خون کے دھبے
ہمارے پائوں میں کوئی لچیلی سی چیز تھی، یہ ربڑ کی ڈیڑھ انچ لمبی اور چوتھائی انچ موٹی نلکی تھی اور یہ ہمارے پائوں کی حرکت کے ساتھ کبھی دائیں چلی جاتی تھی اور کبھی بائیں، یہ کبھی ایک شخص کے پائوں سے الجھتی تھی اور کبھی دوسرے کے پائوں سے لپٹتی تھی اور پائوں ذرا سا کھسکتا تھا تو نلکی نئے پائوں کی تلاش میں فرش پر لڑھکنے لگتی تھی، میں بڑی دیر سے نلکی کی تڑپ دیکھ رہا تھا اور یہ تڑپ آہستہ آہستہ میرے تجسس میں اضافہ کرتی جا رہی تھی، نلکی آخری بار بشپ کے پائوں سے ٹکرائی تو میں نیچے جھکا اور میں نے وہ نلکی اٹھا لی، وہ نلکی نہیں تھی، وہ جلی ہوئی ربڑ کا باریک گول لمبا ٹکڑا تھا، ربڑ کے ٹکڑے پر راکھ اور سیاہی کی تہہ تھی اور اس سے عجیب قسم کی بو آ رہی تھی، میں نے جیب سے ٹشو نکالا اور ربڑ کے ٹکڑے کو صاف کرنا شروع کر دیا۔
سیاہی اور راکھ اترنے لگی، ربڑ کا ٹکڑا صاف ہوا، میں نے اسے غور سے دیکھا تو مجھے کرنٹ لگا اور ربڑ کا وہ ٹکڑا دوبارہ فرش پر گر گیا، وہ ربڑ کا ٹکڑا یا نلکی نہیں تھی وہ کسی معصوم بچے کی انگلی تھی، شاید پہلی انگلی، انگلی بم دھماکے میں جڑ سے کٹ گئی اور پچھلے دن سے لوگوں کے پائوں سے لپٹ لپٹ کر انصاف کی دہائی دے رہی تھی، یہ کبھی ایک شخص کے قدموں پر دستک دیتی تھی اور کبھی مایوس ہو کر دوسرے پائوں کی زنجیر عدل ہلا دیتی تھی مگر جب زندگی سستی اور موت ارزاں ترین ہوتی ہے تو کٹی انگلیوں کی آواز کوئی نہیں سنتا، دیواروں، دروازوں اور کھڑکیوں کے شیشوں سے لپٹے لہو کی پکار بھی کسی کو سمجھ نہیں آتی اور فرش سے چپکے خون کے دھبوں کی سسکیاں بھی کسی کے کانوں تک نہیں پہنچتیں، دنیا بھر کے قبرستان گونگے اور بہرے ہوتے ہیں۔
شاید اسی لیے آج تک کسی زندہ انسان نے کسی قبرستان کی آواز نہیں سنی حتیٰ کہ وہ لوگ بھی کسی قبر، کسی مردے کی سسکی سنے بغیر گھر واپس آ جاتے ہیں جو اپنے کسی انتہائی قریبی عزیز کو دفن کرنے کے لیے قبرستان جاتے ہیں، وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے والد، اپنے بھائی یا اپنے بیٹے کی نعش قبر میں اتارتے ہیں، اپنے ہاتھوں سے قبر پر مٹی ڈالتے ہیں، پانی کا چھڑکائو کرتے ہیں، تازہ پتیاں بکھیرتے ہیں، وہ بھی قبروں کی آواز سنے بغیر واپس آ جاتے ہیں، انھیں بھی موت کی آواز نہیں آتی اور جب شہر، بازار اور مکان قبرستان بن جائیں اور ان کے در و دیوار زندہ خون کی لو کا بہروپ بھر لیں تو پھر احساس، شرم اور ضمیر تینوں مر جاتے ہیں، وہاں پھر زندہ لوگ زندہ نہیں رہتے، وہ زندہ قبریں بن جاتے ہیں، چلتی پھرتی، کھاتی پیتی، دوڑتی بھاگتی، گاڑیوں سے اترتی چڑھتی زندہ قبریں اور لوگ جب زندہ قبریں بن جائیں تو پھر یہ چھوٹے بچوں کی کٹی انگلیوں کے نوحے اور معصوم اور بے گناہ بچیوں کی انتڑیوں کی سسکیاں نہیں سنتے، یہ خون کے دھبوں پر اس طرح پھرتے ہیں جس طرح جانور اپنے ہم جنسوں کی نعشوں پر دیوانہ وار دوڑتے ہیں۔
یہ پشاور کے آل سینٹس چرچ کی واحد انگلی نہیں تھی، چرچ کی دیواریں اور فرش انسانی المیے کی زندہ گواہ تھیں، چرچ میں اتوار کے دن سروس کے بعد اس وقت دو خود کش دھماکے ہوئے جب مسیحی برادری لنگر سے کھانا لے رہی تھی، پہلا دھماکہ پونے بارہ بجے ہوا، نعشوں کے انبار لگ گئے، جو لوگ بچ گئے انھوں نے اٹھنے کی کوشش کی تو دوسرے خودکش حملہ آور نے بھی خود کو اڑا لیا اور اس کے ساتھ ہی مذہب، پاک سرزمین اور انسانیت تینوں کا جنازہ نکل گیا، میں اگلی صبح کو ہائی گیٹ کے 130سال پرانے چرچ میں تھا، گیٹ سے لے کر برآمدے تک خون کے دھبے تھے، ہم جہاں پائوں رکھتے تھے وہاں کسی بے گناہ کے خون کا نشان ہوتا تھا، فرش پر خون آلود کپڑوں کی دھجیاں بھی بکھری تھیں، چرچ کے اندرونی دروازے کے قریب جوتوں کا انبار لگا تھا، یہ مرنے والوں کے جوتے تھے، دنیا میں جہاں بھی بم پھٹتے ہیں وہاں مرنے والوں کے جوتوں کا انبار لگ جاتا ہے، کیوں؟ کیونکہ جوتے موت کا بھیانک سگنل ہوتے ہیں۔
انسان کی روح کو جب جسم سے زبردستی نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ رگ و پے میں تڑپتی ہے، یہ جسم میں رہنے کے لیے موت کی منتیں کرتی ہے، جسم اس وقت روح کا ساتھ دیتا ہے، یہ ذبح شدہ مرغ کی طرح تڑپتا ہے، انسان زمین پر سر پٹختا ہے اور ایڑھیاں رگڑتا ہے، یہ انسانیت کا مشکل ترین لمحہ ہوتا ہے، یہ لمحہ جب گزر جاتا ہے تو یہ زمین پر آڑھے ترچھے جوتے، کپڑے کی چند دھجیاں اور ٹھنڈے پڑے بدن کی چند خراشیں چھوڑ جاتا ہے، یہ جوتے، یہ دھجیاں اور یہ خراشیں ظلم کا نوحہ ہوتی ہیں اور یہ نوحہ جب تک انصاف کے کانوں تک نہیں پہنچتا، اس کی سسکیاں، اس کی آہیں نہیں بجھتیں، ان کی لو نیچی نہیں ہوتی اور وہاں چرچ میں جوتے بھی تھے، تڑپتے جسموں کی خراشیں بھی، ٹھنڈے پڑتے لہو کے دھبے بھی اور جسم کے چھوٹے چھوٹے چیتھڑے بھی اور دیواروں، دروازوں اور کھڑکیوں پر قاتل چھروں کے نشان بھی اور بے حسی، بے پروائی اور دہشت کے سامنے پسپائی کی ریاستی پالیسیوں کی علامتیں بھی، میں نے دنیا میں درجنوں چرچ دیکھے ہیں، میں ویٹی کن سٹی کے سینٹ پیٹرز بسیلیکا سے یونان کے میٹروا چرچوں تک گیا ہوں۔
میں نے بیجنگ کے کلیسا گھروں سے مارکوٹی کے قدیم چرچ تک دنیا کی بے شمار مسیحی عبادت گاہیں دیکھی ہیں مگر میں نے جو مناظر پشاور کے چرچ میں دیکھے وہ خوفناک بھی تھے، دل شکن بھی اور انسانیت سوز بھی، میرے اردگرد آہیں تھیں، سسکیاں تھیں اور ماتم کرتے ہوئے مسیحیوں کی چیخیں تھیں، لوگ آتے تھے، خواتین بال کھولتی تھیں، نوجوان گریبان پھاڑتے تھے اور بزرگ کمر پر ہاتھ رکھ کر دہرے ہوتے تھے اور خون کے ہر نشان کو اپنے پیاروں کی آخری یاد گار سمجھ کر اس کے سرہانے بیٹھ کر ماتم کرتے تھے، بشپ آف پشاور اور بشپ آف لاہور دونوں سوگوار بیٹھے تھے، چرچ کے پادری کی آنکھیں رو رو کر سوجی ہوئی تھیں اور چرچ کے گرد آباد مسلم آبادی کے چہروں پر دکھ کی گہری لکیریں تھیں، صحن، برآمدے اور سروس ہال میں خون اور گوشت کی بو رچی تھی، انسانی گوشت اور خون کی بو ناقابل برداشت ہوتی ہے، آپ کتنے ہی سنگدل اور شقی القلب کیوں نہ ہوں، آپ انسانی خون کی بو اور گوشت کی بدبو برداشت نہیں کر سکتے۔
آپ کا معدہ آپ کے حلق میں الٹنے لگتا ہے اور آپ زمین پر دہرے ہو جاتے ہیں، میں بار بار اپنے ضمیر اور معدے کو سنبھالتا تھا اور میری آنکھیں ان دونوں کو سنبھالتے سنبھالتے گیلی ہو جاتی تھیں، پاکستان کیا ہو چکا ہے، چرچ کی ہر دیوار، ہر کھڑکی، ہر دروازہ اور فرش کا ایک ایک انچ اس کی گواہی دے رہا تھا، ہمارا قومی مقدر کوہاٹی گیٹ کے آل سینٹس چرچ کی فضائوں میں لکھا تھا اور یہ ہوا کی ہرکروٹ کے ساتھ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہوتا تھا، چرچ میں ایسوسی ایٹ پریس آف امریکا کا ایک نامہ نگار کھڑا تھا، وہ کیمرے پر لواحقین کے تاثرات نوٹ کرتا تھا اور خالی آنکھوں سے میری طرف دیکھتا تھا اور میں اس سے نظریں چراتا تھا، اس کی نظروں میں تیرتے سوالوں کے جواب کے لیے حوصلے اور ہمت کی ضرورت تھی اور یہ دونوں میرے پاس نہیں تھے۔
ہماری مسجدیں، امام بارگاہیں، قبرستان اور عیدگاہیں محفوظ نہیں تھیں، ہم لوگوں کو بسوں سے اتارتے تھے، ان کے شناختی کارڈ چیک کرتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی شیعہ یا پنجابی نکل آئے تو ہم اسے گولی مار کر اس کی نعش سڑک پر پھینک دیتے تھے، ہم گوروں کو اپنے ملک میں آنے کی سزا دیتے تھے، ہم یو این اداروں کے غیر ملکی کارکنوں کو اغواء کر لیتے تھے اور انھیں بھاری تاوان لے کر چھوڑتے تھے، ہم سینما گھروں، اسٹیڈیمز، مارکیٹوں اور اسکولوں کو بھی تمدن میں داخل ہونے کی سزا دیتے تھے اور ہم کھلاڑیوں کو پاکستان میں قدم رکھنے کے جرم میں موت کا حق دار ٹھہراتے تھے، دنیا اسے ہمارا ذاتی فعل سمجھ کر خاموش رہی تھی مگر ہم نے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو چھیڑ کر اپنے ظلم کو بین الاقوامی بنا دیا ہے یہاں تک کہ امریکی صدر اوباما اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہم ان ممالک میں ڈرون حملے کرتے ہیں جن کی حکومتیں دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کر پاتیں، کوہاٹی گیٹ کے چرچ نے دنیا کو پیغام دے دیا پاکستانی ریاست کمزور ہو چکی ہے چنانچہ اگردنیا ہمارے ملک پر ڈرون حملے کرتی ہے تو یہ حق بجانب ہے، چرچ کے سانحے نے ڈرون کو شہہ دے دی اور امریکا اب اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا خواہ ہم اب مزید دس اے پی سی بلوا لیں یا مزید چودہ ایسے اعلامئے جاری کر دیں، ہم نے چرچ کے سانحے کے ذریعے پوری دنیا کو اپنا مخالف بنا لیا اور دنیا اب چرچ کے محافظوں کو چھوڑے گی اور نہ ہی چرچ پر حملہ آوروں کو۔
ہماری رگوں میں دوڑتا لہو، ایک گولی، ایک خودکش حملے سے فرش، دیوار اور کھڑکی کا دھبہ بن جاتا ہے، رگوں کے لہو کو فرش کا دھبہ بننے میں ایک سیکنڈ لگتا ہے مگر اس دھبے کو دھونے کے لیے ندامت کی ہزاروں برساتیں درکار ہوتی ہیں، ہم نے کبھی سوچا، بے گناہوں کے قتل تاریخ کو نوحوں پر مجبور کر دیتے ہیں اور ہم تاریخ کو نہ صرف بین پرلے آئے ہیں بلکہ ہم نے اس کے بال بھی کھول دیے ہیں اور ہم اگر دس سال بھی لگے رہیں تو ہم اب تاریخ کے کھلے بال باندھ نہیں سکیں گے، ہم چرچ سے باہر نکلے تو ایک عیسائی بچے نے میرا ہاتھ پکڑ کر پوچھا " میرا باپ عیسائی تھا، کیا اسے اس لیے مار دیاگیا" میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا " بیٹا نہیں، وہ سچا پاکستانی تھا اس لیے ماراگیا، پاکستان میں اب پاکستان اور پاکستانی دونوں غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔"