آسمان سے الجھتا ہوا اعتماد
ذوالفقار علی بھٹوآسمان سے الجھتے ہوئے اعتماد کا پہلا ہدف تھے، جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگایا، ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا، انھیں گرفتار کیا اورمری کے گورنر ہائوس میں قید کر دیا، ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار ختم ہو چکا تھا مگر بھٹو صاحب اس تبدیلی کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، بھٹو صاحب اس وقت بلاشبہ دنیا کے مشہور لیڈر تھے، پاکستان میں لوگ ان کے ہاتھ چومتے تھے، بھٹو صاحب مجمعے میں کھڑے ہو کر لوگوں سے کہتے تھے " لڑو گے" لاکھوں لوگ ایک آواز میں چلاتے تھے "ہاں لڑیں گے" بھٹو صاحب کہتے تھے " مرو گے" لاکھوں لوگ فلک شگاف آواز میں کہتے تھے "ہاں مریں گے" بھٹو صاحب جوش میں اپنا کوٹ اتار کر جلسہ گاہ میں پھینک دیتے تھے، لوگ اس کوٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اس کے تعویز بناتے تھے اور اپنے بچوں کے گلوں میں ڈال دیتے تھے اور لوگ بھٹو کی جھلک دیکھنے کے لیے سارا سارا دن سڑکوں پربیٹھے رہتے تھے۔
وہ عالمی فورم بالخصوص اسلامی دنیا میں بھی بہت پاپولر تھے، سعودی عرب کا شاہی خاندان انھیں اپنی فیملی کا حصہ سمجھتا تھا، یہ کرنل قذافی کے جگری دوست تھے، انور سادات، سہارتو اور چین کے زعماء ذوالفقار علی بھٹو کو تیسری دنیا کا ہیرو کہتے تھے، ذوالفقار علی بھٹو کی تصویریں ٹائم اور نیوز ویک کے کور پر چھپتی تھیں اور نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور ڈیلی ٹریبون ان کی خبریں شائع کرتے تھے، بھٹو صاحب سیکیورٹی کونسل میں بولتے تھے تو پوری دنیا سنتی تھی جب کہ ان کے مقابلے میں جنرل ضیاء الحق کمزور شخصیت کا ایک ایسا بے نام جرنیل تھا جو بھٹو صاحب سے ملاقات کے لیے ساری ساری رات ملتان میں صادق قریشی کے لان میں بیٹھا رہتا تھا لہٰذا بھٹو کا خیال تھا پاکستان کے وہ عوام جو ان کے نعروں کے جواب میں آسمان میں شگاف ڈال دیتے تھے اور ان کے وہ بیرونی دوست جو ان کے چہرے پر تیسری دنیا کا ابراہام لنکن دیکھتے تھے یہ انھیں زیادہ دیر تک قید میں نہیں رہنے دیں گے اور بھٹو کی یہ خام خیالی انھیں آنے والے دنوں میں تختہ دار تک لے گئی۔
بھٹو تبدیل ہوتے ہوئے وقت کی چاپ نہ سن سکا، وہ یہ نہ سمجھ سکا اقتدار، چارم اور مقبولیت کا ایک وقت ہوتا ہے اور یہ وقت جب ڈھل جاتا ہے تو انسان کا اپنا سایہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے، یہ اپنی ہی آگ میں جل کر بھسم ہو جاتا ہے، میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں ذوالفقار علی بھٹو کونواب محمد احمد خان قصوری کے قتل اور جنرل ضیاء الحق کی آمریت نے پھانسی نہیں دی، بھٹو کو اس کا تکبر، اس کی ضد اور اس کی خوش فہمی تختہ دار تک لے گئی، ذوالفقار علی بھٹو اگر تبدیل ہوتے ہوئے وقت کی چاپ سن لیتا، وہ سمجھ جاتا اقتدار اس کی مٹھی سے نکل کر جنرل ضیاء الحق کی جیب میں جا چکا ہے، سوویت یونین کی فوجیں افغانستان کی طرف بڑھ رہی ہیں، ایران میں انقلاب آ چکا ہے لہٰذا امریکا کو اب پاکستان میں عوامی لیڈر کی بجائے ایسا فوجی آمر چاہیے جو اس کی ہر خواہش پر اسلام کا سبز غلاف چڑھا دے اور ضیاء الحق اس وقت امریکا کے لیے موزوں ترین شخص ہے تو شاید بھٹو کا یہ انجام نہ ہوتا لیکن بھٹو جغرافیائی تبدیلی کو نہ بھانپ سکا۔
بھٹو عوام کے کمزور دلوں کا اندازہ بھی نہ لگا سکا، وہ یہ نہ جان سکا عوام ہمیشہ چڑھتے سورجوں کے پچاری ہوتے ہیں، یہ بھٹو کو دیکھ کر " بھٹو دے نعرے وجن گے" کے نعرے لگاتے ہیں اور یہ جب جنرل ضیاء الحق کو دیکھتے ہیں تو انھیں اس میں صلاح الدین ایوبی نظر آنے لگتا ہے اور یوں بھٹو بے سمجھی میں مارا گیا، وہ آمر سے ٹکراتا رہا، وہ آمر کی بنائی ہوئی عدالت کے ججوں کو مؤرخ کے قلم سے ڈراتا رہا اور وہ صلح کی ہر پیش کش ٹھکراتا رہا، جیل میں بیٹھ کر کروڑوں لوگوں کے نعروں اور کرنل قذافی کے کمانڈوز کا انتظار کرتا رہا مگر کرنل قذافی کے طیارے آئے اور نہ ہی بھٹو کو کال کوٹھڑی سے نکالنے کے لیے عوام کے لشکر راولپنڈی جیل پہنچے اور یوں بھٹو انتظار کرتا کرتا پھانسی پر جھول گیا، بھٹو کا آسمان کو چھوتا اعتماد اس کا قاتل ثابت ہوا۔
میاں نواز شریف اس خوش فہمی کا دوسرا شکار تھا، میاں صاحب نے 1996ء کے الیکشنوں میں دو تہائی اکثریت حاصل کی، پاکستان کی تاریخ میں کسی لیڈر کو پہلی بار اتنی اکثریت ملی، یہ اکثریت میاں صاحب کو بھٹو جیسی نفسیاتی کیفیت میں لے گئی، یہ سمجھنے لگے ملک کے دوتہائی عوام ان کے ساتھ ہیں، دنیا بھی تبدیل ہو چکی ہے، یہ دنیا اب کسی آمر اور مارشل لاء کو قبول نہیں کرے گی چنانچہ یہ اعتماد کی اس انتہا کو چھونے لگے جہاں سے انسانوں کی واپسی ممکن نہیں ہوتی، یہ اپنے اعتماد کی تلوار سے سومنات کے بت توڑنے لگے، انھوں نے1997ء میں سب سے پہلے پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل منصور الحق کو فارغ کیا، ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات بنائے اور ان کا احتساب شروع کر دیا، یہ اس کے بعد آرمی چیف کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک معمولی بیان کو جواز بنا کر جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لے لیا اور اس کے بعد انھوں نے نصف درجن سینئر جرنیلوں کو مسترد کر کے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا دیا، یہ جو کچھ کرنا چاہتے تھے، وہ کچھ ہو رہا تھا اور " یہ کچھ" ان کا حوصلہ اور اعتماد بڑھا رہا تھا یہاں تک کہ 12 اکتوبر 1999ء آ گیا، میاں نواز شریف بھٹو بن گئے، میاں نواز شریف پورے خاندان سمیت قید ہوئے اور ان پر دہشت گردی کا مقدمہ بنا دیا گیا، اس وقت میاں نواز شریف کے والد میاں شریف حیات تھے، یہ انتہائی سمجھ دار اور زیرک انسان تھے، یہ جانتے تھے ہم نے اگر جنرل مشرف سے سمجھوتہ نہ کیا تو ہمارا انجام بھٹو سے مختلف نہیں ہو گا لہٰذا جوں ہی امریکا اور سعودی عرب کی طرف سے جلاوطنی کی پیش کش ہوئی، میاں صاحبان نے فوراً ہاں کر دی، یہ خاندان سمیت سعودی عرب منتقل ہو گئے اور یوں بھٹو کے انجام سے بچ گئے۔
بے نظیر بھٹو آسمان کو چھوتے اعتماد کی تیسری ہدف تھیں، بے نظیر 2007ء میں این آر او کی وجہ سے بدنام ہو چکی تھی، ملک میں طالبان طاقت پکڑ چکے تھے، ان کی طاقت سے جنرل پرویز مشرف جیسا شخص تک محفوظ نہیں تھا، طالبان بے نظیر بھٹو کو سیدھی سادی دھمکی دے چکے تھے مگر بے نظیر بھٹو کا خیال تھا عوام ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے، ان کے بین الاقوامی ضامن بھی ان کی حفاظت کریں گے اور پاکستان کی وہ فوج بھی ان کا ساتھ دے گی جس کو اب لبرل ڈیموکریٹ لیڈر کا چہرہ چاہیے، محترمہ بے نظیر بھٹو کو دوستوں نے سمجھایا " پاکستان آپ کے لیے محفوظ جگہ نہیں " مگر بے نظیر بھٹو نہ مانیں، وہ ہر صورت عدلیہ بحالی کی عوامی مہم کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں، وہ18 اکتوبر2007ء کو کراچی آئیں، ان پر خود کش حملہ ہوا، اس حملے میں 140 لوگ مارے گئے، محترمہ کے دوستوں نے انھیں ایک بار پھر سمجھایا لیکن ان کا اعتماد ان کے پائوں کی زنجیر بن گیا چنانچہ 27 دسمبر 2007ء کی وہ شام آ گئی جب محترمہ راولپنڈی میں شہید ہو گئیں، ہماری حکومت اور پیپلز پارٹی سمجھتی رہی، محترمہ کو طالبان، بیت اللہ محسود یا دوسری ملکی اور غیر ملکی طاقتوں نے مارا لیکن میں سمجھتا ہوں محترمہ اپنے اعتماد کے ہاتھوں ماری گئیں، ان کا قاتل ان کا اعتماد تھا اور پیچھے رہ گئے جنرل ریٹائر پرویز مشرف، یہ اس اعتماد، اس ضد بلکہ اس ہٹ دھرمی کا چوتھا ہدف ہیں۔
جنرل پرویز مشرف بے اختیار اور بے توقیر ہو کر 19 اپریل 2009ء کو پاکستان سے رخصت ہو گئے، ان کے جانے کے بعد ان کی شاہی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق نے ان کا نام تک لینا چھوڑ دیا، جنرل مشرف کو سید پرویز مشرف کہنے والے بھی انھیں آمر کا خطاب دینے لگے اور جنرل مشرف نے 14اگست 2010ء کو اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بنائی، لوگ اس جماعت میں شامل ہوئے، اپنے اپنے حصے کا دانا کھایا اور غائب ہو گئے یہاں تک کہ تین خواتین، ایک احمد رضا قصوری اور ایک ریٹائر کرنل جنرل مشرف کا کل اثاثہ رہ گئے مگر اس کے باوجود جنرل مشرف کے اعتماد میں دراڑ نہ آئی، ان کی پتنگ اعتماد اور خوش فہمی کے آسمان پر اوپر سے اوپر اڑتی رہی، اس دوران جنرل مشرف کے انتہائی قریبی مہربانوں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی مگر یہ پاکستان آنے پر مصر رہے۔
ان کا خیال تھا کروڑوں پاکستانی ان کے لیے بے تاب ہیں اور یہ جب کراچی ائیر پورٹ پر اتریں گے تو لوگ چارلس ڈیگال کی طرح انھیں ہتھیلیوں پر اٹھا لیں گے، جنرل مشرف اس غلط فہمی کا شکار بھی تھے کہ یہ سابق آرمی چیف ہیں، یہ امریکا، سعودی عرب اور یو اے ای کے وفادار اور دوست بھی ہیں چنانچہ پاک فوج، ان کے غیر ملکی دوست اور ان کے راستے میں نظریں بچھا کر بیٹھے پاکستانی عوام انھیں جیل نہیں جانے دیں گے مگر ان کا اعتماد بھی کشتی میں لوہا ثابت ہوا اور یہ ایک ہی ماہ میں دلدل میں دھنس گئے، یہ اب اپنے ہی گھر میں قیدی بن کر بیٹھے ہیں اور ان کے عالمی دوست ان کی کال ریسیو نہیں کر رہے جب کہ ان کے احتساب سے فوج کا اپنا سیاسی امیج بہتر ہورہا ہے، جنرل پرویز مشرف کو کسی بھی وقت آپشن دے دیا جائے گا، یہ نواز شریف بن جائیں یا پھر بھٹو بننے کے لیے تیار ہو جائیں، یہ بیمار ہو جائیں، عدالت انھیں علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دے اور یہ شاہی طیارے پر پاکستان سے نکل جائیں یا پھر یہ بھٹو کی طرح تختہ دار کی تیاری کر لیں، فیصلہ اب جنرل مشرف نے کرنا ہے، یہ نواز شریف ہیں یا پھر بھٹو کیونکہ ان کا آسمان کو چھوتا اعتماد انھیں اس موڑ پر لے آیا ہے جہاں ہارے ہوئے لیڈروں اور سابق آمروں کے پاس صرف ایک لائف لائین بچتی ہے، موت یا زندگی، بھٹو یا نواز شریف۔