اگلی بار
ایس جی ایس اور کوٹیکنا یہ دونوں سوئس ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں، یہ بحری جہازوں کے ذریعے ہونے والی تجارت کی انسپکشن کرتی ہیں، پاکستان نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے آخری دورمیں انھیں انسپکشن کا ٹھیکہ دیا، 1997ء میں میاں نواز شریف کی حکومت آئی، سینیٹر سیف الرحمن کی سربراہی میں احتساب کمیشن بنا، کمیشن نے تحقیقات کیں، پتہ چلا آصف علی زرداری نے ایس جی ایس اور کوٹیکنا کو یہ ٹھیکے 60 لاکھ ڈالر کمیشن لے کر دیے تھے۔
سیف الرحمن نے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف ریفرنس دائر کر دیے۔ سوئٹرز لینڈ میں اکاؤنٹ اور اس اکاؤنٹ میں 60 لاکھ ڈالرز بھی تلاش کر لیے گئے، پاکستان کی طرف سے سوئس عدالت میں مقدمہ کر دیا گیا، یہ ریفرنس اور یہ کیس 24 نومبر 2015ء تک چلتا رہا، اس دوران میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی، جنرل پرویز مشرف کا دور آیا، احتساب بیورو نیب میں تبدیل ہوا اور نیب سرگرمی کے ساتھ محترمہ اور زرداری صاحب کا پیچھا کرتا رہا، یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف واحد کیس نہیں تھا، سیف الرحمن نے اے آر وائی گولڈ کے مالکان کے ساتھ مل کر سونا درآمد کرنے، زرعی ترقیاتی بینک کے لیے ارسس ٹریکٹر درآمد کرنے اورفی ٹریکٹر ڈیڑھ لاکھ روپے کمیشن لینے اور آمدنی سے زائد اثاثوں کے ریفرنس بھی بنائے جب کہ 2000ء میں آصف علی زرداری کے خلاف وزیراعظم ہاؤس میں پولو گراؤنڈ بنانے کا ریفرنس بھی دائر ہوگیا۔
یہ تمام مقدمات 15 سے 20 سال چلتے رہے، ریاست کے مقدموں کی تفتیش اور پیروی پر کروڑوں روپے اور 20 سال خرچ ہوگئے لیکن پھر اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ جنرل پرویز مشرف کو محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی سیاسی ضرورت پڑ گئی اورحکومت نے 5 اکتوبر 2007ء کو ان دونوں کو این آر او دے دیا، این آر او کے ساتھ ہی ملک میں 8 ہزار 41 لوگوں کے خلاف مقدمے ختم ہو گئے اور محترمہ اور زرداری صاحب کے صدقے حکیم سعید شہید کے قاتل تک جیلوں سے رہا ہو گئے، اربوں روپے کی کرپشن اور کمیشن بھی حلال ہوگیا، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں 16 دسمبر 2009ء کو سپریم کورٹ کے 17 رکنی بینچ نے این آر او کالعدم قرار دے دیا، مقدمات دوبارہ بحال ہو گئے لیکن اس وقت تک پلوں کے نیچے سے پانی بھی گزر چکا تھا اور مال بھی ٹھکانے لگ چکا تھا۔
آصف علی زرداری صدر بن چکے تھے اور آئین کے مطابق صدر کو استثنیٰ حاصل تھا چنانچہ زرداری صاحب کی فائلیں بند رہیں، یہ فائلیں 2013ء میں میاں نواز شریف کے دور میں کھلیں لیکن عمران خان آصف علی زرداری کے لیے فرشتہ بن کر طلوع ہوئے، اسلام آباد میں دھرنا ہوا، حکومت کو اپوزیشن کی ضرورت پڑ گئی اور اس ضرورت کی آڑ میں آصف علی زرداری کے خلاف تمام ریفرنس عدم ثبوتوں کی بنیاد پر ایک ایک کر کے ختم ہوتے چلے گئے، آمدنی سے زائد اثاثوں کا کیس آخری تھا، یہ کیس بھی نیب کورٹ نے 26 اگست 2017ء کو عدم ثبوت کی بنا پر نبٹا دیا اور یوں آج ملک میں آصف علی زرداری کے خلاف کوئی مقدمہ موجود نہیں، یہ ملکی قانون کی نظر میں مکمل طور پر باعزت، بے گناہ اور شفاف انسان ہیں۔
آپ اب میاں نواز شریف کی مثال لیجیے، جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو مارشل لاء لگایا اور دو دسمبر1999ء کو نوازشریف کے خلاف دہشت گردی، قتل کی سازش، ہائی جیکنگ اوراغواء کے مقدمات درج کر دیے گئے، عدالت نے6 اپریل 2000ء کو نواز شریف کو عمرقید کی سزا سنا دی لیکن پھر سعودی عرب نے جنرل پرویز مشرف کو مفت پٹرول اور یونیفارم میں صدر تسلیم کرنے کا عندیہ دے دیا، جنرل نے یہ دونوں تحائف قبول کر لیے اورنوازشریف کو جیل سے نکال کر خاندان سمیت سعودی عرب بھجوا دیا، نیب نے 1999ء اور 2000ء میں شریف فیملی کے خلاف کل 28 مقدمات بنائے تھے، ان میں سے 15 مقدمے ناکافی شواہد کی وجہ سے اگلے چار برسوں میں خارج ہو گئے جب کہ نو مقدمات 18 سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک چل رہے ہیں۔
ان 9مقدمات میں ہیلی کاپٹر کیس، حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس، رائیونڈ اسٹیٹ کیس اور اتفاق فاؤنڈری کیس زیادہ مشہور ہیں، میاں نواز شریف نے2000ء میں جنرل مشرف کو لکھ کر دیا تھا یہ دس سال تک سیاست میں شریک نہیں ہوں گے، سعودی عرب اور لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری اس معاہدے کے ضامن تھے، جنرل مشرف نے 2007ء میں این آر او کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو پاکستان آنے کی اجازت دے دی، شاہ عبداللہ نے جنرل پرویز مشرف کو ریاض طلب کیا اور حکم دیا "اگر بے نظیر بھٹو پاکستان جائے گی تو نواز شریف بھی جائے گا" جنرل مشرف نے سو دلیلیں دیں لیکن دس سال کے تحریری معاہدے کے باوجود میاں نواز شریف 25 نومبر2007ء کو پاکستان بھی آئے۔
ن لیگ نے الیکشن بھی لڑا اور پنجاب میں میاں شہباز شریف کی حکومت بھی بنی، سعودی عرب کے دباؤ کی وجہ سے جنرل مشرف اور جنرل کیانی شریف برادران کو روک سکے اور نہ آصف علی زرداری، آپ ملاحظہ کیجیے نواز شریف مقدمات اورعمرقید کی سزا کے باوجود جیل سے سعودی عرب گئے اور یہ تین ملکوں کے تحریری معاہدے کے باوجود پاکستان واپس بھی آئے، یہ نااہلی کی وجہ سے 2008ء میں ایم این اے کا الیکشن نہیں لڑ سکے لیکن یہ اس کے باوجود پارٹی کے سربراہ بھی رہے اور ان کی پارٹی ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکمران بھی رہی۔
ملک کا کوئی قانون، کوئی ادارہ انھیں دو تہائی اکثریت کے باوجود بارہ اکتوبر 1999ء کو جیل جانے سے بچا سکا، ملک کا کوئی قانون انھیں سزا کے باوجود2000ء میں خاندان سمیت جہاز پر چڑھنے سے روک سکا اورنہ کوئی معاہدہ، کوئی دستخط انھیں 25 نومبر2007ء کو ملک واپس آنے سے باز رکھ سکا چنانچہ 1999ء ہو، 2000ء ہو یا پھر 2007ء ہو آئین، قانون اور معاہدے ہر چیز بے معنی اور بے وقعت ثابت ہوئی، اگر کوئی چیز حقیقت ثابت ہوئی تووہ صرف اور صرف زمینی حقائق تھے، صرف یہ زمینی حقائق سپریم بنے۔
آپ ان دونوں مثالوں کا تجزیہ کیجیے، آصف علی زرداری کے خلاف 20سال مقدمے چلے، یہ 11سال جیلوں میں بھی رہے، میاں نواز شریف بھی 18 سال مقدمے بھگتتے رہے، یہ بھی جیل میں رہے اوریہ 7سال جلاوطن بھی رہے اور ان دونوں کے خلاف مقدموں پر کروڑوں روپے بھی خرچ ہوئے لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ ریاست پاکستان آصف علی زرداری سے "کرپشن" کا ایک پیسہ وصول نہ کر سکی، یہ مقدمات کے باوجود پانچ سال ملک کے صدر بھی رہے اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر بھی، ان کے حکم پر 22 جولائی 2010ء کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو تین سال کی ایکسٹینشن بھی دی اور ان کی رضامندی سے افتخار محمد چوہدری بھی چیف جسٹس آف پاکستان کی کرسی پر دوبارہ بحال ہوئے۔
میاں نواز شریف بھی سیاسی اور سفارتی ضرورتوں کے تحت سعودی عرب کے حوالے کیے جاتے اور واپس بلائے جاتے رہے، ان کے کیس میں بھی قانون اور آئین دونوں بار بار پامال ہوئے اور ہم ایک بار پھر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا احتساب کر رہے ہیں، یہ درست ہے کراچی کے مختلف بینکوں میں ساڑھے گیارہ ہزار جعلی اکاؤنٹس پکڑے گئے اور ان اکاؤنٹس کے ذریعے اڑھائی ارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوئی، یہ بھی درست ہے منی لانڈرنگ کے الزام میں آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، فریال تالپور اور مراد علی شاہ چاروں کے خلاف مقدمات بن جائیں گے، یہ بھی درست ہے اومنی گروپ 2000ء میں تین کمپنیوں کا چھوٹا سا گروپ تھا۔
یہ 18سال میں 91 کمپنیوں کا گروپ بن گیا اور یہ ملک کا پہلا گروپ تھا جس نے 18برسوں میں 95 گنا ترقی کی اور یہ بھی درست ہو سکتا ہے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ایک میڈیا ایڈوائزر 2008ء میں دو فلیٹس کے کاغذات لے کر آصف علی زرداری کے پاس آئے اور بتایا "مجھے یہ فلیٹس محترمہ نے خرید کر دیے تھے، یہ میرے پاس امانت ہیں میں یہ آپ کو واپس کرنا چاہتا ہوں" اور وہ دونوں فلیٹس آصف علی زرداری کے حکم پر بلاول بھٹو کے نام منتقل کر دیے گئے۔
بلاول بھٹو نے یہ فلیٹس کاغذات نامزدگی میں وراثت ڈکلیئر کردیے جب کہ محترمہ نے اپنے کاغذات میں ان کا ذکر نہیں کیا تھا، یہ فلیٹس اب بلاول بھٹو کے گلے پڑ جائیں گے، انھیں بھی اب ان کی منی ٹریل دینا ہوگی اور یہ اگر ان فلیٹس کو جسٹی فائی نہ کرسکے تویہ بھی ڈس کوالی فائی ہو جائیں گے اور یہ بھی درست ہو سکتا ہے بلاول بھٹو ان کمپنیوں کے حسابات میں بھی الجھ جائیں گے جو والدین کی طرف سے انھیں ملیں اور یہ بھی سچ ہو سکتا ہے میاں نواز شریف نے العزیزیہ اسٹیل ملز میں واقعی کرپشن کی ہو لیکن یہاں پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں، کیا صرف مجرموں کو گرفتار کرنا احتساب ہے یا پھر کرپشن کی رقم واپس لانا بھی ریاست کی ذمے داری ہے؟
یہ رقم کہاں ہے اور یہ کب واپس آئے گی؟ ہم نے آصف علی زرداری کے خلاف بیس سال مقدمے چلائے تھے لیکن ایک دھیلا واپس لانا تو دور ہم نے الٹاان مقدموں اور زرداری صاحب کی حفاظت پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے تھے، ہم نے پاناما کیس میں میاں نواز شریف کو بھی سزا دی لیکن فلیٹس اس وقت بھی لندن میں ہیں اور شریف فیملی کی ملکیت ہیں۔
میاں نواز شریف بھی اڑھائی ماہ بعد ہائی کورٹ کے حکم پر گھر پہنچ گئے، ہم اب العزیزیہ میں انھیں کتنی دیر اندر رکھ لیں گے اور لوٹے ہوئے تین سو ارب روپے کب واپس آئیں گے اور دوسرا سوال یہ گارنٹی کون دے گا ہمیں 2000ء کی طرح مستقبل میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی سیاسی اور سفارتی ضرورت نہیں پڑے گی، یہ عمران خان کے خلاف کارڈ کے طور پر استعمال نہیں ہوں گے اور ہم ان کی سزا معاف کر کے انھیں کرسی اقتدار پر نہیں بٹھائیں گے؟
ہم میاں نواز شریف کو تیل کے عوض سعودی عرب کے ہاتھوں بھی فروخت نہیں کریں گے اور اگر امریکا نے ایران پر حملہ کر دیا تو ہم آصف علی زرداری کو بھی جیل سے نکال کر استعمال نہیں کریں گے اور اس خریدوفروخت اور استعمال کی دوران احتساب ایک بار پھر قربان نہیں ہو گا اور قوم کو یہ گارنٹی بھی کون دے گا کرپشن کی رقم اس بار ضرور واپس آئے گی، لوٹ کا مال اس بارہرصورت واپس ملے گا۔
آپ یہ گارنٹی دے دیں پوری قوم ایک آواز ہو کر احتساب زندہ باد کا نعرہ لگائے گی لیکن اگر خدانخواستہ اس بار بھی دھوکا ہوگیا تو پھر آپ یقین کر لیجیے اگلی بار اگر ریاست مدینہ خود بھی چل کر آ گئی تو کوئی اس پر یقین نہیں کرے گا، لوگ اگلی بار اصلی فرشتوں کو بھی تسلیم نہیں کریں گے، ریاست اپنی کریڈیبلٹی ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھے گی۔