لوٹ کھسوٹ کا نظام!
اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت پاکستان میں جو نظام رائج ہے اس میں کرپشن مسلسل جیت رہی ہے اور قانون ہار رہا ہے یہ نظام اپنا رنگ دکھا رہا ہے پورا معاشرہ اسی نظام کے تابع ہے پوری قوم اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ قومی خزانہ لوٹا گیا۔ کسی نے کیا کر لیا، بیورو کریسی میں اعلیٰ عہدوں پر من پسند افسران کو میرٹ سے ہٹ کر تعینات کیاگیا، ان افسران کے "کلے" خود حکمرانوں نے مضبوط بنائے تو پھر تبدیلی کس طرح آئے گی؟ ہر کسی کا کلہ مضبوط ہے پارلیمنٹ، سینٹ اور صوبائی اسمبلیاں کام تو کر ہی ہیں مگر قانون سازی نہیں ہو رہی۔ کرپشن کے خلاف مقدمات تو چل رہے ہیں تحقیقات اور مقدمات کی سماعت جاری ہے لیکن نتیجہ صفر، وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ کون ساریکارڈ ہے جو محفوظ ہے تمام ریکارڈ تو جل چکا، شواہد اور ثبوت کہاں سے لائے جائیں گے؟ جاتی امرا اور بلاول ہائوس اپنی پوری سج دھج سے موجود ہیں قوم ان کے مکینوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتی ہے "زرداری" کو "بھٹو" بنا دیا گیا، مریم نواز کو قوم کی بیٹی کہا جاتا ہے قوم ان پر صدقے واری جاتی ہے۔ کیا منظر ہو گا کہ جب صدر عارف علوی ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف لیں گے!تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے کو عدالت سزا بھی سناتی ہے اور پھر سزا یافتہ مجرم کو بیرون ملک جانے کی اجازت بھی دے دی جاتی ہے اور وہ لندن میں بیٹھ کر قومی اداروں کے خلاف زہر اگلتا ہے پاکستان میں کوئی پوچھنے والا نہیں، قومی دولت لوٹ کر باہر لے جائی گئی کسی نے یہ دولت واپس لانے کے عملی اقدامات نہ کئے۔
جس پیمانے کی کرپشن آصف علی زرداری نے کی، انہیں جس نام سے پکارا جاتا تھا، جو کچھ مغربی میڈیا میں آتا رہا، یہ سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے پھر بھیپاکستان میں موجودہ نظام کے تحت آصف علی زرداری"زیرک سیاستدان" ٹھہرے، یقین جانیے کہ موجودہ نظام اگر اسی طرح برقرار رہتا ہے تو پھر آئندہ آنے والے دنوں میں ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری ایک بار پھر اقتدار میں آ جائیں گے ان کی اولادیں حکمرانی کریں گیں، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو سالانہ 30ہزار پائونڈ بطور الائونس ملتے ہیں جو کہ وہ اپنی سرکاری رہائش گاہ ڈائوننگ سٹریٹ کے اپارٹمنٹ کی تزئین و آرائش پر خرچ کر سکتے ہیں کورونا کی وبا کے دنوں میں برطانوی وزیر اعظم نے اپنے مقررہ الائونس سے زیادہ خرچ کیا اس پر برطانوی پارلیمنٹ میں ان سے اپوزیشن لیڈر نے خرچ کئے گئے ایک ایک پائونڈ کا حساب مانگ لیا ہے جس پر وزیر اعظم نے ایک ایک پائی کا حساب دے بھی دیا ہے لیکن پھر بھی برطانوی ادارے تحقیقات کر رہے ہیں کہ مقررہ الائونس سے زیادہ وزیر اعظم نے خرچ کیوں کیا جبکہ وزیر اعظم بورس جانسن نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ انہوں نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر تزئین و آرائش کا جو کام کروایا وہ قرض لے کر کروایا جس کی پوری تفصیل انہوں نے پارلیمنٹ میں پیش کی، جبکہ تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف لندن کے انتہائی مہنگے علاقے پارک لین میں کروڑوں پائونڈ مالیت کے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ہیں ساتھ ہی ان کے صاحبزادے اپنے مہنگے ترین آفس میں جو کہ ہائیڈ پارک کے سامنے واقع ہے اپنا بزنس چلا رہے ہیں۔
شریف خاندان کے اثاثے اور جائیدادیں جو کہ برطانیہ میں ہیں ان کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ یہی صورت حال آصف علی زرداری اور دیگر سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور عوامی نمائندوں کی بھی ہے پاکستان سے باہر جائیدادیں اور اثاثے کس طرح بنائے گئے؟ پاکستان سے باہر دولت کس طرح منتقل ہوتی رہی ہے؟ حالانکہ برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں۔ لیکن پھر بھی پاکستان سے مختلف ذرائع استعمال کر کے سرمایہ برطانیہ منتقل کیا جاتا رہا اس پورے عمل میں کچھ قومی ادارے پوری طرح ملوث رہے۔ یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آ چکی ہے قومی وسائل پر چندخاندانوں کا قبضہ ہے یعنی ہر شعبہ پر ایک مافیا اپنا کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہے۔ شوگر مافیا سے لے کر صحت، تعلیم ہر طرح کی انڈسٹری اور پھر صحافت تک ہر جگہ مافیا اپنے قدم جمائے ہوئے ہے۔ جن ملکوں کو ناکام ریاست کا درجہ دیا جاتا ہے ان ممالک کی معیشت اور سیاست تباہ کر دی جاتی ہے خفیہ ذرائع سے ملک کے اندر سرمایہ تقسیم کیا جاتا ہے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر غیر ملکی قرضے فراہم کئے جاتے ہیں حکومت کی اعلیٰ شخصیات کو کمیشن لینے کے مرض میں مبتلا کر کے کرپٹ بنایا جاتا ہے عدالتیں امیر خاندانوں کو ریلیف فراہم کرتی ہیں عام لوگ حصول انصاف کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں اس طرح معاشرے میں بدامنی، بداعتمادی اور جرائم میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے جمہوریت کے نام پر انتخابات تو ہوتے ہیں عام آدمی انتخاب لڑنے کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا صرف اور صرف امیر خاندان ہی اقتدار کا حصہ بنتے ہیں۔
انتخابات میں دھاندلی کر کے نتائج بدل دیئے جاتے ہیں ان تمام عوامل کے لئے عالمی بنک کے بھاری قرضے اور US AID اپنا بھر پور کردار ادا کرتے ہیں۔ ماضی میں یہ سب کچھ عراق، مصر، لیبیا، شام، یمن میں ہو چکا ہے ان ممالک کے قومی وسائل تباہ کر کے عالمی طاقتوں نے ان کی دولت پر قبضہ جما رکھا ہے اور ان ممالک میں خانہ جنگی کی حالت پیدا کر کے عالمی طاقتیں اپنی مداخلت کا جواز پیدا کرتی ہیں۔ پاکستان کے اندر ایک منظم عالمی سازش کے تحت سیاسی عدم استحکام کے ساتھ معیشت بھی تباہ کر دی گئی ہے۔ ماضی کے حکمرانوں کو قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک اپنے اثاثے اور جائیدادیں بنانے میں خفیہ طور پر معاونت بھی فراہم کی گئی یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ حکمران ہر لحاظ سے کرپٹ ہیں عدل و انصاف کے اداروں کی جو موجودہ صورت حال ہے یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر قومی مفاد میں مل بیٹھ کر آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورتہے تاکہ پاکستان اندرونی اور بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو سکے۔ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ صدر پاکستان اور وزیر اعظم اپنے اختیارات بھر پور انداز میں استعمال کرتے ہوئے آئین پاکستان کے دائرہ اختیار میں رہ کر قومی اداروں اور نظام میں جنگی بنیادوں پر انقلابی تبدیلیاں لائیں۔