اَن کہی کہانیاں
سوشل میڈیا پر چند ماہ قبل اسلام آباد میں ہوئے جنسی ہراسگی اور تشدد کے واقعے کی ویڈیو وائرل ہوئی تو چہار جانب سے نفرین اور ملامت کا سیلاب امڈ آیا۔
اگر یہ ویڈیو منظر عام پر نہ آتی تو مجرم حسبِ معمول دندناتے پھرتے رہتے اور مظلوم لڑکی کی کہانی ان کہی رہ جاتی۔ اب کہانی سامنے آئی ہے تو پولیس لڑکی اور لڑکے کو حفاظتی تحویل میں لینے کی فکر میں ہے کہ کہیں لڑکی غیرت کے نام پر قربان نہ کر دی جائے یا خود کشی میں عافیت نہ ڈھونڈ لے!
یہ کہانی تب بھی شاید ٹھوس ثبوت کی محتاج ہوکر اَن کہی رہ جاتی اگر وہ لڑکی خود ہمت کرکے پولیس اسٹیشن پہنچ جاتی۔ ہمارے معاشرے میں بالعموم اور کئی علاقوں میں بالخصوص پسے ہوئے طبقات میں بچیوں، نوجوان لڑکیوں اور خواتین کے سا تھ بھی آئے روز ایسے دلدوزواقعات پیش آتے ہیں کہ جان کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ یہ کہانیاں کبھی کبھار ایک دو اخباری کالم تک پہنچ پاتی ہیں مگر زیادہ تر کہانیاں ان کہی رہ جاتی ہیں۔
آئے روز غیرت کے نام پر قتل ہو تے ہیں مگر لگا بندھا دستور یہی ہے کہ غیرت کا بس کسی عورت پر ہی چلتا ہے۔ کئی دیہی علاقوں میں جہاں جہالت اور جاگیرداری کے فرسودہ نظام کا سکہ آج بھی چلتا ہے وہاں پنچایت کے فیصلے یا تصفیے، میں کم سن بچیوں کو ہی ونی دینے کا فیصلہ کیوں کرتے ہیں؟ کبھی لڑکوں کا تبادلہ نہیں سنا! سرپنچوں کے انصاف کا پرنالہ صنف نازک کے سر ہی کیوں انڈیلا جاتا ہے؟
آئے روز جنم لینے والی یہ کہانیاں سنائے جانے کی نوبت ہی نہیں آتی کہ انھیں دریافت کرنے اور لکھنے والے دل و دماغ ہی میسر نہیں آتے اور اگر ہیں تو خال خال ہیں۔ بقول حجاب عباسی؛
اُسے فرصت نہیں ساحل، سمندر، موج لکھنے سے
پریشاں ہوں میری تشنہ لبی کو کون لکھے گا
اگر لکھنے والے ہمت کریں اور اپنے آس پاس ان کرداروں کو محسوس کر سکیں تو ان گنت کہانیاں ہمارے آس پاس بھٹک رہی ہیں۔ قابل قدر ہیں وہ لوگ جویہ اَن کہی کہانیاں ڈھونڈنے کی ہمت کرتے اور انھیں لکھنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی حال ہی میں ہماری نظر سے گذری، اس کا اختتامی حصہ سنئے؛ اماں! پوتی بھی ہے؟ اماں نے یک دم چونک کر اپنا جھکا سر اٹھا لیا، اپنے کسی اندیشے کو میرے چہرے سے جانچتے ہوئے بولی، نہ باجی! میں تاں اپنی پوتی پڑھاساں، میں اسے کام پر نہیں لگاؤں گی۔
سوکھی ٹہنی جیسے بازؤں پر لگے استخوانی ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے بتانے لگی؛ اس پچھلی گلی میں تیجا مکان ہے۔ انھوں نے اپنے گھر کے کام کے لیے ایک آٹھ دس سال کی بچی رکھی ہوئی تھی۔ گھر کا سارا کام کرتی اور چھوٹے بچے کو سنبھالتی۔ خورے کیہ ہوئیاں؟ ظالموں نے اسے مار کر گھر کے صحن میں ہی دبا دیا، پولیس روز چھاپے مارتی ہے پر اب کیہ فیدہ؟ اللہ جانے اس نمانی پر کیا بیتی! اماں جَنتے فرش پر ڈھے سی گئی، دونوں ہاتھ اپنے کانوں سے لگاتے ہوئے بولی؛ نہ باجی! میں تاں اپنی پوتی پڑھاساں !
یہ کہانی ساہیوال سے قدرے نو وارد مصنفہ مصباح نوید نے لکھی جن کے بزرگوں کے کریڈٹ میں ادبِ لطیف اور سویرا جیسے رسالوں کی اشاعت ہے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ چندن راکھ پڑھنے کا موقع ملا تو موضوع، کرداروں کے انتخاب اور حیران کن سسپنس نے توجہ کا دامن کھینچ لیا۔ مدت بعد ایسی کہانیاں پڑھنے کو ملیں جن کے کردار معاشرے کے اِن پسے ہوئے طبقات سے ہیں جہاں طاقت کے اندھے نشے اور خمار کے بوجھ تلے عزت اور انا کچلی جانا روز کا معمول ہے۔
مصباح نوید نے چائلڈ لیبر، گھریلو ورکرز اور عام خواتین کو فوکس کرتے ہوئے ان کہانیوں کو ڈھونڈا جن میں محبت کے جذبے بھی ہیں، کچلے ہوئے ارمان بھی اور انا کی کرچیاں بھی ہیں، اس کے باوجود بے بسی اور مجبوری کی اس دلدل میں بھی بیشتر کرداروں میں انا، با عزت جینے کی خواہش اور اپنے ارمانوں کے لیے اپنا آپ داؤ پر لگانے کی ہمت ہے۔ ان کرداروں کے لائف چوائسز اور ذلت و ہزیمت کے باوجود ہمت کے مظاہر ہر افسانے کے اختتام پر مجسم ہو کر سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ مجبوری، بے بسی اور بسا اوقات تشدد کے دباؤ کے باوجود ان کرداروں کا استقلال مزاحمت کی روشن علامت بن کر زندگی کا دوسرا رخ دکھاتا ہے۔
ہمارا تعلق دیہات سے ہے، دیہی زندگی میں بسااوقات طاقت اور استحصال کے ہاتھوں پِسے طبقات کی تلخ زندگی کے بے شمار مناظر اور مظاہر نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تشدد، اندھی طاقت اور استحصال سے بیزار کر دیا۔ شہری بودوباش میں بھی ایسے ہی پسے ہوئے طبقات کے تلخ اوقات کے بارے میں حساسیت قائم رہی۔ مصباح نوید کے افسانوں کی کتاب چندن راکھ (نگارشات پبلشرز) پڑھتے ہوئے بار بار ان کرداروں سے واسطہ رہا۔
اماں جنتے گھروں میں کام کاج کے باوجود پر عزم ہے کہ وہ اپنی پوتی کو بے کسی کی موت کے سپرد کرنے کے بجائے اسے پڑھائے گی۔ اَدل بَدل کے عنوان سے افسانے میں کرمو بیوی کو قابو میں نہ لاسکنے کے بعد گری ہوئی حرکت کو ہی بچی کھچی انا کی تسکین کے لیے کافی سمجھ لیتا ہے۔ ہیپی اولڈ ہومز کے باؤ جی، چندن راکھ کی انیقا، کونج کی نوری اور آٹھ سالہ ستارہ، پچاس منٹ کی نرس نسرین؛ یہ اور دیگر افسانوں کے کردارمسلسل معاشرتی گھٹن، افلاس، طبقاتی تعصب اور صنفی امتیاز کا عذاب سہنے پر مجبور ہیں۔
معاشرے میں کچھ لوگوں کی اندھی طاقت، استحصال اور معاشرتی جبر کی یہ کہانیاں ہمارے آس پاس ہیں، انھیں لکھنے اور سنانے کی ضرورت ہے، اسلام آباد میں جنسی ہراسگی اور تشدد کے کردار سر عام دندناتے رہ جاتے اگر ویڈیو وائرل نہ ہوتی، قندیل بلوچ، قصور کی معصوم زینب، لاہور سیالکوٹ موٹروے کے زیادتی کیس جیسی بے تحاشہ کہانیاں ہیں جو ان کہی دفن ہو جاتی ہیں، ان سنی رہ جاتی ہیں، چندن راکھ کی طرح کسی بے نام صحن میں دفن ہو جاتی ہیں۔ ایسی اَن کہی کہانیاں لکھنا مشکل ہے ؛ بقول ارشد کمال
دشت نوردی کا قصہ توسب لکھتے ہیں
کس کے گھر میں ہے کتنا صحرا کون لکھے گا؟