میاں نواز شریف کے بعد
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے 29 نومبر 2013ء کو ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیا اور اس اعلان کے ساتھ ہی میاں نوازشریف کی لیڈر شپ کا اصل امتحان شروع ہو گیا، ہم میاں صاحب کی طرف آنے سے قبل لفظ لیڈر شپ کاپوسٹ مارٹم کریں گے۔
لیڈر شپ کی تین اسٹیج ہوتی ہیں، ان تینوں اسٹیجز سے قبل ایک صفر اسٹیج آتی ہے، اس اسٹیج پر کسی گروپ، معاشرے یا قوم کو لیڈر کی ضرورت نہیں ہوتی، آپ فرض کیجیے آپ دس لوگ ہیں، آپ کے پاس دس بکریاں، دس گھر اور دس کھیت ہیں، آپ کو آپ کی ضرورت کے مطابق پانی اور خوراک بھی مل رہی ہے اور آپ اپنے چھوٹے بڑے اختلافات بھی خود نبٹا لیتے ہیں، آپ کو اس صورتحال میں کسی لیڈر کی ضرورت نہیں ہوتی، آپ اپنے معاملات خود چلا لیں گے مگر فرض کیجیے آپ دس لوگ ہیں لیکن بکریاں چھ، گھر آٹھ، کھیت سات اور خواتین بارہ ہیں، پانی اور خوراک کی مقدار بھی کم ہے اور آپ کو موسم بھی ڈسٹرب کرتے رہتے ہیں چنانچہ آپ دس لوگ روزانہ لڑتے اور جھگڑتے ہیں۔
آپ کو اب کمیونٹی کومسائل سے نکالنے کے لیے لیڈر کی ضرورت ہو گی، یہ لیڈر شپ کی پہلی اسٹیج ہو گی، یہ لیڈر آپ کے لیے عدل کا نظام وضع کرے گا، یہ حقدار کو حق دے گا اور ناحق کی سرزنش کرے گا، یہ لوگوں کو مسائل بڑھانے سے بھی روکے گا، عدل لیڈر شپ کی پہلی اسٹیج ہوتی ہے، انصاف کے قیام کے بعد لیڈر شپ کی دوسری اسٹیج شروع ہوتی ہے، آپ کی کمیونٹی کو اب ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو آپ کے وسائل میں اضافہ کرے، جو پانی، خوراک، زمین، مال مویشیوں، گھروں، کھیتوں اور افرادی قوت میں اتنا اضافہ کر دے کہ تمام لوگوں کی ضرورت پوری ہو سکے، وسائل میں اضافہ لیڈر شپ کی دوسری اسٹیج ہوتی ہے، لیڈرشپ کی اس اسٹیج کے بعد تیسری اور آخری اسٹیج آتی ہے، اس تیسری اسٹیج کو وژنری لیڈر شپ کہا جاتا ہے۔
آپ کا لیڈر آنے والے زمانوں کا تجزیہ کرتا ہے، وہ یہ دیکھتا ہے ہماری آبادی جب دس سے پندرہ ہو جائے گی تو ہمیں کتنی زمین، کتنے کھیت، کتنے گھر، کتنی بکریاں، کتنا پانی اور کتنی خوراک درکار ہوگی؟ اگر ہمارے کھیت بنجر ہو گئے یا کسی سال بارش نہ ہوئی یا جانور مر گئے یا دوسری کمیونٹی کے لوگوں نے ہم پر حملہ کر دیا تو ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟ وہ اس " کیا" پر کام کرتا ہے، وہ مستقبل کو ذہن میں رکھ کر ایسی پالیسیاں بناتا ہے جن کے نتیجے میں حال کے مسائل بھی ختم ہوتے رہتے ہیں، وسائل میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور مستقبل کے تمام چیلنجز بھی ایڈریس ہوجاتے ہیں اور یوں کمیونٹی کو حال سے مستقبل میں جاتے ہوئے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، یہ لیڈر شپ کی تین اسٹیج ہیں۔
آپ اب ان تین اسٹیجز کو سامنے رکھئے، پاکستان کے حالات کا جائزہ لیجیے اور اس کے بعد فیصلہ کیجیے آپ کو اس وقت کس قسم کی لیڈر شپ درکار ہے، آپ جوں جوں غور کریں گے، آپ کو محسوس ہو گا ہمیں اس وقت ایک ایسا شخص چاہیے جس میں تین لیڈروں کی خوبیاں ہوں، یہ پہلی قسم کی لیڈر شپ کی طرح معاشرے میں انصاف قائم کرے، دوسری قسم کی لیڈر شپ کی طرح ضرورت کے مطابق وسائل پیدا کرے اور تیسری قسم کی لیڈر شپ کی طرح قوم کو مستقبل کے چیلنجز کے لیے تیار کرے، اب سوال یہ ہے کیا پاکستان میں کوئی ایسی لیڈر شپ موجود ہے؟ بدقسمتی سے اس کا جواب ناں ہے، قوم نے 2008ء میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو موقع دیا مگر پاکستان پیپلز پارٹی بری طرح ناکام ہو گئی اور آج ان کے گلے میں پانچ سال پورے کرنے کے دعوے کے سوا کوئی تمغہ نہیں اور اس میں بھی ان سے زیادہ فوج اور میاں نواز شریف کا کمال تھا، جنرل اشفاق پرویز کیانی اور میاں نواز شریف نے حکومت کا پھینکا ہوا ہر کیچ ڈراپ کر دیا اور یوں صدر آصف علی زرداری پانچ سال پورے کر گئے۔
قوم نے اس کے بعد میاں نواز شریف اور عمران خان کو توقع سے زیادہ مینڈیٹ دیا، میاں نواز شریف کو وفاق اور پنجاب مل گیا جب کہ عمران خان کو خیبر پختونخواہ میں جادو جگانے کا موقع ملا مگر آج کی تاریخ تک دونوں حکومتیں ناکام ہیں، آج حکومت کے سو دن بعد پشاور کے لوگ کہتے ہیں، اے این پی کی حکومت کم از کم ہمارے جنازوں میں تو آ جاتی تھی، یہ لوگ ہماری نعشیں ننگی زمین پر چھوڑ کراسلام آباد بھاگ جاتے ہیں جب کہ میاں نواز شریف ملکی صورتحال پر کنفیوژن کا شکار ہیں، یہ جو باکس بھی کھولتے ہیں، اس کے اندر سے بلائیں نکل آتی ہیں، ہمیں یہ ماننا پڑے گا میاں صاحب کے پاس دوسری جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ ایماندار، محب وطن اور تجربہ کار لوگ ہیں مگر دنیا بہت آگے جا چکی ہے، دنیا میں پانچ برسوں میں آئی فون کے سات ورژن آ چکے ہیں اور تین برسوں میں لیپ ٹاپ ٹچ اسکرین پر شفٹ ہوچکا ہے اور ہم اس قدر گلوبلائزڈ ہو چکے ہیں کہ ہم فیس بک، ٹویٹر، وائبر اور وٹس ایب کے ذریعے پوری دنیا میں ہر وقت "ان" رہتے ہیں، میڈیا بے مہار بھی ہے اور اس کی رسائی وہاں تک ہے حکومت کو جہاں پہنچنے میں دس دن لگ جاتے ہیں، آپ میڈیا کی رفتار ملاحظہ کیجیے، حکومت نے 9 ستمبر2013ء کو اے پی سی بلوائی، یہ آج دن تک مذاکرات کے لیے طالبان سے رابطہ نہیں کر سکی جب کہ میڈیا تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان سے روز رابطہ کرتا ہے اور روز ان کی خبریں نشر اور شایع کرتا ہے چنانچہ میاں صاحب کی ٹیم ایمانداری، تجربے اور حب الوطنی کے باوجود کوئی کمال نہیں کر سکی، یہ بجلی اور گیس کے چور بھی نہیں پکڑ سکی اور ڈالر بھی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے۔
ہماری سیاسی جماعتوں کی حالت کیا ہے، آپ اس کے لیے چند مثالیں ملاحظہ کیجیے، بلوچستان حکومت 9 جون 2013ء کو بنی، یہ آج 122 دن گزرنے کے باوجود کابینہ نہیں بنا سکی، وزیراعلیٰ ملک سے باہر جاتے ہیں تو پوری بلوچستان حکومت غائب ہو جاتی ہے، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت یعنی آصف علی زرداری یو اے ای شفٹ ہو چکے ہیں، زرداری صاحب نے عجمان میں فارم ہاؤس بنالیا ہے اور یہ اب وہاں سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے پارٹی چلائیں گے، سندھ حکومت کے وزیراعلیٰ اور وزراء کے درمیان اختلافات چل رہے ہیں اور پاکستان مسلم لیگ ق دو چوہدریوں اور ایک مشاہد حسین سید تک محدود ہو چکی ہے اور یہ تینوں ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر دن گزار دیتے ہیں، فوج ان حالات میں اپنا امیج بہتر بناتی جا رہی ہے، جنرل کیانی نے چھ برسوں میں فوج کو سیاست سے الگ رکھ کر واقعی کمال کیا اور مزید ایکسٹینشن نہ لے کر مزید کمال کر دیا، یہ ایکسٹینشن لے لیتے تو فوج کے امیج کو بہت زک پہنچتی، جنرل کیانی نے باعزت رخصتی کے ذریعے میاں نواز شریف کے لیے گورننس کے مزید مسائل پیدا کر دیے ہیں، وہ حکومت جو آج تک چیئرمین نیب، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور امریکا میں پاکستانی سفیر نہیں لگا سکی اس کے لیے نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا تقرر خاصا مشکل مرحلہ ہو گا۔
میاں نواز شریف چھ برسوں سے میرٹ میرٹ کی گردان کر رہے ہیں، یہ اگر آج کسی جونیئر جنرل کو آرمی چیف بناتے ہیں تو ان کی کریڈیبلٹی کو مزید نقصان پہنچے گا، فوج چھ برسوں سے ٹھیک کھیل رہی ہے، اس نے اگلی صف سیاسی حکومتوں کے لیے خالی کر دی ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے سیاستدانوں کی نااہلیت کھل رہی ہے اورلوگ یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں مسئلہ فوج نہیں، سیاستدان ہیں، لوگ آج جنرل مشرف کا دور بھی یاد کر رہے ہیں، ہمیں بھی ماننا پڑے گا جنرل پرویز مشرف کی ٹیم دونوں سیاسی حکومتوں کے مقابلے میں اہل بھی تھی اور اس نے ان سے کئی گنا زیادہ ڈیلیور بھی کیا اوریہ اب "پچھلی حکومت کا کیا دھرا" کے الزام لگا کر اپنی نااہلیت نہیں چھپا سکتے، ہمیں آج یہ بھی ماننا ہو گا اگر میاں نواز شریف اور عمران خان ناکام ہوئے تو ملک میں دو بڑے واقعات ہوں گے، میاں صاحب اور عمران خان کو بھی آصف علی زرداری کی طرح عجمان میں فارم ہاؤس بنانے پڑیں گے اور یہ بھی ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اپنی پارٹی چلائیں گے چنانچہ میاں صاحب اور خان صاحب کو ابھی سے یو اے ای میں فارم ہاؤس کے لیے جگہ تلاش کر لینی چاہیے اور مجھے دوسرے امکان کے بارے میں لکھتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے، مجھے خطرہ ہے اگر یہ صورتحال اسی طرح جاری رہی تو شاید قوم جی ایچ کیو کے سامنے جمع ہو جائے اور فوج سے ہاتھ جوڑ کر عرض کرے آپ ٹیک اوور کرلیں، ہماری ان سے جان چھڑائیں اور خدا نہ کرے یہ وقت آئے کیونکہ اگریہ وقت آگیا تو یہ پھر بیس تیس سال تک جائے گانھیں۔