آپ اپنی کمر ننگی رکھیں
سلیمان کریموف روسی ریاست داغستان سے تعلق رکھتے ہیں، یہ داغستان کی مشہور کاروباری شخصیت تھے، سلیمان کریموف نے روس کی سونا اور چاندی کی کانیں کھودنے والی سب سے بڑی کمپنی پولی میٹل میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی، ان کے پولس گولڈ نامی کمپنی میں 37 فیصد شیئرز تھے، یہ ہوٹل ماسکو، اسٹاک ایکسچینج اور روس کے تین بڑے بینکوں کے بھی شیئرز ہولڈر تھے، سلیمان کریموف سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تیزی سے ترقی کرنے والے روسیوں میں شامل تھے، یہ روس کے ارب پتیوں میں بھی شمار ہوتے تھے، سلیمان کریموف 1999ء میں سیاست میں آ گئے، یہ 1999ء میں ڈُما ریاست کے ممبر اسمبلی بنے اور یہ 2008ء میں داغستان کی سیٹ سے روسی سینیٹ کے رکن بن گئے، یہ سینیٹ میں آئے تو انھوں نے محسوس کیا "میری دولت ہمیشہ میری سیاست کے راستے میں حائل رہے گی، میں جو بھی قانون بناؤں گا یا قانون کے حق یا مخالفت میں ووٹ دوں گا، روس کے لوگ مجھے مشکوک نظروں سے دیکھیں گے" چنانچہ انھوں نے کمپنی کے چھوٹے چھوٹے ٹرسٹ بنائے اور اپنے تمام ادارے ان ٹرسٹوں کے حوالے کر دیئے اور خود ماسکو آ گئے۔
روس کی پارلیمنٹ نے 27 اپریل2013ء کو غیر ملکی اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کے خلاف قانون پاس کر دیا، اس قانون کی زد میں روس کے وہ تمام بزنس مین آ جاتے ہیں جن کے اکاؤنٹس غیرممالک میں ہیں، سلیمان کریموف کی کمپنیوں اور ٹرسٹوں کے اکاؤنٹس بھی یورپ اور امریکا میں موجود ہیں، سلیمان کریموف نے محسوس کیا لوگ بہت جلد ان اکاؤنٹس پر اعتراض کریں گے، سلیمان کریموف کے پاس اب دو آپشن تھے، یہ سینیٹر شپ سے مستعفی ہو جاتے اور واپس اپنے بزنس یا اداروں کی طرف چلے جاتے یا پھر یہ کاروبار اور اپنے اداروں کی قربانی دے دیتے، سلیمان کریموف نے دوسرا آپشن پسند کیا، انھوں نے 30 اپریل 2013ء کو اپنی ساری دولت، اپنے سارے اثاثے خیرات میں دے دیئے، سلیمان کریموف کے اس اعلان اور ایک دستخط کے بعد ان کے 7.1 بلین ڈالر چیرٹی میں چلے گئے، یہ اس اعلان کے بعد دنیا کے ان چند سیاستدانوں میں شمار ہو چکے ہیں جنھوں نے پارلیمنٹ کی نشست کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، سلیمان کریموف کے اس اعلان کے بعد پورا روس ان کی عزت کر رہا ہے، لوگ ان کے قدموں میں اپنی پلکیں بچھا رہے ہیں۔
میں جب سلیمان کریموف کی خبر پڑھ رہا تھا تو مجھے بے اختیار حضرت ابو بکر صدیقؓ کا زمانہ یاد آ گیا، حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلامی ریاست کے پہلے خلیفہ بننے سے قبل مدینہ منورہ میں کپڑے کا کاروبار کرتے تھے، آپؓ خلیفہ بنے تو آپؓ معمول کے مطابق اپنی دکان پر جانے لگے، حضرت عمر فاروقؓ نے دیکھا تو آپؓ نے ان سے پوچھا "آپ کہاں جا رہے ہیں " حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا "اپنی دکان پر" حضرت عمر فاروقؓ نے عرض کیا "یا امیر المومنین آپ کو یہ کاروبار اب بند کرنا ہو گا" حضرت ابو بکر صدیقؓ نے پوچھا " کیوں؟ " حضرت عمر فاروقؓ نے جواب دیا " شہر میں اگر خلیفہ کی دکان ہو گی تو لوگ دوسری دکانوں سے سودا نہیں خریدیں گے" حضرت ابوبکر صدیقؓ نقطہ سمجھ گئے چنانچہ آپ نے اسی وقت اپنا جما جمایا کاروبار بند کر دیا، یہ واقعہ تاریخ اسلام کی بے شمار کتابوں میں درج ہوا، 1500ء میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا، استنبول کے سقوط کے بعد آیا صوفیہ سے ہزاروں قلمی نسخے یورپ پہنچے، کتابیں شائع ہوئیں، ان کتابوں کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے اور ترجموں کے ذریعے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور فرسٹ لیڈی کا کھیر بنانے کا واقعہ یورپ تک پہنچا، حضرت عمر فاروقؓ کا دو چادروں اور شراب نوشی کے جرم میں اپنے بیٹے کو کوڑے مارنے کا واقعہ اور دنیا سے رخصتی کے وقت خلفاء راشدین کے اثاثوں کے واقعات یورپ تک پہنچے تو ان کی حکومتوں نے حکمرانوں کے اثاثوں اور احتساب پر کام شروع کر دیا، یورپ کے عوام کو حکمرانوں کے اختیارات کنٹرول کرنے اور انھیں احتساب کے کٹہرے میں لانے میں چار سو سال لگ گئے، پہلی جنگ عظیم اور اس کے بعد دوسری جنگ عظیم نے طے کر دیا۔
دنیا نے اگر تباہی سے بچنا ہے، معاشروں نے اگر ترقی کرنی ہے، سلطنتوں کو اگر امن چاہیے اور عوام نے اگر خوشحالی اور سکون کا ذائقہ چکھنا ہے تو پھر انھیں اپنے حکمرانوں کے گرد اصولوں، قاعدوں اور قوانین کا جنگلہ لگانا ہو گا، قوموں کو بہترین لوگوں کا انتخاب کرنا ہو گا، حکومتوں کو اختیارات کی نکیل معاشرے کے بہترین لوگوں کے ہاتھ میں دینی ہو گی اور پھر ان بہترین لوگوں کے اختیارات پر "چیک اینڈ بیلنس" رکھنا ہو گا چنانچہ یورپ اور اس کے بعد امریکا نے حکمرانوں کے لیے کڑے ضابطے اور قوانین بنا دیئے، یہ قوانین اور ضابطے اس وقت دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم میں موجود ہیں، مثلاً جرمنی میں اگر کوئی بزنس مین، کارخانے دار یا سرمایہ کار سیاست میں آتا ہے تو اسے پہلے اپنا کارخانہ، بزنس اور سرمایہ کاری کی فرم بند کرنا پڑتی ہے، جرمنی کے سسٹم کا خیال ہے اگر کاروباری شخص کاروبار کے ساتھ پارلیمنٹ میں آئے گا تو اس کی قانون سازی اس کے اپنے کاروبار کے اردگرد گھومے گی اور یوں ملک اور قوم کو نقصان ہو گا، آپ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا واقعہ ذہن میں رکھئے اور اس کے بعد سوچئے، کیا جرمنی کا یہ قانون حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سنت کے قریب نہیں؟ برطانیہ نے قانون بنایا اگر کوئی رکن اسمبلی جھوٹ بولے گا، یا اپنے اثاثے چھپائے گا یا پھر غلط انوائس کے ذریعے سرکاری خزانے سے رقم نکالے گا تو اسے سرکاری عہدہ اور پارٹی دونوں سے ہاتھ دھونا ہو گا چنانچہ آپ کو برطانیہ کی تاریخ میں ایسے بے شمار سیاستدان ملتے ہیں جنھوں نے سرکاری خزانے سے پانچ پونڈ نکالے، اپنے بچے یا بیوی کو سرکاری فنڈز سے شاپنگ کروائی یا پھر تھری اسٹار کی بجائے فور اسٹار ہوٹل میں ٹھہرے اور عہدے اور سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فارغ ہو گئے۔
آپ سوچئے کیا یہ حضرت عمر فاروق ؓ کی دو چادروں کے واقعے کے قریب نہیں، امریکا نے قانون بنایا ہمارے صدر کا فیصلہ ہمیشہ عوام کریں گے اور یہ صدر خواہ کتنا ہی عظیم اور شاندار کیوں نہ ہو یہ تیسری بار صدارتی الیکشن نہیں لڑ سکے گا، یہ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد کسی سرکاری عہدے پر بھی فائز نہیں ہو سکے گا اور یہ اگر صدر کی حیثیت سے کوئی بھی خلاف قانون حرکت کرے گا تو یہ صدر نکسن ہو یا بل کلنٹن یہ قانون کے کٹہرے میں کھڑا ہو گا، یہ وہ اصول یا ضابطے تھے جنھوں نے آگے چل کر ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ قوموں کے درمیان تقسیم کی لکیر کھینچی، آپ اگر ترقی یافتہ ہیں یا آپ ترقی یافتہ ہونا چاہتے ہیں تو پھر آپ کے حکمرانوں کو ان تمام اصولوں کا پابند ہونا پڑے گا جن کی بنیاد خلفاء راشدین نے رکھی تھی، پھر آپ کو خلیفہ بننے کے بعد اپنی دکان بند کرنا ہو گی، سیکیورٹی اور پروٹوکول کے بغیر فلسطین جانا ہو گا، آپ کو اپنے غلام کو اپنے برابر حقوق دینے ہوں گے، آپ کو اسے اونٹ پر بٹھا کر خود پیدل چلنا ہو گا، آپ کو شوربے میں سخت روٹی ڈال کر کھانی ہو گی اور آپ کو دھوپ میں سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سونا ہو گا۔
صدر اوبامہ کی طرح آپ کو گھسے ہوئے جوتے پہننا ہوں گے اور آپ کو اینجلا مرکل، ٹونی بلیئر اور گورڈن براؤن کی طرح عام بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرنا ہو گا اور کمرشل فلائٹس میں بیرون ملک جانا ہو گا، ترقی کے یہ اصول اور یہ ضابطے اس قدر مضبوط ہیں کہ 80 سال تک آہنی پردے کے پیچھے رہنے والا سوویت یونین بھی آج انھیں اپنانے پر مجبور ہے، آج روس کے ارب پتی سلیمان کریموف بھی دولت اور سینیٹر شپ میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہیں اور انھیں عوامی نمائندگی کے لیے اپنا کاروبار، اپنی دولت قربان کرنی پڑ جاتی ہے چنانچہ آپ فیصلہ کیجیے دنیا میں اگر حضرت ابوبکر صدیق ؓ جیسے عظیم انسان خلافت کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی دکان بند کر دیتے ہیں یا جرمنی کے بزنس مینوں کو عوامی نمائندگی اور بزنس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے یا برطانیہ کے سیاستدانوں کو اپنے اثاثے ڈکلیئر کرنا پڑتے ہیں اور اگر سیاست میں آنے کے بعد ان اثاثوں میں اضافہ ہو جائے تو انھیں احتساب کے کڑے عمل سے گزرنا پڑتا ہے، اگر امریکا کا مضبوط ترین صدر جوتے خریدنے سے قبل دس دس بار سوچتا ہے اور روس کے سینیٹر سلیمان کریموف کو سینیٹر شپ بچانے کے لیے اپنے 7.1 بلین ڈالر قربان کرنا پڑتے ہیں تو پھر ہم کرپٹ سیاستدانوں، کاروباری سیاسی قیادت اور تین تین سو کنال کے گھروں میں رہنے والے حکمرانوں کے ساتھ کیسے ترقی کریں گے؟ ذرا سوچئے!
آپ 2013ء کے الیکشن کو دیکھ لیجیے، کیا ہمارے الیکشن کمیشن نے کسی ایک بھی امیدوار کو کرپشن کے الزام میں "ڈس کوالی فائی" کیا؟ اور کیا کسی ایک سیاستدان کو اس کی سابق کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن لڑنے سے روکا گیا؟ پاکستان میں سیاست کھلا کاروبار ہے، پارٹیاں دو سے پانچ کروڑ روپے لے کر امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہیں، کاروباری، سرمایہ دار اور جاگیردار پیسے کے زور پر سیاست میں آتے ہیں اور الیکشن جیت جاتے ہیں اور پارلیمنٹ میں بیٹھ کر پورے سسٹم سے اپنے جوتے صاف کرتے ہیں اور کوئی شخص اور کوئی ادارہ ان کا راستہ نہیں روک سکتا، ہماری سپریم کورٹ، ہمارا میڈیا پانچ سال کی مسلسل کوشش کے باوجود حج سکینڈل، این آئی سی ایل اور اسٹیل ملز کرپشن کے کسی ایک مجرم کو سزا نہیں دلوا سکا اور یہ کرپشن کے میگا سکینڈلز میں ملوث کسی ایک شخص کو الیکشن سے نہیں روک سکا مگر ہم اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ کا رونا روتے ہیں، ہم مہنگائی، بے روزگاری، خانہ جنگی، دہشت گردی اور لاقانونیت پر دہائی دیتے ہیں، ہم نے کبھی سوچا ہم جب خود تربوزوں کے ڈھیر پر گیدڑ بٹھائیں گے، شہد کے چھتے ریچھوں کے رحم و کرم پر چھوڑیں گے یا وضو کے لوٹے میں نالی کا پانی ڈال دیں گے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ میں ہمیشہ سوچتا ہوں، ہم حالات کا شکوہ کیوں کرتے ہیں؟ فالٹ لائین پر گھر بنانے والوں کو زلزلوں کے جھٹکوں کی شکایت نہیں کرنی چاہیے اور چوروں کے محلے میں دکان کھولنے والوں کو لٹنے کی ایف آئی آر نہیں کٹوانی چاہیے، آپ اگر ظالموں کو اپنا حکمران بناتے ہیں تو پھر آپ اپنی کمر بھی ننگی رکھیں، آپ کوڑے سہنے اور کوڑے برداشت کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں، کم از کم چیخنا تو بند کریں۔