1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Ye Log Kisi Ke Nahi Hain

Ye Log Kisi Ke Nahi Hain

یہ لوگ کسی کے نہیں ہیں

ممتاز بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سندھ کے وزیراعلیٰ تھے، یہ مئی 1972ء کو وزیراعلیٰ بنے اور20 دسمبر 1973ء تک اس عہدے پر فائز رہے، ممتاز بھٹو نے بھی عام پاکستانی سیاستدانوں کی طرح ایک منہ زور شخص پال رکھا تھا، اس کا نام قلندرو تھا، یہ نسلاً سندھی تھا۔ قلندرو سمجھتا تھا کہ اس کے پیچھے کیونکہ صوبے کا طاقتور ترین شخص ہے چنانچہ یہ کسی کی پروا نہیں کرتا تھا، یہ تھانوں سے لوگ اٹھا کر لے جاتا تھا، یہ فوجی دستوں کو بھی للکار دیتا تھا اور اس کی دست درازیوں سے پارٹی کے سینئر عہدیدار بھی محفوظ نہیں تھے، قلندرو کی حرکتیں جب حدیں کراس کرنے لگیں تو آئی بی نے اس کی فائل تیار کی اور وزیراعظم کو بھجوا دی، ذوالفقار علی بھٹو نے فائل پڑھنے کے بعد اس پر ایک خوبصورت بلکہ شاندار فقرہ لکھا اور فائل ممتاز بھٹو کو بھجوا دی، بھٹو صاحب نے لکھا " ممتاز یاد رکھو، دنیا کا کوئی شخص، کوئی غنڈہ یا کوئی مافیا اپنے سرپرست یا آقا کے لیے کام نہیں کرتا، یہ صرف اور صرف اپنے لیے کام کرتا ہے" ممتاز بھٹو نے چیئرمین بھٹو کی رائے کو کتنی اہمیت دی، تاریخ اس سلسلے میں خاموش ہے مگر بھٹو صاحب کا یہ فقرہ آج بھی بول رہا ہے۔

ہم لوگ ہمیشہ اپنے دشمنوں، اپنے مخالفوں کے لیے شیر پالتے ہیں یا سیکیورٹی گارڈز رکھتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں، گارڈ ہو، فوج ہو، شیر ہو یا پھر وار لارڈز ہوں یہ لوگ ہمارے لیے کام نہیں کرتے، یہ صرف اور صرف اپنے وفادار ہوتے ہیں، یہ اپنے اپنے مفادات کے چوکیدار ہوتے ہیں اور ہم جب اس حقیقت تک پہنچتے ہیں تو پانی اس وقت تک سر سے بہت اونچا جا چکا ہوتا ہے، قلندرو جیسے لوگ ان خون آشام بلاؤں کی طرح ہوتے ہیں جنھیں لوگ روزانہ مخالفوں کا خون پلاتے اور گوشت کھلاتے ہیں اور پھر ایک دن جب مخالف ختم ہو جاتے ہیں تو یہ بلائیں اپنے ہی آقا کی شہ رگ پر دانت گاڑھ دیتی ہیں اور اس کے وجود کا ایک ایک ریشہ، ایک ایک نس کھا جاتی ہیں اور اس کے بعد کسی دوسرے آقا کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہیں۔

ہم انفرادی طور پر نہیں بلکہ بحیثیت قوم بھی اس المیے کا شکار ہیں، آپ صرف افغان پالیسی کی مثال لے لیجیے، ہم نے افغان جنگ کے دوران ملک میں چند گروپ پروان چڑھائے، یہ ہمارے مفت کے سپاہی تھے، جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقاء مفت کے ان سپاہیوں کے خون کے بدلے امریکا سے اقتدار کا پروانہ اور ڈالر وصول کرتے رہے اور ان ڈالروں اور اقتدار کے بدلے افغانستان میں امریکاکی جنگ لڑتے رہے، امریکا اپنے مذموم مقاصد کے لیے ازبکستان، چیچنیا، سعودی عرب، یمن، سوڈان، یو اے ای اور مصر سے بھی مجاہدین پاکستان بھجواتا رہا، ہم اپنے لوگوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی مجاہدین کو بھی سپورٹ کرتے رہے، یہ لوگ سچے بھی تھے، کھرے بھی، بہادر بھی اور اپنے مقصد میں واضح بھی مگر یہ لوگ یہ نہیں جانتے تھے یہ امریکا اور پاکستان کے فوجی آمروں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں، یہ مزید استعمال ہوتے مگر اچانک سوویت یونین نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا، روس نے اپنی فوجیں سمیٹیں اور یہ دریائے آمو کے پار واپس چلا گیا۔

روسی ٹینکوں کی واپسی کے ساتھ ہی امریکا بھی اپنے روتے بلکتے بچے چھوڑ کر واپس بھاگ گیا، ہمارے جرنیلوں اور امریکی امداد پر پلنے والے افغان سرداروں نے کبھی اس صورتحال کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا، ان کا خیال تھا، یہ جنگ دنیا کی آخری سانس تک جاری رہے گی اور یوں ان کا نان نفقہ چلتا رہے گا مگر روس اور پھر امریکا کی اچانک واپسی نے ان کی خواہشوں کی بساط الٹ دی اور یہ کنفیوژن کا شکار ہو گئے، جنرل ضیاء الحق اس بوکھلاہٹ میں جان سے گئے جب کہ افغان سردار ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہو گئے اور افغانستان دوزخ کا دھانہ بن گیا، اس گرم دوزخ نے ایک بار پھر دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا، ہم لوگ کیونکہ پوری دنیا کے ٹھیکیدار ہیں، ہم سے اپنا گھر چلتا نہیں، ہم آج تک چار صوبے سنبھال نہیں سکے مگر ہم ہر لمحہ پوری امت کی رہنمائی کا تاج سر پر سجانے کے لیے تیار ہیں لہٰذا ہم ایک بار پھر افغانستان کے نانا جی بن گئے۔

ہم نے افغانوں کو افغانوں کے ذریعے مارنے کا فیصلہ کیا، جنرل نصیر اللہ بابر میدان میں کودے اور انھوں نے طالبان انقلاب کی بنیاد رکھ دی، یہ ہماری دوسری بڑی غلطی تھی، ہم نے سترا ور اسی کی دہائی میں جس طرح یہ سوچ کر جہاد کا علم اٹھایا تھا کہ روس اور امریکا ہمارے خطے میں "انگیج" ہو چکے ہیں اور یہ اب کبھی واپس نہیں جائیں گے، ہم نے بالکل اسی طرح نوے میں یہ سوچ کر طالبان کی پرورش شروع کی، یہ لوگ ڈیورنڈ لائن سے دوسری طرف رہیں گے اور یہ اگر وہاں اپنی مرضی کا اسلام بھی نافذ کر لیتے ہیں تو بھی یہ اسلام پشاور، اسلام آباد، لاہور اور کراچی سے بہت دور رہے گا، ہم نے طالبان فارمولہ بناتے وقت یہ بھی سوچ لیا تھا امریکا اور روس اب کبھی واپس اس خطے میں نہیں آئیں گے اور یہ افغانستان کے طالبان ہمیشہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے دست نگر رہیں گے، ہم ڈوریاں ہلائیں گے اور یہ لوگ ہماری کٹھ پتلیاں بن کر ہماری ڈھال کا کام کریں گے، افغانستان میں طالبان کی حکومت بنی تو اسلام پسند سوچ کے حامی پاکستانی نوجوان بھی جلال آباد جانے لگے، ہم یہ ہجرت دیکھ کر بھی بہت خوش ہو گئے کیونکہ ہمارا خیال تھا یہ لوگ افغانستان میں بس جائیں گے اور یوں ہماری جان چھوٹ جائے گی مگر پھر نائن الیون ہو گیا، امریکا ایک بار پھر ہمارے خطے میں آیا۔

طالبان حکومت ختم ہوئی اور طالبان ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں پناہ گزین ہو گئے، تاجکستان، ازبکستان اور ایران بھی افغانستان کے ہمسائے تھے لیکن یہ ممالک سمجھ دار تھے، انھوں نے اپنی سرحدیں ٹائیٹ کر رکھی تھیں جب کہ ہمارے بارڈر خالہ جی کا ویڑا تھے اور یہ لوگ خالہ جی کے گھر آ گئے، ہم نے تیسری غلطی نائن الیون کے بعد کی، ہم نے پاکستان کی سیاسی اہمیت بڑھانے کے لیے ان لوگوں کو پاکستان آنے دیا، یہ لوگ قبائلی علاقوں میں جمع ہو گئے، ہمارا خیال تھا ہم قبائلی علاقوں میں فوج بھیجیں گے، افغانستان سائیڈ سے نیٹو ان لوگوں کو مارے گی اور پاکستانی سائیڈ سے پاک فوج ان کے خلاف آپریشن کرے گی اور یوں یہ لوگ بھی ختم ہو جائیں گے اور امریکا بھی ہمارا احسان مند ہو جائے گا، ہم نے اس دوران طالبان کو گڈ طالبان اور بیڈ طالبان دو حصوں میں تقسیم بھی کر دیا، ہم گڈ طالبان کو ریاستی، سیاسی اور عسکری قوت سمجھتے تھے جب کہ ہماری نظر میں بیڈ طالبان ہمارے دشمن تھے، ہم نے ان دونوں قسموں کے طالبان کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جمع ہونے دیا، ہم نے اس دوران ملک میں پیدا ہونے والے شدت پسند گروہوں، فرقہ وارانہ تنظیموں اور جرائم پیشہ عناصر کو بھی قبائلی علاقوں کی طرف دھکیل دیا۔

ہمارا خیال تھا یہ تمام لوگ، تمام گروپ ایک جگہ ہوں گے تو ہم جب چاہیں گے انھیں گھیر لیں گے اور مار دیں گے، یہ لوگ قبائلی علاقوں میں جمع ہوئے، جنرل پرویز مشرف دنیا کو یہ لوگ دکھا کر امریکا سے ڈالر اور اقتدار مانگتے رہے اور دنیا جنرل مشرف کو یہ دونوں چیزیں دیتی رہی مگر پھر گیم ہمارے ہاتھ سے نکل گئی، دنیا اور مجاہدین ہماری منافقت تک پہنچ گئے، طالبان جان گئے ان کے اصل دشمن روس یا امریکا نہیں وہ لوگ ہیں جو 1977ء سے ان کا فائدہ اٹھا رہے ہیں چنانچہ یہ لوگ اپنی پناہ گاہوں سے نکلے اور انھوں نے ہمارا گھیراؤ کر لیا، عالمی طاقتیں بھی ہمارے دوہرے کردار کو سمجھ گئیں چنانچہ وہ دن آ گیا جب پشاور جیسے شہر میں مسیحی برادری کی 83 نعشیں پڑی ہیں اور پوری دنیا ہمیں خون سے بھری آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔

آج ہمارا جی ایچ کیو محفوظ ہے اور نہ ہی مہران بیس اور کامرہ بیس اور نہ ہی ہماری مسجدیں، بارگاہیں، قبرستان، پولیس لائینز اور اسپتال، پورا ملک مقتل بن چکا ہے اور ہم مقتل میں انسانی نعشوں کی باقیات جمع کرنے تک محدود ہو چکے ہیں، ہم اپنے ہی پالے ہوئے شیروں، اپنی ہی بلاؤں اور اپنے ہی مافیاز کا شکار بن رہے ہیں اور ہمارے اتحادی ہماری منافقت کا تماشا دیکھ رہے ہیں، ہم نے جنھیں دوسروں کے لیے پالا تھا وہ آج ہماری گردن دبوچ کر بیٹھے ہیں اور ہم حیرت سے کبھی دائیں دیکھتے ہیں اور کبھی بائیں۔

ہم 1977ء میں جب افغان پالیسی بنا رہے تھے تو ہمیں اس وقت سوچنا چاہیے تھا، ہم جس شیر کو تازہ انسانی گوشت پر پال رہے ہیں اسے جس دن ہمارے دشمن کی گردن نہیں ملے گی، یہ اس دن کیا کرے گا، یہ اس دن ہمیں دبوچ لے گا، ہمیں 1994ء میں طالبان انقلاب کی بنیاد رکھتے ہوئے بھی سوچنا چاہیے تھا یہ لوگ اگر افغانستان میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان ان کا اگلا ٹارگٹ ہو گا اور دنیا انھیں کبھی نیو کلیئر بم تک نہیں پہنچنے دے گی اور یوں ہمارا ملک " پراکسی وار" کا مرکز بن جائے گا اور ہمیں نائن الیون کے بعد امریکا کی حمایت کرتے وقت بھی سوچنا چاہیے تھا، ہم جب امریکا کے ساتھ مل کر امریکا کے دشمنوں کو ماریں گے یا امریکا کے دشمنوں کو پاکستانی علاقوں میں پناہ دیں گے یا فرقہ پرست تنظیموں کو ان کے ساتھ ملنے کا موقع دیں گے تو ان کی طاقت میں تین چار گنا اضافہ ہو جائے گا اور یہ جب ہم پر بھرپور حملے کرینگے تو ہم کہاں جائیں گے کیونکہ اس وقت تک امریکا بھی ہمارا دشمن، ہمارا مخالف ہو چکا ہو گا اور آج یہی ہو رہا ہے۔

ہمارے اپنے ہی پالے ہوئے قلندرو ہمارے سامنے کھڑے ہیں اور ہمارے اندر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی جرأت نہیں، کیوں؟ کیونکہ ہم آج بھی اپنے ساتھ " گیم" کر رہے ہیں، ہم نے آج بھی آگ کے ساتھ کھیلنے کا کھیل ترک نہیں کیا، ہم آج بھی انھیں جیل توڑنے اور اپنے ساتھی لے جانے کا موقع دے رہیں اور ہمارا خیال ہے یہ اس " احسان" کے بدلے ہماری فوج کو معاف کر دیں گے مگر ہم یہ بھول رہے ہیں دنیا کا یہ قلندرو صرف اپنا غلام ہوتا ہے، یہ کسی دوسرے کو اپنا آقا نہیں مانتا، یہ احسان کے باوجود میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کو شہید کر دیتا ہے اور چرچ تباہ کر کے پوری اسٹیٹ کو اسٹیک پر لگا دیتا ہے، یہ لوگ کسی کے نہیں ہیں، یہ صرف اور صرف اپنے ہیں، ہمیں آج یہ مان لینا چاہیے، ہمیں آج پہلی بار صحیح اور ایماندارانہ فیصلہ کرنا چاہیے ورنہ دوسری صورت میں تاریخ کا قبرستان ہو گا اور ہم ہوں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Zindagi Mein Maqsadiyat

By Syed Mehdi Bukhari