فیصلے نہ دیں
میرے پاس ایک صاحب بیٹھے تھے، یہ اچھے بھلے پڑھے لکھے اور کاروباری شخص تھے مگر یہ بھی اسی گفتگومیں کود پڑے جس سے ہم روز الجھتے ہیں اور ڈپریشن لے کر گھر چلے جاتے ہیں، میرے ایک ترکی دوست نے پاکستانی قوم کے بارے میں بڑی دلچسپ آبزرویشن دی، اس نے کہا "پاکستانی چوبیس گھنٹے کے سیاسی دانشور ہیں، میں جہاں بھی جاتا ہوں وہاں سیاسی گفتگو شروع ہو جاتی ہے اور اس گفتگو کا نوے فیصد مواد افواہوں، آبزرویشن اور لوگوں کی ذاتی خواہشات پر مبنی ہوتا ہے" میں نے اس سے اتفاق کیا، وہ بولا" آپ پاکستان کے مقابلے میں دنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں، لوگ سیاست پر بہت کم بات کرتے ہیں، یہ دفترمیں صرف دفتر کی بات کریں گے، شام کو کسی ریستوران یا کافی شاپ میں بیٹھ کر کتابوں، فلموں اور اپنی گزری چھٹیوں کے بارے میں بات کریں گے اور ہفتے اور اتوار کے دن اسپورٹس، صحت اور کھانے کے بارے میں گفتگو ہو گی، یہ لوگ صرف الیکشن کے دنوں میں سیاسی بات چیت کرتے ہیں مگر آپ ہر وقت اس کام میں جتے رہتے ہیں " میں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا، ہم لوگ واقعی چوبیس گھنٹے کے سیاسی جانور ہیں، ہم میں سے جب بھی دو لوگ اکٹھے ہوں گے۔
یہ سیاسی گفتگو شروع کر دیں گے اور گفتگو کے دوران دونوں کا لہجہ قطعی ہو گا، وہ صاحب بھی سیاسی گفتگو میں کود پڑے، میں نے جب زیادہ ریسپانس نہ دیا تو انھوں نے میرے ایک دوست کے بارے میں پوچھا " یہ کیسا انسان ہے" میں نے عرض کیا " وہ شخص انتہائی برا، واہیات، بدتمیز، کرپٹ، ظالم، نالائق، غدار اور کافر ہے" وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے، میں نے ان سے عرض کیا " میرے بھائی آپ مجھ سے یہی سننا چاہتے تھے" وہ پریشان ہو گئے، ہماری قومی عادت ہے ہم جب بھی کسی تیسرے شخص کے بارے میں رائے لیتے ہیں تو ہم اس کے بارے میں بری بات سننا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں اس کی ذات کے ایسے گھنائونے پہلو ہمارے سامنے رکھے جائیں جن سے دنیا واقف نہیں اور میں نے اپنے اس دوست کی دلی خواہش پوری کر دی، وہ پہلے حیران ہوا، پھر اس کے چہرے پر طمانیت کے آثار آئے اوروہ اس کے بعد مسکرا کر بولا "کیا آپ تھوڑی سی وضاحت کر دیں گے" میں نے عرض کیا "وضاحت کی کیا ضرورت ہے، اس میں وہ تمام خرابیاں موجود ہیں جو دنیا کے برے لوگوں میں ہوتی ہیں، دنیا کے تمام بڑے بحرانوں، تمام بڑے حادثوں اور تمام مہلک سانحوں کا ذمے دار بھی یہ شخص ہے، دنیا میں سونامی بھی اس کی وجہ سے آتے ہیں، عراق اور افغانستان پر حملے بھی اس کی وجہ سے ہوئے تھے اور دنیا میں کیمیائی ہتھیاروں کا موجد بھی یہی ہے" میرے دوست کا قہقہہ نکل گیا۔
ہم ملالہ کے معاملے میں بھی اسی رویئے کا شکار ہیں، میں ابلاغیات کا طالب علم ہوں، میں اکیس سال سے صحافت سے وابستہ ہوں اورسولہ سال سے کالم لکھ رہا ہوں، میں اچھی طرح جانتا ہوں لوگ کس وقت کیا پڑھنا چاہتے ہیں، یہ کس بات پر تالی بجائیں گے اور کس پر نعرے لگائیں گے چنانچہ میرے لیے لوگوں کی خواہشات کو سیراب کرنا قطعی مشکل نہیں، آپ آدھ گھنٹے کے لیے نسیم حجازی بن جائیں اور داد سے جھولی بھر لیں مگر سوال یہ ہے کیا صحافیوں، کالم نگاروں اور لکھاریوں کا کام لوگوں کی خواہشوں کا منہ میٹھا کرنا ہوتا ہے؟ کیا ہمارا کام وہ لکھنا ہے جو لوگ پسند کرتے ہیں یا پھرلوگوں کا ذہنی افق وسیع کرنا، انھیں تصویر کے پیچھے جھانکنے کی ٹریننگ دینا ہے۔ لکھاری اور حلوائی میں فرق ہونا چاہیے، حلوائی برسات کے موسم میں پکوڑے بناتے ہیں، شادیوں کے سیزن میں لڈو کی مقدار بڑھا دیتے ہیں اورسردیوں میں گجریلے پر سرمایہ کاری شروع کر دیتے ہیں، ہمارا کام یہ نہیں ہے، ہمارا کام لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا، ان کو چیزوں کا اصل ویو دکھانا ہوتا ہے۔
یہ ہمارا فرض بھی ہے اور ذمے داری بھی۔ آپ خود سوچئے میرے لیے کتنا آسان ہے میں بھی قلم کو لوگوں کی نفرت کے بہاؤ میں بہنے دوں، میں بھی تلوار لے کر ملالہ کے سر پر کھڑا ہو جائوں، میں بھی اس کی کھانسی، اس کی مسکراہٹ اور اس کی ملاقاتوں سے پاکستان اور اسلام دشمنی نکالنا شروع کر دوں، میں بھی یہ لکھنے لگوں، ملالہ ایک عالمی سازش ہے اور اس سازش میں امریکا کے ساتھ ساتھ برطانیہ، اسرائیل اور بھارت بھی شامل ہیں، ملالہ سرے سے پاکستانی نہیں، یہ پولینڈ، اسرائیل یا امریکا سے تعلق رکھتی ہے اور امریکا نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے اسے ہمارے ملک میں لانچ کیا وغیرہ وغیرہ اور ٹنوں کے حساب سے لوگوں کی داد سمیٹوں، لوگ میرے لیے تالیاں بجائیں اور واہ واہ کے ڈونگرے برسائیں لہٰذا پھر مجھے آپ لوگوں کی گالیاں کھانے کی کیا ضرورت ہے، مجھے خود کو امریکی جاسوس کہلانے یا ملک دشمن کا ٹائیٹل لینے کی کیا ضرورت ہے لیکن میں سوچتا ہوں میں جس دن یہ سوچ کر لکھوں گا۔
عوام کو یہ پسند آئے گا یا یہ سوچ کر لفظوں کو اپنی لغت سے خارج کرنے لگوں گا کہ لوگ انھیں پسند نہیں کریں گے تو اس دن میری ذمے داری، میرا فرض مصلحت کی صلیب پر چڑھ جائے گا، میں اس دن لکھاری نہیں رہوں گا گا، لکھاریوں کو کبھی عوامی پاگل پن کا حصہ نہیں بننا چاہیے، انھیں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنا چاہیے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہماری رائے سو فیصد درست ہوتی ہے، ہماری رائے بھی غلط ہو سکتی ہے، یہ کالم ہیں، یہ مذہبی صحیفے نہیں ہیں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب بھی نہیں ہوتا ہمیں جو رائے پسند نہیں، وہ بکائو ہوگی یا وہ کفریہ تحریر ہو گی یا پھرہم لوگ کسی غیر ملکی ایجنڈے کو کیری کر رہے ہیں، ہماری رائے ایک آزاد رائے ہوتی ہے جس سے ہر قاری کا متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اسے محض ایک رائے سمجھیں، ایک ویو، ایک پہلو سمجھیں اور اس کی بنیاد پر لکھنے والے کے ایمان، ایمانداری یا حب الوطنی کا فیصلہ نہ کریں، آپ کوکوئی رائے اچھی لگتی ہے تو بہت خوب، اچھی نہیں لگتی تو اس سے بھی زیادہ خوب مگر اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں آپ کو جو رائے پسند نہیں آپ اسے ملک دشمن یا خلاف اسلام قرار دے دیں، یہ زیادتی ہو گی۔
ہم اب آتے ہیں ملالہ ایشو کے ایک دوسرے پہلو کی طرف، یورپ اور امریکا سمیت ساری مغربی دنیا ایک تضاد کا شکار ہے، ان کی حکومتی پالیسیاں دوسرے ممالک کے بارے میں ظالمانہ ہوتی ہیں لیکن ان کے عوام، ان کے لکھاریوں اور ان کے میڈیا کا رویہ معتدل اور منصفانہ ہوتا ہے، یہ لوگ مظلوموں بالخصوص مظلوم عورتوں اور بچوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں، یہ عزم و ہمت کا مظاہرہ کرنے والے لوگوں کو بھی پسند کرتے ہیں چنانچہ دنیا کے کسی کونے سے جب بھی ملالہ جیسی کوئی بچی یورپ یا امریکا کے میڈیا تک پہنچتی ہے تو ان کا معاشرہ اسے ہاتھوں پر اٹھا لیتے ہیں، ان کا میڈیا، ان کی این جی اوز، ان کی سول سوسائٹی، ان کے پارلیمنٹیرینز اور آخری اسٹیج پر ان کی حکومتیں اس کو وی آئی پی اسٹیٹس دیتی ہیں، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ انٹرنیٹ پر چلے جائیں، آپ کو ایتھوپیا، افغانستان، ایران، یمن، سری لنکا، چاڈ، عراق، لبنان، فلسطین، بوسنیا، سربیا، کیوبا، چلی اور تھائی لینڈ کی بے شمار ایسی خواتین، بچے، بچیاں اور مظلوم ملیں گے جنھیں یورپ اور امریکا نے ملالہ جتنی اہمیت دی، آن سونگ سوچی برما کی سیاسی لیڈر ہے، یہ 21 سال برما میں قید رہی، اس کی رہائی کی تحریک بیس سال یورپ میں چلتی رہی اور یورپ کا بچہ بچہ اس کے نام سے واقف ہے۔
لیلیٰ خالد فلسطینی مجاہدہ تھی لیکن ہم تک اس کا نام مغربی میڈیا کے ذریعے پہنچا، نیلسن مینڈیلا کو گوروں نے قید کیا تھا لیکن اس کو ہیرو بھی گوروں نے بنایا، ہالی ووڈ نے اس پر پانچ فلمیں بنائیں اور یہ چالیس سال سے میڈیا میں ہیں، افغانستان میں عورتوں کے قتل پر پورے مغربی میڈیا نے سیکڑوں رپورٹیں بنائیں اور ایران اور ترکی کی خواتین کو نوبل انعام بھی دیا گیا، مغربی عوام مظلوم لوگوں کے لیے دل کے دروازے کھول دیتے ہیں مگر ان کی حکومتیں ظالم ہیں، ہمارے ملک میں ملالہ جیسی لڑکی پہلی بار سامنے آئی ہے اور یورپ اور امریکا نے پہلی بار ہماری کسی بچی کو اتنی اہمیت دی چنانچہ ہم مغرب کے رویے کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں، ہم اس میں سازش تلاش کر رہے ہیں، آپ ملالہ کو ایک لمحے کے لیے سائیڈ پر رکھ دیں اور ڈرون حملے کا نشانہ بننے والے شمالی وزیرستان کے رفیق الرحمن اور اس کے دو بچوں کی مثال لیجیے، ایمنسٹی انٹرنیشنل اس علاقے تک پہنچی جہاں آج تک ہماری ریاست داخل نہیں ہو سکی۔
ایمنسٹی نے رفیق الرحمن کے خاندان کو رپورٹ کا حصہ بنایا، امریکی کانگریس مین ایلن گریسن نے نہ صرف رفیق الرحمن اور اس کے بچوں کو امریکا بلایا بلکہ میڈیا کے سامنے بھی پیش کیا اور دنیا بھر کا میڈیا ان لوگوں کو بھرپور کوریج دے رہا ہے اور یہ لوگ امریکا میں بیٹھ کر امریکا کو قاتل اور ظالم قرار دے رہے ہیں اور لوگ ان کی بات ہمدردی سے سن رہے ہیں، یہ ہمدردی، یہ برداشت مغربی کلچر کا حصہ ہے لیکن یہ کیونکہ ہمارے لیے نئی بات ہے چنانچہ ہم ملالہ کے حق میں کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں، آپ ملالہ، اس کی کوریج اور اس کی کتاب کو ایک واقعہ سمجھ کر دیکھیں، آپ کو یہ بری نہیں لگے گی، آپ اسے کفر اور اسلام کی جنگ بنا رہے ہیں اور آپ کے اس فیصلے کی وجہ سے ملک میں کشیدگی پیدا ہو رہی ہے، آپ سولہ سال کی بچی کے خلاف فیصلے نہ دیں، دل بڑا کریں، یہ ہماری بچی ہے۔