ٹھیکے داروں کا ملک
مجھے کل ایک دوست نے کراچی کی ایک خاتون کا وزیراعلیٰ سندھ کے نام خط بھجوایا، خاتون نے خط میں لکھا، میرے خاوند انتہائی علیل ہیں، یہ ہفتے میں تین بار ڈائیلیسز کراتے ہیں، ان کے ڈائیلیسز، ماہانہ ٹیسٹوں، ادویات، انجیکشنز اور ڈاکٹروں کی فیسوں پر ایک لاکھ 75 ہزار روپے ماہانہ خرچ ہو جاتے ہیں۔
ہماری دونوں بیٹیاں مل کر یہ اخراجات برداشت کرتی ہیں لیکن اب ان کے بس کی بات بھی نہیں لہٰذا میری آپ سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر میرے خاوند کے میڈیکل اخراجات کا کوئی مستقل بندوبست کر دیں، خاتون نے آخر میں لکھا، میرے خاوند میرے گھر میں رہتے ہیں اور یہ گھر مجھے میری والدہ نے دیا تھا، یہ ایک عام سا خط تھا، ملک میں روز ہزاروں لوگ اس قسم کے خط لکھتے ہیں اور حکومت سے امداد مانگتے ہیں، یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں لیکن یہ خط اس کے باوجود غیرمعمولی ہے، کیوں؟
کیوں کہ یہ درخواست کسی عام شخص نے نہیں کی، یہ خط پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کی بہو دُر لیاقت علی خان نے لکھا تھا اور جس مریض کے لیے امداد مانگی جا رہی ہے اس کا نام اکبر علی خان ہے اور یہ لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت علی کا بیٹا ہے۔
ہمارے ملک میں شاید بہت کم لوگوں کو علم ہو گا لیاقت علی خان کرنال کے بہت بڑے جاگیردار خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ان کی جاگیر میں ریلوے اسٹیشن تھا اور ان کے کھیت اور باغ میلوں تک پھیلے تھے، وہ 1918 میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھنے گئے تھے، وکالت شروع کی تو وہ چند برسوں میں ہندوستان کے بڑے وکلاء میں شمار ہونے لگے، 1923میں سیاست میں آئے اور 1926 میں انگریز دور میں یوپی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔
مسلم لیگ جوائن کی تو قائداعظم کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر بن گئے، 1947 میں پاکستان آئے تو اپنی ساری زمین جائیداد، روپیہ پیسہ حتیٰ کہ کپڑے تک بھارت چھوڑ آئے اور کراچی میں جائیداد کا کسی قسم کا کلیم نہ کیا، اس سرزمین پر ایک انچ زمین نہ لی، وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے، وہ اگر چاہتے تو آدھا کراچی، لاہور اور راولپنڈی ان کا ہوتا، وہ اگر دہلی اور ممبئی کے گھروں کا کلیم ہی لے لیتے تو ان کا خاندان آج ارب پتی ہوتا لیکن اس درویش صفت انسان نے ملک کو اپنا سب کچھ دے دیا لیکن بدلے میں لیا کچھ نہیں۔
ان کی بیگم اپنے زمانے کی انتہائی خوب صورت، مہذب اور پڑھی لکھی خاتون تھیں، وہ برٹش آرمی کے انگریز میجر جنرل ڈینیل پینٹ کی بیٹی تھیں، والدہ برہمن تھی، لکھنو یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور گوکھلے میموریل اسکول کلکتہ میں پڑھانا شروع کر دیا، 1931 میں ایم اے کیا اور دہلی میں پروفیسر بن گئیں، ان کا نام شیلا آئرن پینٹ تھا، 1932 میں اسلام قبول کیا، خان لیاقت علی خان سے شادی کی اور شیلا سے بیگم رعنا لیاقت علی خان بن گئیں۔
ان کے دو بیٹے تھے، اکبر علی خان اور اشرف علی خان، یہ دونوں سعادت مند بھی تھے اور عزت دار بھی، لیاقت علی خان اور رعنا لیاقت علی خان نے جوانی فراوانی میں گزاری تھی، دنیا جہاں کی نعمتیں ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑی رہتی تھیں لیکن یہ لوگ جب پاکستان آئے تو یہ خالی ہاتھ تھے، کراچی میں خان لیاقت علی خان کے نام پر ہزاروں ایکڑ پر لیاقت آبادکا سیکٹر بنا لیکن اس میں بھی خان لیاقت علی خان نے ایک انچ زمین نہیں لی۔
یہ جب 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں سید اکبر کی گولی کا نشانہ بنے اور ان کی اچکن اتاری گئی تو پتا چلا ملک کے پہلے وزیراعظم نے شیروانی کے نیچے کرتہ نہیں پہنا ہوا تھا، بنیان تھی اور وہ بھی پھٹی ہوئی تھی، گھر میں کپڑوں کے صرف تین جوڑے اور دو جوتے تھے، اکائونٹ میں چند سو روپے تھے، بیگم اور بچے وزیراعظم ہائوس میں رہتے تھے، خواجہ ناظم الدین نئے وزیراعظم بن گئے، یہ اس گھر میں آئے تو پتا چلا لیاقت علی خان کی فیملی کے لیے پورے ملک میں کوئی گھر موجود نہیں، سوال اٹھا یہ لوگ کہاں جائیں گے؟
لہٰذا خواجہ ناظم الدین نے بیگم رعنا لیاقت علی خان کو ہالینڈ میں سفیر بنا کر بھیج دیا، بیگم رعنا ہالینڈ، پھر اٹلی اور آخر میں تیونس میں سفیر رہیں، یہ واپس آئیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں گورنر سندھ بنا دیا، یہ پاکستان کی پہلی خاتون چانسلر بھی رہیں، یہ کراچی یونیورسٹی کی چانسلر تھیں، آپ اپوا سے لے کر پاکستان نیشنل وومن گارڈز، پاکستان وومن ریزرو، پاکستان کاٹیج انڈسٹریز شاپ، ماڈل کالونی برائے کرافٹس، گل رعنا نصرت انڈسٹریل سینٹر، کمیونٹی سینٹر یا پھر فیڈریشن آف یونیورسٹی وومن اور انٹرنیشنل وومن تک ملک میں خواتین کا کوئی ادارہ دیکھ لیں آپ کو خواتین سے متعلقہ ہر بڑے ادارے کے پیچھے بیگم رعنا لیاقت علی خان ملیں گی، یہ جب ہالینڈ میں سفیر تھیں تو ان کے بارے میں ایک واقعہ مشہور ہوا۔
ہالینڈ کی ملکہ جولیانا ان کی دوست بن گئیں، یہ دونوں خواتین اس وقت پورے یورپ میں مشہور تھیں، بیگم رعنا لیاقت تاش کے کھیل بریج کی بہت بڑی ایکسپرٹ تھیں، یہ روزانہ ملکہ کے ساتھ بریج کھیلتی تھیں، ایک دن ملکہ جولیانانے بیگم رعنا کے ساتھ شرط لگائی اگر تم آج کی بازی جیت گئی تو میں تمہیں اپنا ایک محل گفٹ کر دوں گی، بازی شروع ہوئی اور بیگم رعنا لیاقت علی جیت گئیں، ملکہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنا ایک محل رعنا لیاقت علی خان کو دے دیا اور بیگم صاحبہ نے یہ محل حکومت پاکستان کے لیے وقف کر دیا۔
آج بھی ہالینڈ میں پاکستان کا سفارت خانہ اسی محل میں قائم ہے، یہ 1990میں کراچی میں فوت ہوئیں اور انھیں مزار قائد پر خان لیاقت علی خان کے پہلو میں دفن کر دیا گیا لیکن یہ ہوں یا خان لیاقت علی خان وہ اپنی اولاد کے لیے کوئی زمین یا جائیداد چھوڑ کر نہیں گئے اور آج ان کے صاحب زادے اکبر علی خان اپنی بیگم دُر لیاقت کے گھرمیں رہتے ہیں اوران کی حالت یہ ہے ان کی بیگم اپنے بیمار خاوند کے علاج کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھنے پر مجبور ہیں، ملک کے پہلے وزیراعظم کے صاحب زادے اور بہو ہر ماہ ایک لاکھ 75 ہزار روپے افورڈ نہیں کر سکتے، یہ خان لیاقت علی خان کے ملک میں اپنے ڈائیلیسز کا خرچ پورا نہیں کر سکتے۔
یہ ملک ان لوگوں کا تھا، یہ وہ لوگ تھے جو میلوں پر پھیلی جاگیریں چھوڑ کر اس ملک میں آئے اور پھر پھٹی ہوئی بنیان کے ساتھ دفن ہوئے، یہ ملک راجہ صاحب محمود آباد جیسے لوگوں کا ملک تھا، وہ محمود آباد کی ریاست کے راجہ تھے، پوری زندگی اپنی رقم سے مسلم لیگ چلائی، پاکستان بنا تو کراچی آ گئے اور حکومت سے کوئی گھر، کارخانہ اور زمین نہیں لی، ملک میں جب سیاسی افراتفری پھیلی، مارشل لاء لگا تو یہ مایوس ہو گئے اور چپ چاپ اٹھے، بیگ اٹھایا اور لندن جا بسے۔
راجہ صاحب محمود آباد کا 1973میں لندن میں انتقال ہوا، وہ انتقال سے قبل ہر ملنے والے سے کہتے تھے "میں پوری زندگی جن انگریزوں سے لڑتا رہا، مجھے آخر میں انھی انگریزوں کے گھر میں پناہ لینا پڑ گئی اور میں آج ان کی مہربانی سے اپنا آخری وقت عزت کے ساتھ گزار رہا ہوں " یہ سردار عبدالرب نشتر، مولوی فضل حق، حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین کا ملک تھا، یہ لوگ ملک بننے سے قبل کروڑ بلکہ ارب پتی تھے لیکن وہ اس ملک میں آئے۔
عسرت میں زندگی گزاری اور پھر ان کی اولادیں اکبر علی خان کی طرح علاج اور چھت کو ترستی ہوئی دنیا سے رخصت ہو گئیں جب کہ ان کے اردگرد1700ایکڑ کا رائے ونڈ بھی بن گیا، کراچی کا بلاول ہائوس 64 عمارتیں ہضم کرنے کے باوجود بھی نامکمل رہا، لندن کے ایک فلیٹ کی برکت سے تین سو کنال کا بنی گالہ بھی بن گیا اور راولپنڈی کی رنگ روڈ میں چند کلومیٹر کا اضافہ کر کے زلفی بخاری کے نام پر اربوں روپے سمیٹ لیے گئے اور غلام سرور خان کے نام پر نواسٹی کے مالکان نے مارکیٹ میں بیس تیس ہزار فائلیں بھی بیچ دیں۔
آپ المیہ دیکھیے آج اس ملک میں قائداعظم کے رشتے دار چھت، علاج اور سواری کو ترس رہے ہیں، خان لیاقت علی خان کی بہو وزیراعلیٰ کو لیاقت علی خان کے صاحب زادے کے لیے ایک لاکھ 75 ہزار روپے کی امداد کی درخواست کر رہی ہے، راجہ صاحب محمود آباد ان انگریزوں کے قبرستان میں مدفون ہیں جن سے لڑ کر انھوں نے پاکستان حاصل کیا تھا، حسین شہید سہروردی بیروت میں لیٹے ہیں، خواجہ ناظم الدین کی آل اولاد تاریخ کے صفحات میں گم ہو گئی۔
مولوی فضل حق عبرت کی نشانی بن کر ڈھاکہ میں دفن ہو گئے اور محمد علی بوگرا ملک چھوڑ کر بوگرا گئے اور چپ چاپ وہاں انتقال کر گئے جب کہ ملک کے ٹھیکے دار آج بھی چینی، آٹے اور ایل این جی سے ایک ایک مہینے میں چار چار سو ارب روپے کما لیتے ہیں، آج لیاقت علی خان کی بہو اس ملک میں پوچھ رہی ہے کیا یہ ملک ان ٹھیکے داروں کے لیے بنا تھا، کیا لیاقت علی خان جیسے لوگوں نے یہ ملک اس لیے بنایا تھا کہ ان کے نواب ابن نواب بچے علاج کو ترستے رہیں جب کہ زلفی بخاری اور غلام سرور خان جیسے لوگ اربوں روپے کما لیں؟
یہ ہے آج کا پاکستان، ٹھیکے داروں کا ملک۔ ٹھیکے دار مفادات کے حمام میں ننگے نہا رہے ہیں، یہ ایک ایک رات میں وفاداری بدل کر صاف ستھرے ہو جاتے ہیں جب کہ مالک اور ان کی اولادیں علاج اور عزت کو ترستی ترستی دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں، ملک کے مالکوں کے بچے ڈائیلیسزکا خرچ برداشت نہیں کر پا رہے جب کہ وزیرصحت ادویات کی قیمت بڑھا کر تین چار ارب روپے جیب میں ڈالتے ہیں اور پارٹی کے سیکریٹری جنرل بن جاتے ہیں، کیا بات ہے؟ ہمیں شاید من حیث القوم انھی احسان فراموشیوں کی سزا مل رہی ہے، ہم شاید اسی لیے پوری دنیا سے جوتے کھا رہے ہیں۔