کٹ ستان
اشفاق کٹا ہمارا کلاس فیلو تھا، ہم ایف سی کالج لاہور میں پڑھتے تھے، وہ انتہائی ذہین اور محنتی طالب علم تھا بس اس میں ایک خرابی تھی، اس کا والد گوالا تھا، وہ لوگ مغل پورہ میں رہتے تھے، دودھ بیچتے تھے اور خوش حال زندگی گزارتے تھے، اشفاق کالج تک پہنچنے والا خاندان کا پہلا بچہ تھا، والد چٹا ان پڑھ تھا چنانچہ وہ بیٹے کی اس اچیومنٹ پر بہت خوش تھا، وہ اکثر اوقات خالص دیسی گھی، مکھن اور دودھ لے کر کالج آ جاتا تھا۔
پروفیسروں سے ملتا تھا، بیٹے کی کارکردگی پوچھتا تھا اور واپس جاتے ہوئے پروفیسروں کو گھی کا ڈبہ، دودھ کی ڈرمی اور مکھن کا جار پکڑا جاتا تھا، پروفیسر دیر تک اس سوغات کو دیکھتے رہتے تھے اور پھر اشفاق کی طرف دیکھ کر وہ تحفہ چپڑاسی کو دے دیتے تھے، اشفاق والد کی ان حرکتوں پر ہمیشہ شرمندہ ہوتا تھا، یہ سلسلہ کئی مہینے چلتا رہا لیکن پھر ایک دن انتہا ہو گئی۔
ہم اس دن ایک پیریڈ کے بعد دوسرے پیریڈ کے لیے کلاس روم سے نکلے تو اشفاق کا والد باہر برآمدے میں کھڑا تھا، اشفاق کا رنگ فق ہو گیا اور وہ ہم سب کے پیچھے چھپ کر فرار ہونے کی کوشش کرنے لگا، والد کائیاں تھا، وہ فوراً بھانپ گیا، وہ ہماری صفوں میں گھسا، بیٹے کو پکڑا اور گیٹ کی طرف کھینچنے لگا اور اشفاق پیچھے کی طرف زور لگانے لگا، پوری کلاس کھی کھی کر کے ہنسنے لگی، باپ بہرحال بیٹے کو گھسیٹ کر فیروز پور روڈ کی طرف لے گیا، ہم لوگ بھی شغل دیکھنے کے لیے پیچھے پیچھے چل پڑے، اشفاق چلا چلا کر ہمیں واپس جانے کی ہدایت کرتا رہا مگر ہم پورا تھیٹر دیکھنا چاہتے تھے، ہم باپ بیٹے کے پیچھے چلتے چلتے گیٹ سے باہر آگئے، سڑک پر ٹریکٹر ٹرالی کھڑی تھی اور ٹرالی میں ایک بوڑھی بھینس فیروز پور روڈ کی طرف منہ کر کے جگالی کر رہی تھی۔
والد بیٹے کو ٹرالی تک لایا اور بڑے پیار سے اس سے کہنے لگا "چل پتر، اپنی ماں کے سر پر ہاتھ پھیر دے، یہ آج جا رہی ہے" اشفاق جان چھڑانے کے لیے جلدی جلدی بھینس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا، ہم سب اس کے پیچھے کھڑے تھے، اشفاق کے والد نے بھینس کو دیکھا، بیٹے کو دیکھا اور پھر ہماری طرف مڑ کر بولا "یہ بھینس صرف بھینس نہیں، یہ اس کی ماں بھی ہے، اس نے میرے بیٹے کو پال پوس کر بڑا کیا" ہم سمجھنے اور نا سمجھنے کے عالم میں ان دونوں کی طرف دیکھنے لگے، والد بولا "میں نے یہ بھینس اس وقت خریدی تھی جب اشفاق اسکول میں داخل ہوا تھا، میں نے اس کا دودھ بیچ بیچ کر بیٹے کو کالج تک پہنچایا، یہ اب کھانگڑ ہو گئی ہے۔
میں اسے قصائی کے حوالے کرنے جا رہا ہوں، میں چاہتا تھا میرا بیٹا آخری بار اپنی محسن کے سر پر ہاتھ پھیر لے" یہ کہتے کہتے اشفاق کا والد جذباتی ہو گیا، اس نے بھینس کے سر پر پیار کیا، ہاتھ کی پشت سے آنکھیں صاف کیں، ٹریکٹر پر بیٹھا اور والٹن کی طرف روانہ ہو گیا، محمد اشفاق اس دن کے بعد اشفاق کٹا ہو گیا، کالج کے پروفیسر تک اسے کٹا کہنے لگے۔
یہ صرف اشفاق کٹے کی داستان نہیں، پنجاب میں ہر دور میں بھینسیں کروڑوں خاندانوں کو پالتی رہی ہیں، دنیا کے کسی بھی مورخ یا کسی بھی بین الاقوامی یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے جس دن پنجاب پر ریسرچ کی وہ بھینس کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکے گا، بھینس پنجاب کی بقا بھی ہے اور پسماندگی کی بنیادی وجہ بھی، ہم پنجابی جنیاتی لحاظ سے سمجھتے ہیں ہمارے پاس اگر اچھی نسل کی ایک بھینس موجود ہے تو ہمارا پورا خاندان پل جائے گا، پنجاب میں بچے بھینس کا دودھ پیتے ہیں، عورتیں دودھ سے دہی، مکھن، پنیر اور گھی بنا تی ہیں، مرد سارا دن لسی پیتے رہتے ہیں اور گھر میں اگر ترکاری یا دال نہ ہو تو پنجاب کے لوگ بیس پچیس سال پہلے تک دودھ میں مرچیں ڈالتے تھے اور اس میں روٹی بھگو کر کھا لیتے تھے۔
میں نے اپنے پورے بچپن میں لوگوں کو لسی کے ساتھ ناشتہ کرتے دیکھا چنانچہ بھینس پنجاب ہے اور پنجاب بھینس ہے، بھینس کیونکہ پنجابیوں کی بنیادی ضرورتیں پوری کر دیتی تھی چنانچہ پنجابیوں نے زندگی کو کبھی بھینس سے آگے نکل کر نہیں دیکھا، بھینس ہمیشہ ہمارے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑی رہی، میں پنجابی کی حیثیت سے سمجھتا ہوں ہم جب تک بھینس کو راستے سے نہیں ہٹائیں گے، ہم پنجابی اس وقت تک ترقی نہیں کر سکیں گے لیکن ہمارے وزیراعظم عمران خان اس بھینس کو کٹے سمیت ہماری زندگی میں دوبارہ شامل کرنا چاہتے ہیں، وزیراعظم نے 29 نومبرکو حکومت کے سو دن پورے ہونے پر معرکۃ الآراء تقریر فرمائی، یہ تقریر دیسی مرغیوں، انڈوں اور کٹوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہوئی، وزیراعظم کی نیت نیک ہو سکتی ہے، یہ واقعی کٹوں اور دیسی مرغیوں کے ذریعے پاکستانی عوام کا مقدر بدلنا چاہتے ہوں گے لیکن وزیراعظم کو اعلان سے پہلے انڈوں، مرغیوں اور کٹوں پر ریسرچ ضرور کر لینی چاہیے تھی، یہ درست ہے پنجاب میں (بھینس صرف پنجاب کا اثاثہ ہے۔
یہ کے پی کے، بلوچستان، سندھ اور کشمیر میں نہیں پائی جاتی، پنجاب کے علاوہ باقی علاقوں میں گائے پالی جاتی ہے) لوگ بھینس کی بیٹیوں (کٹیوں) کو رکھ لیتے ہیں اور بیٹے (کٹے) کو بیچ دیتے ہیں، یہ بھی درست ہے کٹے جوں ہی ڈیڑھ سے دو ماہ کے ہوتے ہیں یہ قصائیوں کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں چنانچہ وزیراعظم کا خیال ہے ہم لوگ اگر کٹے بچا لیں، ہم دو سال تک ان کی پرورش کریں اور ان کا وزن جب چار پانچ من ہو جائے تو ہم انھیں مہنگے داموں بیچ دیں، یہ اس سلسلے میں یورپ، ا مریکا اور نیوزی لینڈ کی مثال بھی دیتے ہیں، وزیراعظم کی معلومات درست ہیں۔
ان ملکوں میں واقعی ویڑوں (گائے کے بیٹوں) کو دو سال سے پہلے ذبح نہیں کیا جاتا لیکن ہم پنجابی دس ہزار سال سے کٹوں کو تین چار ماہ کی عمر میں ذبح کرتے آ رہے ہیں، کیا وزیراعظم وجہ جانتے ہیں؟شاید نہیں! وزیراعظم کو یقینا یہ معلوم نہیں پنجاب کا زیادہ تر علاقہ بارانی ہے اور ہمارے خطے میں یورپ، امریکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مقابلے میں بہت کم بارشیں ہوتی ہیں، پنجاب میں برسین اور مکئی دو قسم کے چارے ہوتے ہیں، ان دونوں کے درمیان بھی دو دو ماہ کے دو وقفے ہوتے ہیں چنانچہ سال میں چار ماہ پنجاب میں چارے کی قلت پیدا ہو جاتی ہے، کٹے عموماً 30 سے 70 کلو گرام چارہ روزانہ کھاتے ہیں، بھینسیں بھی اتنا ہی چارہ کھاتی ہیں لیکن یہ اس کے نتیجے میں دس سے پندرہ لیٹر دودھ دیتی ہیں جب کہ کٹے کا کوئی "آؤٹ پٹ" نہیں ہوتا، یہ صرف چارہ کھاتا ہے۔
آپ فرض کر لیجیے ایک کٹا اگر روزانہ تین سو روپے کا چارہ کھائے تو یہ مہینے میں نو ہزار، سال میں ایک لاکھ آٹھ ہزار اور دو سال میں دو لاکھ 16 ہزار روپے کا چارہ کھا جائے گا، ہمارا کسان اگر اسے دو سال بعد بیچے گا تو یہ لاکھ روپے سے زیادہ کا نہیں بکے گا چنانچہ کسان کو ٹھیک ٹھاک نقصان ہو جائے گا، کسان اگر وزیراعظم کے مشورے پر عمل کریں تو یہ دو سال میں دیوالیہ ہو جائیں گے لہٰذا لوگ پنجاب میں ہزاروں سال سے کٹے فروخت کرتے اور کٹیاں محفوظ کرتے آ رہے ہیں، کٹی کسانوں کا اثاثہ ہوتی ہے، یہ دو سال میں جوان ہو جاتی ہے، یہ بارہ سے تیرہ سال تک دودھ بھی دیتی ہے اور بچے بھی چنانچہ کسان کٹیاں رکھ لیتے ہیں اور کٹے قصابوں کے حوالے کر دیتے ہیں، بھینس کے دودھ کا سائیکل 305 دن ہوتا ہے، یہ اس سائیکل میں 20 لیٹر تک دودھ دیتی ہے، آخر میں دودھ دو سے اڑھائی کلو رہ جاتا ہے لیکن بچہ دینے کے بعد دودھ دوبارہ بڑھ جاتا ہے۔
پنجاب کے مقابلے میں یورپ میں چراہ گاہیں بھی ہیں، چارہ بھی سستا ہے، گوشت کی صنعت بھی مضبوط ہے، دودھ بھی مہنگا ہے اور وہاں بھینس کی بجائے گائے ہے اور گائے بھینس کے مقابلے میں کم چارہ کھاتی ہے اور دودھ زیادہ دیتی ہے لہٰذا کسان وہاں ویڑوں کو دو دو سال تک پال لیتے ہیں، ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے، ہمارے ملک میں گوشت آج تک انڈسٹری نہیں بن سکا، چارہ مہنگا اور نایاب ہے اور ہم آج بھی گائے کی بجائے بھینس کا دودھ پیتے ہیں لہٰذا ہم کٹے پالنے کا رسک نہیں لے سکتے، ہم نے اگر سال میں ایک بار کٹے پال لیے تو پھر بھینسوں کے لیے چارہ نہیں بچے گا اور یوں دودھ کا خوفناک بحران پیدا ہو جائے گا، مرغیوں کا ایشو بھی اس سے ملتا جلتا ہے، ہم مرغی میں خود کفیل ہیں، پاکستان میں لوگ 21 کروڑ ہیں لیکن مرغیاں 25 کروڑ ہیں، پولٹری انڈسٹری مرغی اور انڈہ دونوں وافر مقدار میں پیدا کر رہی ہے، حکومت اگر اس انڈسٹری کو فراموش کر کے دیہاتوں میں دیسی مرغیاں بانٹنا شروع کر دیتی ہے تو ایک خاندان کتنی مرغیاں پال لے گا۔
یہ مرغیاں کتنے انڈے دے لیں گی، یہ انڈے کتنے میں بک جائیں گے اور کیا وہ خاندان دیسی انڈوں کی کمائی سے اپنا چولہا جلا لے گا؟ جی نہیں! اور اگر فرض کر لیں یہ ہو بھی جائے تو بھی ملک میں پولٹری انڈسٹری کے ہوتے ہوئے لوگ مہنگا دیسی انڈہ کیوں خریدیں گے؟ کیا ہم دیسی انڈوں کی مارکیٹ پیدا کرنے کے لیے ولایتی انڈوں کی انڈسٹری بند کر دیں گے؟اور اگر ہم یہ بھی کر دیں تو کیا ہم ملک میں25 کروڑ مرغیاں پیدا کر سکیں گے اور یہ مرغیاں گلیوں میں پھر کر زندہ رہ سکیں گی؟اور کیا ہم انھیں برڈفلو سے بھی بچا لیں گے؟ یہ بھی ظاہر ہے ممکن نہیں چنانچہ میری وزیراعظم سے درخواست ہے آپ کٹوں اور مرغیوں کے ذریعے نیا پاکستان ضرور بنائیں لیکن آپ اس سے قبل یہ بھی ریسرچ ضرور کرا لیں کیا دنیا میں کوئی ایک ایسا ملک ہے۔
جس میں کٹوں اور مرغیوں کے ذریعے غربت ختم ہو گئی ہو؟ مجھے یقین ہے وزیراعظم جب یہ ریسرچ کرائیں گے تو یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ منصوبہ افریقہ کے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بھی بری طرح فیل ہو گیا تھا، بل گیٹس نے سب صحارا ممالک میں کروڑوں ڈالر خرچ کیے لیکن وہ وہاں کسی ایک خاندان کو بھی غربت سے نہیں نکال سکا، ہم اس منصوبے سے کیا حاصل کر لیں گے، وزیراعظم کوچاہیے یہ اپنی مصروفیت صرف ڈالر تک محدود رکھیں، یہ کٹوں اور مرغیوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو جائے دنیا نئے پاکستان کو کٹستان کہنا شروع کردے اور ہم سب اشفاق کٹے ہو جائیں۔