریزی زبان سیکھنے کی اہمیت پر بہت زور دیا۔ یہی بات آج ہمارے معاشرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہی اقبال کا پیغام تھا۔ یہی سرسید کی دہائی تھی۔ یہی قائد کا عزم تھا کہ پاکستان کے نوجوان علم حاصل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھیں۔ ہر زبان سیکھیں۔ تمام علوم و فنون میں مہارت حاصل کریں۔ اور ساتھ ساتھ اپنی اقدار اور روایات کی لاج رکھ کر ناقابل شکست ہو جائیں، انشااللہ۔
نظام تعلیم سے ہٹ کر اگر عملی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف خواتین کا ایک گروہ پچھلے دو، تین سال سے مسلسل ہر 8 مارچ کو "عورت مارچ" کے نام پر بے ڈھنگے نعرے لگاتا ہوا نکل آتا ہے، جس میں عورت کے بنیادی حقوق کا نام ذکر تک نہیں اور جب ان سے ان کے مطالبات پوچھے جائیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ عورت کی آزادی تو مغربی خطوط پر چاہتی ہیں لیکن عورت کو جو موجودہ برتری پاکستان میں حاصل ہے، وہ برقرار رہے۔ سیاستدانوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ اپنی کرسی بچانے اور کرپشن پر سزا سے بچنے کے لئے قومی سلامتی کے اداروں پر حملہ آور ہوتے دیر نہیں لگاتے۔ اور اپنے بنک بیلنس بڑھانے کے لئے "خودی" تو کیا "خود" کو بھی نیلام کر دیں۔ تو پھر خودی کہاں ہے؟ وہ فقیری میں نام پیدا کرنے کی اقبال کی خواہش کیا ہوئی؟ کیا اقبال کا پیغام محض کتابوں کی حد تک محدود رہنے کے لئے تھا؟ کیا جناح نے ایسا پاکستان سوچا تھا جہاں ذاتی مفادات ملکی مفاد پر فوقیت حاصل کر جائیں؟ کیا سرسید احمد خان نے اپنی نوجوان نسل کو انگریزیسیکھنے اور دور حاضر کے جدید تقاضے پورے کرنے کی تلقین اس لئے کی تھی کہ وہ اپنی اقدار کے امین بننے کی بجائے احساس کمتری کا شکار ہو کر اپنا مقام بھلا بیٹھیں؟ اب وقت آ گیا ہے کہ اقبال کا پیغام محض پرجوش تقاریر اور اردو مضامین کی زینت بننے تک محدود ہونے کے بجائے ہماری نوجوان نسل کے کردار میں چھلکے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہو گا جب ہمارا نظام تعلیم سدھارا جائے۔ ایک ایسا نظام تعلیم جہاں انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ جدید تحقیق اور ٹیکنالوجی پر بھرپور زور دیا جائے۔ مغرب کی تحقیق پر تکیہ کرنے کے بجاے اپنے ملک میں جدید تحقیق کے نئے ادارے قائم کیے جائیں اور موجودہ اداروں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔
نوجوان نسل کی کردار سازی اقبال کے "خودی" کے زاویے کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کی جائے تاکہ جب یہ فصل پک کر سیاست، قانون، وکالت، مسلح افواج، تخلیق، تحقیق، آرٹ، سائنس، ٹیکنالوجی، تعلیمی اور طبی شعبوں میں پہنچے تو خودی کا پیغام لے کر آگے بڑھے۔ جب اقبال کے شاہینوں کی ایسی مضبوط کردار سازی ہو گی تو پیسہ، دولت اور دنیاوی آسائشیں خودی کی منزل کے آگے ہیچ تصور کی جانے لگیں گی۔ اور یہ ہوگی وہ منزل جسے پانے کے لئے 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔ پاکستان زندہ باد۔
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے آگے آسماں اور بھی ہیں