فشیل بین خلد کو حق ملنا چاہیے
فشیل بین خلد (Fishel Benkhald) کراچی سے تعلق رکھتے ہیں، یہ ہمارے ملک کے واحد یہودی شہری ہیں جنہوں نے اپنی شناخت بھی ظاہر کی، پاسپورٹ بھی بنوایا اور یہ اب پاکستانی پاسپورٹ پر مقبوضہ بیت المقدس (اسرائیل) بھی جانا چاہتے ہیں، فشیل کا کہنا ہے"میں شہریت کے لحاظ سے پاکستانی اور مذہباً یہودی ہوں اور میں اس حیثیت سے ریاست سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں، میں پوچھنا چاہتا ہوں کیا ایک یہودی پاکستانی اپنے قبلہ کی زیارت نہیں کر سکتا، کیا یہ مسلمانوں کی طرح عبادت کے لیے اپنے متبرک ترین شہر نہیں جا سکتا؟" فشیل نے ٹویٹر کے ذریعے یہ سوال وزیراعظم سے بھی کیا اور آرمی چیف، چیف جسٹس اور دفتر خارجہ سے بھی لیکن کسی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، فشیل کا کہنا ہے "پاکستان کے آئین کے تحت ملک کے تمام شہریوں کو اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی حتیٰ کہ مقدس مقامات کی زیارت کی مکمل آزادی ہے مگر مجھے یہ حق حاصل نہیں، کیوں؟"اور ان کا کہنا ہے "اورریاست یہودی، عیسائی حتیٰ کہ مسلمان شہریوں کو بیت المقدس کی زیارت سے کیسے روک سکتی ہے؟" فشیل کے یہ سوالات پاکستان کی تمام مقتدر شخصیات تک بھی پہنچے اور یہ اس وقت ٹویٹر پر بھی موجود ہیں لیکن ہم کیونکہ خوفزدہ اور سماجی منافقت کے شکار لوگ ہیں چنانچہ ہم ان سوالوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
پاکستان سرحدوں کے اندر بسنے والے تمام گروپوں، فرقوں اور مذہبی اکائیوں کا ملک ہے لیکن ہم نے بدقسمتی سے اسے صرف مسلمانوں کا ملک بنا دیا اور وہ مسلمان بھی اب ایک فرقے کی اکثریت میں تبدیل ہوتے چلے جا رہے ہیں، ہمارے ملک میں پہلے نان مسلم سکڑتے سکڑتے غائب ہوئے اور اب مسلمان چھوٹے بڑے فرقوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں، آپ کسی دن پاکستان کے ابتدائی بیس سالوں کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو مسلمان آبادیوں میں ہندو بھی نظر آئیں گے، سکھ بھی، پارسی بھی، عیسائی بھی اور یہودی بھی، کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں یہودیوں کے سینا گوگ ہوتے تھے اور یہ عبادت کے لیے دن میں تین بار وہاں جاتے تھے، یہ تجارت بھی کرتے تھے اور یہ دفتروں میں بھی ملازم تھے۔
ملک میں پارسی، عیسائی، ہندو اور سکھ بھی عام نظر آتے تھے لیکن پھر یہ غائب ہونا شروع ہوئے اور آج یہ پاکستان میں معدوم اقلیت بن چکے ہیں، کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں یہودی تھے (غالباً تیس ہزار)، آج پاکستان میں صرف 900 رجسٹرڈیہودی ہیں اور ان میں بھی فشیل بین خلد واحد شخص ہے جسے ریاست نے یہودی کی حیثیت سے پاسپورٹ جاری کیا، باقی تمام یہودی انڈر گراؤنڈ ہیں، یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے نام پر سہم سہم کر زندگی گزار رہے ہیں، پارسیوں کی حالت بھی بہت پتلی ہے، یہ لوگ کبھی کراچی اور کوئٹہ کے کارآمد ترین شہری ہوتے تھے لیکن ہم نے ان کارآمد ترین شہریوں کو بھی نکال باہر کیا، کوئٹہ میں آج بھی پارسیوں کی پوری کالونی موجود ہے، کالونی میں درجنوں گھر بھی ہیں، گلیاں، چوک اور پارک بھی ہیں لیکن وہاں رہتا کوئی نہیں، کوئٹہ کے تمام پارسی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں، پورے ملک میں اس وقت صرف 1386پارسی ہیں، لاہور شہر میں فقط دو درجن پارسی بچے ہیں اور یہ بھی چھپ کر زندگی گزار رہے ہیں۔
پاکستانی پارسی اور یہودی کہاں چلے گئے اور کیوں چلے گئے؟ ہم نے جس دن اس سوال کا جواب تلاش کر لیا ہم اس دن امن اور ترقی کے ٹریک پر آ جائیں گے، پاکستانی یہودی اور پارسی ملک بننے کے ابتدائی برسوں میں بھارت شفٹ ہو گئے تھے یا پھر یہ ایک ایک کر کے یورپ، امریکا اور کینیڈا منتقل ہو گئے، آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی اسرائیل میں پاکستانی یہودیوں کی ایک باقاعدہ تنظیم موجود ہے، اسرائیلی فوج میں بھی پاکستانی یہودی ہیں، یہ لوگ اردو بولتے ہیں اور انھوں نے گھروں میں کراچی کی پرانی گلیوں کی تصویریں لگا رکھی ہیں، کراچی کبھی ہندوستان میں یہودیوں کا دوسرا بڑا مرکز ہوتا تھا، شہر میں چار سیناگوگ اور یہودیوں کے دو بڑے قبرستان ہوتے تھے، یہ تمام عمارتیں قبضہ گروپوں کا رزق بن چکی ہیں۔
میں نے تین سال قبل بڑی مشکل سے کراچی میں یہودیوں کا قبرستان تلاش کیا، قبرستان کی حالت انتہائی مخدوش تھی، قبروں پر جھاڑیاں اگی تھیں اور مزارات کے اندر نشئیوں کا بول وبراز پڑا تھا، مجھے قبرستان کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا، کراچی کے عیسائی اور ہندو بھی اسی عمل سے گزر رہے ہیں، ہم نے انھیں الگ محلوں میں بھی دھکیل دیاہے اور ان کی جائیدادوں، چرچز اور مندروں پر بھی قبضے کر لیے ہیں اور ہم انھیں زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
ہم جوں جوں ان کوششوں میں کامیاب ہو رہے ہیں ہم توں توں چھوٹے چھوٹے فرقوں کو بھی الگ محلوں اور الگ شہروں میں دھکیلتے جا رہے ہیں چنانچہ آپ دیکھ لیجیے گا ہمارے ملک میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چھوٹے فرقوں کے لیے بھی اپنی عبادات مشکل ہوجائیں گی لیکن سوال یہ ہے ہم اگر یہ بھی کر لیتے ہیں، ہم نے اگر ملک سے تمام غیرمسلموں اور چھوٹے فرقے کے لوگوں کو نکال دیا تو ہم اس کے بعد کیا کریں گے؟ مجھے خطرہ ہے ہم پھر سنی العقیدہ مسلمان بریلویوں، اہلحدیث، وہابیوں اور دیوبندیوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کو اقلیت بنائیں گے اور یوں ایک اکثریت باقی اقلیتوں کو یہودیوں، پارسیوں اور عیسائیوں کی طرح دھکیل دھکیل کر ملک سے باہر نکال دے گی لیکن شاید یہ مرحلہ نہ آئے کیونکہ یہ ملک اس وقت تک اپنا وجود ہی کھو چکا ہو گا لہٰذاہمیں اس وقت سے پہلے عقل کے ناخن لے لینے چاہئیں، ہمیں ملک کے ہر شہری کو مذہب اور عقیدے سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف شہری تسلیم کرنا ہوگا، وہ شہری خواہ فشیل بین خلد ہو، بھگوان داس ہو، جسٹس دراب پٹیل ہو یا پھرسردار رمیش سنگھ اروڑا ہو ملک کا ہر شہری پاکستانی ہونا چاہیے اور اسے ہر صورت اکثریت کے برابر مذہبی، سماجی اور سیاسی آزادی ملنی چاہیے۔
میں فشیل کی طرف واپس آتا ہوں، یہ ایک بہادر پاکستانی ہے، یہ خوف سے بالاتر ہو کر سامنے بھی آیا، اس نے خود کو یہودی بھی ڈکلیئر کیا اور اس نے یہودی کی حیثیت سے پاسپورٹ بھی بنوایا، ہمیں اس شخص کی بہادری کی قدر بھی کرنی چاہیے اور اسے عام پاکستانی شہریوں کے برابر حقوق بھی دینے چاہئیں، حکومت وقف املاک میں سے سیناگوگ تلاش کرے اور چیف جسٹس آف پاکستان یہ سینا گوگ قبضہ گروپوں سے چھڑا کر اس کے حوالے کریں، ریاست اسے سینا گوگ کی مرمت کے لیے رقم بھی دے اور یہ اسے اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کا پورا پورا موقع بھی فراہم کرے، یہودیوں اور مسلمانوں کا خدا ایک ہے، ہم اگر مسجد میں اس خدا کے سامنے سر جھکا سکتے ہیں توپھر ہم فشیل کو اپنی عبادت گاہ بنانے اور عبادت کرنے کا حق کیوں نہیں دیتے؟ دوسرا ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے، یہ ہمارا ریاستی موقف ہے، ہمیں اس موقف پر ڈٹے رہنا چاہیے لیکن اسرائیل کے اندر ایک فلسطین بھی ہے اور اس فلسطین میں ہمارا پہلا قبلہ بھی ہے اور ہمارے انبیاء کرام کے مزارات بھی ہیں۔
پاکستان کے شہری ان مزارات اور اس قبلہ اول کی زیارت کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا ہم اسرائیل کو تسلیم کیے بغیر کوئی درمیان کا راستہ نہیں نکال سکتے؟ وہ درمیان کا راستہ جو اردن، شام، لبنان، مصر، ترکی اور یو اے ای نکال چکے ہیں، یہ ملک 70 سال سے اسرائیل سے براہ راست جنگ لڑ رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کے زائرین مقامات مقدسہ کی زیارت بھی کرتے ہیں، ہم بھی ترکی یا اردن کے ساتھ مل کر کوئی ایسا سفارتی بندوبست کیوں نہیں کر لیتے جس کے ذریعے پاکستان کے مسلمان، عیسائی اوریہودی زیارتوں کے لیے اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں جا سکیں، پاکستان، ترکی اور اسرائیل یا پھر پاکستان اردن اور اسرائیل مل کر زیارت کی کمپنیاں بنائیں، یہ کمپنیاں زائرین کے گروپ بنائیں اور پاکستانی بھی دنیا کی مقدس ترین سرزمین کی زیارت کریں، اس میں کیا حرج ہے؟ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے، ہم نہ کریں لیکن کیا ہم قبلہ اول اور انبیاء کرام کے مزارات کو بھی تسلیم نہیں کرتے؟ ہم اگر کرتے ہیں تو پھر ہم نے پاکستانیوں کو ان زیارتوں سے کیوں محروم کر رکھا ہے؟ ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ دنیا میں ہمارا صرف ایک ڈکلیئرڈ دشمن ہے اور وہ دشمن بھارت ہے۔
ہم اگر اس دشمن کے شہریوں کو ویزے دے سکتے ہیں اور جواب میں ہمارا دشمن بھی ہمارے شہریوں کو ویزے جاری کرسکتا ہے تو پھر فلسطین کے لیے بندش کیوں ہے؟ وہ ملک جن کی زمینوں پر اسرائیل نے قبضہ کیا تھا، وہ ملک بھی اب اسرائیل کے لیے اپنی سرحدیں کھولتے چلے جا رہے ہیں لیکن ہمارا موقف سخت سے سخت ہوتا جا رہا ہے، کیوں؟ آخر کیوں؟ آپ کمال دیکھئے، ہم نے 1948 میں جن ملکوں کی محبت میں یہ فیصلہ کیا تھا آج وہ ملک پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارت کاری کرا رہے ہیں، وہ ہمیں اپنا موقف نرم کرنے کے مشورے دے رہے ہیں لیکن ہم میں حقائق کو تسلیم کرنے کی ہمت ہے اور نہ وزڈم، عمران خان جیسا شخص بھی خوف کے عالم میں دائیں بائیں دیکھ رہا ہے، یہ بھی جرات نہیں کر رہا، یہ نہ کرے، ہم اسرائیل کو بے شک تسلیم نہ کریں لیکن ہم کم از کم زیارتوں کے لیے گروپ ویزوں کا بندوبست تو کردیں، ہماری تین نسلیں بیت المقدس کی زیارت کے بغیر دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں، ہو سکتا ہے چوتھی نسل کو یہ نعمت مل جائے، یہ قبلہ اول کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو وضو کرا سکے اور یہ اس مقام پر نفل پڑھ سکے جہاں ہمارے رسولؐ نے انبیاء کرام کی امامت فرمائی تھی۔
ہم یہ کب کرتے ہیں؟ مجھے نہیں معلوم لیکن ریاست کو کم از کم فشیل بین خلد کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکالنا چاہیے، یہ اس کا حق ہے اور ہمیںاسے یہ حق ضرور، ضرور اور ضرور دینا چاہیے، یہ ضرور بیت المقدس پہنچنا چاہیے، یہ ہمارا فرض بھی ہے اور ریاستی ذمے داری بھی۔