ہیڈ لائین
جنرل میکڈونلڈ لاک ہارٹ بھارت کا پہلا چیف آف آرمی اسٹاف تھا، جواہر لال نہرو نے بھارتی فوج کی کمان 15 اگست 1947ء کو جنرل میکڈونلڈ کے حوالے کی، میکڈونلڈ پروفیشنل فوجی تھا، اس نے 1913ء میں رائل برٹش آرمی جوائن کی، دونوں عالمی جنگیں لڑیں اور1945ء میں جنرل آفیسر کمانڈنگ کے عہدے تک پہنچا، جنرل میکڈونلڈ نے انتہائی مشکل دور میں بھارتی فوج کی کمان سنبھالی، انڈین آرمی تقسیم ہو رہی تھی، فوج کا ایک حصہ پاکستان جا رہا تھا اور دوسرا بھارت کے حصے آ رہا تھا، فوج کے اثاثے تقسیم ہورہے تھے، فوج کی 90 فیصد اعلیٰ قیادت گوروں پر مشتمل تھی، یہ لوگ ہندوستان سے نکلنا شروع ہو چکے تھے، ملک بھر میں فسادات ہو رہے تھے، قتل و غارت گری، اغواء اور لوٹ مار عام ہو چکی تھی، فوج کا نیا اسٹرکچر بھی بننا تھا، نئی یونٹس کی بنیاد بھی رکھی جانی تھی اور برٹش فوجی روایات کو مقامی روایات میں بھی تبدیل کیا جانا تھا، انڈین آرمی کو ان حالات میں انتہائی ماہر کمانڈر کی ضرورت تھی اور جنرل میکڈونلڈ میں یہ تمام خوبیاں موجود تھیں چنانچہ وزیراعظم نہرو نے جنرل میکڈونلڈ کو یہ تمام ذمے داریاں سونپ دیں۔
جنرل میکڈونلڈ نے حالات کا جائزہ لیا تو اسے محسوس ہوا بھارتی فوج کی ری اسٹرکچرنگ کے لیے کم از کم تین سال کا عرصہ درکار ہے، وہ اکتوبر کے مہینے میں بھارتی وزیراعظم کے پاس گیا، اس نے ری اسٹرکچرنگ کا سارا منصوبہ جواہر لال نہرو کے سامنے رکھا اور وزیراعظم کو مشورہ دیا " مجھے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے کم از کم تین سال درکار ہیں " وزیراعظم نہرو جنرل کا مدعا سمجھ گئے، جنرل حکومت سے تین سال کا تقرر نامہ مانگ رہا تھا، نہرو نے جنرل کو رخصت کیا، اپنے سیکریٹری کو بلوایا اور جنرل میکڈونلڈ کو 31 دسمبر 1947ء کو فارغ کرنے کا حکم نامہ جاری کرا دیا، وزیراعظم کے ساتھیوں، کابینہ کے وزراء اور ملک کے بڑے تجزیہ کاروں نے نہرو کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی، ان لوگوں کا کہنا تھا، بھارت نیا ملک ہے، یہ اس وقت اس قسم کے ایڈونچرازم کا متحمل نہیں ہو سکتا مگر نہرو اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا۔
نہرو کا کہنا تھا ہم اگر آج ایک جنرل کے ہاتھوں بلیک میل ہو گئے تو پھر ہم زندگی بھر جرنیلوں کے ماتحت رہیں گے، وزیراعظم نہرو نے 31 دسمبر 1947ء کو جنرل میکڈونلڈ کی جگہ جنرل فرانسس رابرٹ بوچر کو آرمی چیف بنا دیا، یہ بھی بمشکل ایک سال آرمی چیف رہا مگر اس کے بعد انڈین آرمی کا قبلہ درست ہو گیا، جنرل پروموٹ ہو کر آرمی چیف بنتے رہے، وقت پر ریٹائر ہوتے رہے اور تاریخ کے خاموش قبرستان میں خاموشی کی تصویر بنتے رہے اور آج حالت یہ ہے بھارت کے نوے فیصد عوام اپنے آرمی چیف کے نام تک سے واقف نہیں ہیں، انڈین آرمی نے کبھی جمہوریت پر شب خون مارنے کی ہمت نہیں کی اور بھارتی فوج کے جرنیلوں کا احتساب بھی ہوتا ہے اور یہ کرپشن کے معمولی معمولی جرائم میں نوکریوں سے بھی فارغ ہوتے ہیں اور یہ جواہر لال نہرو کے صرف ایک فیصلے کا کمال تھا، وہ اگر1947ء میں جنرل میکڈونلڈ کے ہاتھوں بلیک میل ہو جاتے تو آج انڈیا کی صورتحال پاکستان سے مختلف نہ ہوتی۔
آپ فیلڈ مارشل مانک شاہ کی مثال بھی ملاحظہ کیجیے، بھارت کی ملٹری ہسٹری میں صرف دو جرنیل فیلڈ مارشل کے عہدے تک پہنچے ہیں، جنرل مانک شا ان دونوں میں سے ایک ہیں، فیلڈ مارشل مانک شا نے 1971ء کی جنگ جیت کر بھارت کا سب سے بڑا خواب پورا کیا، یہ اندرا گاندھی کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی بھی تھے، 1973ء میں اندرا گاندھی سیاسی گرداب میں پھنس گئی، حالات انتہائی خراب ہو گئے، ملک میں فسادات بھی شروع ہو گئے اور کساد بازاری بھی، ان حالات میں مانک شا نے ملک کو مسائل سے نکالنے کا ایک جامع منصوبہ بنایا اور یہ منصوبہ لے کر مسائل میں گھری اندرا گاندھی کے پاس پہنچ گیا، وزیراعظم نے یہ منصوبہ سنا اور اس کے بعد وہ فیصلہ کیا جو اس کے والد جواہر لال نہرو نے 1947ء میں کیا تھا، مانک شاہ کی ریٹائرمنٹ میں اس وقت چھ ماہ باقی تھے، اندرا گاندھی اسے آرمی چیف کے عہدے سے ہٹایا، بھارت کی فٹ بال ٹیم کا چیئرمین بنایا اور اس کی جگہ جنرل گوپال کو آرمی چیف بنادیا، ان دو واقعات کے بعد کسی انڈین آرمی چیف نے ملک کے سیاسی استحکام کے لیے منصوبہ بنانے کی غلطی نہیں کی۔
ملک کے حالات جیسے بھی ہوں، بھارت کے سیاسی فیصلے بہرحال سیاستدان ہی کرتے ہیں مگر بھارت کے برعکس ہمارے سیاستدان مسلسل ایک غلطی کرتے آ رہے ہیں، پاکستانی فوج کا کوئی بھی جنرل سیاسی فارمولہ بنا کر حکومت وقت کے پاس پہنچتا ہے، حکمران نہ صرف اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ اسے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ذمے داری بھی سونپ دیتے ہیں، سیاستدان اپنی سیاسی غلطیوں کے پوتڑے بھی جرنیلوں سے دھلوانے کی کوشش کرتے رہے اوریوں ملک بار بار فوجی ایڈونچرازم کا شکار ہوتا رہا ہے، آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، جنرل ایوب خان1958ء میں ریٹائر ہو رہے تھے لیکن پھر انھوں نے گورنر جنرل اسکندر مرزا کے سامنے حکومت کی مضبوطی کا ایک فارمولہ رکھا، اسکندر مرزا ان کے چکر میں آگئے اور گورنر جنرل نے نہ صرف انھیں ایکسٹینشن دے دی بلکہ انھیں سیاستدانوں کو سیدھا کرنے کی ذمے داری بھی دے دی اور یوں ایک دن جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کے ساتھ مل کرمارشل لاء لگایا اور بعد ازاں اسکندر مرزا کو بھی فارغ کر دیا، ایوب خان جب سویلین حکمران بن گئے اور شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو نے ان کا ناطقہ بند کر دیا تو جنرل یحییٰ خان بھی نظام کے استحکام کا ایک فارمولا لے کر ایوب خان کے پاس گئے۔
ایوب خان مان گئے اور یوں جنرل یحییٰ نے ایوب خان کا بستر گول کر دیا، جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو سیاسی حریفوں سے نمٹنے اور ملک کے غدار سیاستدانوں کو سزا دینے کا ایک فارمولہ پیش کیا، بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کو اس منصوبے کا انچارج بنا دیا اور یوں جس دن بھٹو صاحب کی آنکھ کھلی وہ مری کے گورنر ہائوس میں نظر بند تھے اور ملک کی سڑکوں پر فوجی ٹینک گشت کر رہے تھے، جنرل پرویز مشرف نے بھی میاں نواز شریف کے سامنے کشمیر پر قبضے کا ایک منصوبہ رکھا، میاں صاحب ٹریپ میں آ گئے اور اس ٹریپ کا نتیجہ بارہ اکتوبر 1999ء کی شکل میں نکلا، یوسف رضا گیلانی نے 24 جولائی 2010ء کو جنرل اشفاق پرویز کیانی کو تین سال کے لیے ایکسٹینشن دے دی، قوم کے کان اس دن کھڑے ہو گئے، ملک کے بڑے تجزیہ نگاروں کا خیال تھا یہ ایکسٹینشن ملک کو ایک اور مارشل لاء کی طرف لے جائے گی لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مہربانی اور ملکی اور غیر ملکی حالات کی وجہ سے ملک بڑے بحران سے بچ گیا اور اگر میاں صاحب اس بار فوج کو سیاسی امور سے باہر رکھنے میں کامیاب ہو گئے اور یہ فوج کو سیاسی استحکام کی ذمے داری سونپنے سے بچ گئے تو یہ سیاسی عمل چلتا رہے گا ورنہ دوسری صورت میں ہم تاریخ کو ایک بار پھر خود کو دہراتے ہوئے دیکھیں گے۔
ہمیں آج کے دن اچھی باتیں سوچنی اور کرنی چاہئیں چنانچہ ہم جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے پر جنرل صاحب اور میاں نواز شریف دونوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں مگر ساتھ ہی حکومت سے درخواست کرتے ہیں ہم اگر طویل جدوجہد کے بعد واپس ٹریک پر آ ہی گئے ہیں تو پھر ہمیں آج فوج کے حوالے سے تین بڑے فیصلے کر لینے چاہئیں، ہم قانون پاس کر دیں، آرمی چیف سمیت ملک کے کسی بھی سرکاری عہدیدار کی مدت ملازمت میں ایکسٹینشن نہیں ہو گی، یہ افسر خواہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو یہ وقت مقررہ پر ریٹائر ہو گا، ہم فوج کے چیف کی تعیناتی کے لیے بھی فارمولہ طے کر دیں، بھارت میں جب بھی نیا آرمی چیف بنایا جاتا ہے تو حکومت اس کے ساتھ ڈپٹی آرمی چیف بھی تعینات کر دیتی ہے، یہ چیف کے ساتھ کام کرتا ہے، فوج کے ایشوز کو پوری طرح جان جاتا ہے اور آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد چپ چاپ چیف کا عہدہ سنبھال لیتا ہے، عہدے کی اس تبدیلی کی کوئی بریکنگ نیوز بنتی ہے اور نہ ہی قوم بخارمیں مبتلا ہوتی ہے، ہم بھی اس عہدے کو اتنا ہی آسان، سیدھا اور شفاف بنا سکتے ہیں تاکہ ایشو ہی ختم ہو جائے، تین، پارلیمنٹ فیصلہ کر لے ملک کی کوئی حکومت کسی بھی قیمت پر فوج کو کسی سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنائے گی۔
فوج اپنا کام کرے اور سیاستدان اپنی ذمے داریاں نبھائیں، ہم جب تک یہ تین بڑے فیصلے نہیں کریں گے پاکستان میں اس وقت تک مارشل لاء کی تلوار لٹکتی رہے گی، حکومت یہ تین بڑے فیصلے بھی کرے اور ان کے ساتھ ساتھ اہلیت بھی پیدا کرے، آپ اگر اہل ہیں اور آپ اگر پرفارم کر رہے ہیں تو پھر آپ کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں لیکن آپ اگر پرفارم نہیں کر رہے اور آپ اگر حکومت چلانے کے اہل نہیں ہیں تو پھر آپ ہر قسم کے حالات کے منتظر رہیں کیونکہ نااہل حکمرانوں کی کرسیوں کے پائے موم کے بنے ہوتے ہیں اور یہ موم ہمیشہ ان کی اپنی نااہلی کی گرمائش سے پگھلتی ہے، آپ اگر شب خونوں سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اپنی شب کو پرفارمنس کے چراغوں سے روشن رکھنا ہوگا، آپ نے رکھ لی تو دنیا کا سب سے بڑا سپہ سالار بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا لیکن اگر آپ کی راتوں میں تاریکی رہی تو آپ خواہ اپنے سگے بھائی کو آرمی چیف بنا دیں خطرہ آپ کے سرہانے منڈلاتا رہے گا، آپ یاد رکھیں، آرمی چیف جب تک ہیڈ لائن اور بریکنگ نیوز میں رہتے ہیں، جمہوریت اس وقت تک کمزور رہتی ہے اور جنرل راحیل شریف تین دن سے پاکستانی میڈیا کی ہیڈ لائن بھی ہیں اور بریکنگ نیوز بھی چنانچہ خطرہ آج بھی موجود ہے۔