سماجی عذاب
میں نے بھی عید کے دوسرے دن بے وقوفی فرما دی، میں خاندان کو مری لے گیا، یہ میری زندگی کی سب سے بڑی بے وقوفی اور خوفناک ترین دن تھا، ہم لوگ دو گاڑیوں میں سہ پہر کے وقت گھر سے نکلے، ہمیں ایکسپریس وے تک پہنچنے میں دو گھنٹے لگ گئے، رش کی وجہ سے ایک مہربان نے میری گاڑی کا پچھلا حصہ اڑا دیا، ڈکی تک تباہ ہو گئی۔
موٹروے پولیس نے ہمیں واپس جانے کا مشورہ دیا لیکن جب انسان کی مت ماری جائے تو وہ سیدھے کو الٹا ثابت کرنے میں جت جاتا ہے، میں نے بھی پولیس کا مشورہ نہیں مانا اور یوں اس عذاب میں مبتلا ہو گیا جس میں عید کے چار دن سات آٹھ لاکھ لوگ پھنس گئے تھے، جھیکا گلی تک حالات تقریباً ٹھیک تھے لیکن اس کے بعد ناقابل برداشت ہو گئے، ٹریفک پھنس گئی اور دس گھنٹے تک پھنسی رہی، ہماری دونوں گاڑیاں ایک دوسرے سے بچھڑ گئیں، موبائل فونز کی بیٹریاں ختم ہو گئیں۔
پٹرول کے ٹینک آخری حدوں کو چھونے لگے، قرب و جوار میں کسی جگہ کوئی واش روم، کوئی دکان اور کوئی ریستوران نہیں تھا، گاڑیوں کے اندر سے بچوں کی گریہ و زاری اور خواتین کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں، میرے سامنے ایک شخص کو ہارٹ اٹیک ہوا اور اس نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی، موٹر سائیکلوں اور پیدل چلنے والوں نے ٹریفک کو مزید مشکل میں ڈال دیا، میں دس گھنٹے بعد کشمیر پوائنٹ سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر پہنچا، گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کی اور بچوں کو لے کر پیدل چل پڑا، لوگوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا۔
بچوں کو لے کر اندھیرے میں پہاڑ پر چڑھنے لگا، ہم ایک گھنٹے میں فلیٹ تک پہنچے، میں نے انھیں وہاں چھوڑا، واپس گاڑی تک آیا اور دوبارہ قطار میں لگ گیا، لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان تھے، ہر طرف دھواں ہی دھواں اور شور ہی شور تھا، مجھے اوپر پہنچنے میں مزید دوگھنٹے لگ گئے، اس کے بعد کھانا اور پانی تلاش کرنے کی باری آئی، مال روڈ پر پہنچا تو میں نے زندگی کا سب سے بڑا، بے ہنگم اور غیر منظم ہجوم دیکھا، مال روڈ پر ہاتھ سے ہاتھ اور سرسے سر ٹکرا رہا تھا، میں رمضان میں عمرے کے لیے بھی گیا، میں نے حج کی سعادت بھی حاصل کی۔
میں ویٹی کن سٹی بھی گیا ہوں اور میں نے لندن اور پیرس میں نیو ائیر کے ہجوم بھی دیکھے ہیں لیکن مال روڈ کا ہجوم ان سے کہیں بڑا تھا، آپ کو تاحد نظر سر ہی سر دکھائی دیتے تھے، مجھے کھانا لینے میں دو گھنٹے لگ گئے، ریستوران سے فلیٹ تک مزید ایک گھنٹہ لگ گیا، میں اس کے بعد دوسری گاڑی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا، دوسری گاڑی میں میرے بیٹے تھے، مجھے انھیں تلاش کرنے میں تین گھنٹے لگ گئے اور یوں ہم 18 گھنٹے بعد اکٹھے ہوئے، یہ ہماری زندگی کا خوفناک ترین دن تھا۔
مری راولپنڈی سے 32 کلو میٹر دور پنجاب کا بڑا تفریحی مقام ہے، یہ مقام دس برسوں سے عید کے ایام میں ہلڑ بازی اور رش کی منڈی بن رہا ہے، شہر میں ساڑھے تین ہزار گاڑیوں کی آمد و رفت اور پارکنگ کی گنجائش ہے، عید کے دن 37 ہزار گاڑیاں شہر میں داخل ہوئیں، عید کے دوسرے دن 81 ہزار 9 سو 37 گاڑیاں مری میں آئیں جب کہ تیسرے دن ان کی تعداد ایک لاکھ 21 ہزار تھی، مری آنے والے لوگوں کے بارے میں اندازہ تھا ان کی تعداد سات آٹھ لاکھ تھی، مری کو ہم پنڈی پوائنٹ سے شروع کریں اور کشمیر پوائنٹ پر ختم کریں تو اس کی لمبائی چار کلو میٹر بنتی ہے۔
یہ چار کلو میٹر سات آٹھ لاکھ لوگوں کو کیسے برداشت کرے گا، آپ خود اندازہ کیجیے اور جس شہر میں ساڑھے تین ہزار گاڑیوں کی گنجائش ہو وہ شہر روزانہ اسی نوے ہزار گاڑیوں کی گنجائش کیسے پیدا کرے گا؟ چنانچہ مری تفریحی مقام کی بجائے مقام عذاب بن گیا، پولیس بالخصوص ٹریفک وارڈنز جاں فشانی کا مظاہرہ کرتے رہے، ان لوگوں نے مسلسل 36 گھنٹے کام کیا، میں نے ٹریفک وارڈنز کو لوگوں کے سامنے ہاتھ باندھتے اور ان کی منت تک کرتے دیکھا لیکن ٹریفک اس کے باوجود کنٹرول نہیں ہو رہی تھی۔
لوگ ایک دوسرے سے تعاون کے لیے تیار نہیں تھے، لوگ آنے والی لین میں گاڑیاں چڑھا دیتے تھے اور ایک آدھ گاڑی کی وجہ سے دو دو گھنٹے کے لیے ٹریفک بند ہو جاتی تھی، واش روم نہیں تھے، گاڑیاں سائیڈ پر کھڑی کرنے کی گنجائش نہیں تھی اور ہجوم کو کنٹرول کرنے کا انتظام بھی نہیں تھا، یہ معاملہ صرف اس عید تک محدود نہیں بلکہ مری ہر بار عیدین، 14 اگست اور لمبی چھٹیوں کے دنوں میں اسی عذاب سے گزرتا ہے، میاں برادران کو مری سے خصوصی محبت ہے لہٰذا میں اپنے تجربات کی بنیاد پر انھیں چند مشورے دینا چاہتا ہوں۔
میرا خیال ہے اگر ان مشوروں پر تھوڑا سا بھی عمل کر لیا جائے تو مری اور سیاحوں کے مسائل میں کمی ہو سکتی ہے، میری حکومت سے درخواست ہے، آپ رش والے دنوں میں مری میں موٹر سائیکلوں کے داخلے پر پابندی لگا دیں، یہ موٹر سائیکل حادثوں کا باعث بھی بنتے ہیں اور ٹریفک میں خلل بھی ڈالتے ہیں، ایکسپریس وے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موٹر سائیکل پر پابندی لگا دی جائے، ایکسپریس ٹول پلازے کی فیس پچاس روپے ہے، عید کے دنوں میں فیس میں پانچ گنا اضافہ کر دیا جائے، یہ اضافی رقم ٹریفک وارڈنز کو بطور بونس ادا کر دی جائے اور ساتھ ہی انھیں پابند کیا جائے مری میں عیدین کے دوران ٹریفک کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہونا چاہیے، رش والے دنوں میں ایکسپریس وے کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
گاڑیوں کو ان پانچ حصوں میں روک لیا جائے، صرف دو، دو ہزار گاڑیوں کو آگے جانے دیا جائے، دو ہزار گاڑیاں جھیکا گلی کراس کر جائیں تو نئی دو ہزار گاڑیاں آ جائیں، باقی گاڑیاں دس کلو میٹر پیچھے انتظار کریں، ایکسپریس وے پر ڈیجیٹل بورڈ لگا دیے جائیں جو سیاحوں کو رش اور منزل سے فاصلے کے بارے میں بتاتے رہیں، لوگوں کو ٹول پلازے پر بتا دیا جائے آپ کو اتنے گھنٹے لگ جائیں گے، آپ کا فیول ٹینک فل ہے تو آگے جائیں ورنہ واپس چلے جائیں، آپ مریض ہیں تو بھی آگے نہ جائیں، مری اور مری کے راستے میں ہارن بجانے پر پابندی لگا دیں، ٹول پلازے پر جدید ترین واش رومز بنوائیں، مری کے داخلے کے مقام پر بھی واش رومز اور شاپنگ سینٹر ہونا چاہیے، مری کے تمام ہوٹلوں، گیسٹ ہاؤسز، مکانات اور ریسٹ ہاؤسز کو آن لائین کر دیا جائے اور صرف ان لوگوں کو مری میں گاڑی لے جانے کی اجازت دی جائے جن کے پاس بکنگ موجود ہو باقی خواتین و حضرات کے لیے "ڈے پاس" جاری کیے جائیں، ڈے پاس کی باقاعدہ قیمت ہو۔
سیاح ڈے پاس کی قیمت شاپنگ یا ریستوران کے بل میں ایڈجسٹ کروا سکیں یا پھر شام کے وقت ڈے پاس واپس کر کے اپنی رقم واپس لے لیں، مال روڈ کو درمیان میں عارضی پائپ لگا کر دو حصوں میں تقسیم کر دیاجائے، ایک حصے میں فیملیز چل سکیں اور دوسرے حصے میں عام لوگ۔ موجودہ حالات میں لوگوں کو فیملی کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے دقت ہوتی ہے، مری کو اگر جھیکا گلی اور پنڈی پوائنٹ سے کار فری کر دیا جائے، شہر کے اندر بگھیاں، الیکٹرانک کارز اور سائیکل رکشے چلادیے جائیں تو اس سے بھی ٹریفک کا مسئلہ حل ہو جائے گا، یہ ممکن نہ ہو تو حکومت فوری طور پر جھیکا گلی پر اوور ہیڈ روڈ بنائے، یہ بھی ممکن نہ ہو تو مری کے انٹری اور ایگزٹ کے راستے مختلف کر دیے جائیں، لوگ پرانی سڑک کے ذریعے مری میں داخل ہوں اور موٹر وے کے ذریعے باہر نکلیں یا پھر موٹر وے کے ذریعے داخل ہوں اور پرانی روڈ کو خروج کے لیے وقف کر دیا جائے اور رش کے دنوں میں مری میں پولیس کی نفری میں بھی اضافہ کر دیا جائے۔
ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا ملک میں سیاحت کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے، لوگ چھٹیوں میں تفریحی مقامات کی طرف جاتے ہیں، آپ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کو دیکھیں، لاکھوں لوگ ان شہروں میں جمع ہو جاتے ہیں، ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور حالات کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں، حکومت کو فوری طور پر نئی تفریح گاہیں بنانی چاہئیں۔
سیاحت کی وزارت کو ایکٹو کریں، پرائیوٹ کمپنیوں کو بلائیں، زمینیں الاٹ کریں اور ملک کے مختلف علاقوں میں تفریحی پارک بنائیں، شہروں کے مضافات میں مصنوعی جھیلیں بھی بنائیں اور ان جھیلوں کے کنارے تفریحی پارکس، ریستوران اور کیفے بھی۔ شہروں میں نئے تھیٹر ہاؤس اور سینما بنوائیں اور نئے پارکس بھی۔ یہ تفریحی مقامات لوگوں کے ذہنوں پر اچھے اثرات مرتب کریں گے، معاشرہ صحت مند ہو گا اور بڑے شہروں پر دباؤ بھی کم ہو جائے گا ورنہ دوسری صورت میں ہم سب سماجی عذاب کا شکار ہو جائیں گے۔