آپ اگر امریکہ کے دوست ہیں
ہنری کسنجر امریکا کے مشہور سفارتی دانشور ہیں، یہ رچرڈ نکسن کے دور میں امریکا کے وزیر خارجہ تھے، ہنری کسنجر نے 1970ء میں جنرل یحییٰ خان کے ساتھ مل کر امریکا اور چین کی دوریاں ختم کیں، یہ 20 جنوری1977ء تک امریکا کے وزیر خارجہ رہے، ذوالفقار علی بھٹو کو گورنر ہاؤس لاہور میں " ہم تمہیں بدترین مثال بنا دیں گے" کی دھمکی بھی ہنری کسنجر ہی نے دی تھی، ہنری کسنجر تاریخ میں متنازعہ رہنے کے باوجود ایک ایماندار اور جرأت مند سفارت کار ہیں۔
بھارت نے 11 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کیے جن کے بعد پاکستان کی باری تھی، مئی 1998ء میں پاکستان کے ایک سفارت کار ہنری کسنجر سے ملاقات کے لیے گئے اور ان سے پوچھا " پاکستان کو کیا کرنا چاہیے" ہنری کسنجر نے فوراً جواب دیا " آپ لوگوں کو ایٹمی دھماکہ کرنا چاہیے" میں کہانی آگے بڑھانے سے قبل آپ کو یہ بتاتا چلوں، ہنری کسنجر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے شدید مخالف تھے اور یہ اس مخالفت میں اس قدر آگے چلے گئے تھے کہ انھوں نے ایٹمی پروگرام رول بیک نہ کرنے پر ذوالفقار علی بھٹو کو "بدترین مثال" بنانے کی دھمکی دے دی تھی لیکن جب رائے مانگی گئی تو انھوں نے ایماندارانہ رائے دی، انھوں نے کہا" پاکستان کو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد خود کو ایٹمی قوت ڈکلیئر کرنا چاہیے" پاکستانی سفارتکار نے جواب میں کہا " لیکن اس کے نتیجے میں امریکا پاکستان کا دشمن بن جائے گا" ہنری کسنجر نے اس جواب کے جواب میں اپنی تاریخی بات دُہرائی، انھوں نے کہا " آپ اگر امریکا کے دشمن ہیں تو آپ خطرے میں ہیں لیکن آپ اگر اس کے دوست ہیں تو پھر آپ انتہائی خطرے میں ہیں "۔
ہنری کسنجر کے یہ الفاظ امریکا کی فارن پالیسی ہے، آپ اگر امریکا کے دشمن ہیں تو آپ کیوبا کی طرح بچ جائیں گے لیکن آپ اگر امریکا کے دوست ہیں تو پھر آپ اس سے بچ نہیں سکیں گے اور جمعہ یکم نومبر کے دن ہمارے ساتھ یہی ہوا، ہم نے ایک بار پھر امریکی دوستی کا تاوان ادا کیا، میاں نواز شریف 23 اکتوبر کو صدر بارک حسین اوبامہ سے ملے، حکومت اس ملاقات کے بعد ڈرون حملوں کے بارے میں ضرورت سے زیادہ پرامید ہو گئی، حکومت کا خیال تھا امریکا اب اس وقت تک ڈورن حملہ نہیں کرے گا جب تک حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے، یہ مذاکرات پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکا کے لیے بھی انتہائی اہم ہیں۔
امریکا نے 2014ء میں افغانستان سے نکلنا ہے، یہ واپسی کے دوران پاکستان کے راستے پانچ لاکھ کنٹینر لے جائے گا اور یہ کنٹینر اسی وقت پاکستان سے گزر سکتے ہیں جب طالبان اور حکومت کے درمیان مضبوط امن معاہدہ ہو، ہماری حکومت کا خیال تھا امریکا اپنی اس مجبوری کا احساس کرے گا اور یوں مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے، حکیم اللہ محسود پاکستان کے لیے اہم ترین شخص تھا، طالبان کے 69 گروپ یا دھڑے ہیں، ان میں سے 25 اہم اور بڑے گروپ ہیں، یہ تمام گروپ حکیم اللہ محسود کا احترام بھی کرتے تھے اور اس کی قیادت کو بھی تسلیم کرتے تھے چنانچہ حکومت صرف ایک شخص سے مذاکرات اور ایک ہی شخص سے معاہدہ کرتی مگر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان دھڑوں میں تقسیم ہو گئی اور حکومت اگر اب مذاکرات کرتی ہے تو اسے سوسے زائد طالبان لیڈروں سے رابطہ کرنا پڑے گا اور یہ اتنے ہی معاہدے کرے گی، امریکا نے پاکستان کی مجبوری اور درخواست دونوں کو درخور اعتناء نہ سمجھا اور حکیم اللہ محسود کو اس وقت قتل کر دیا جب وہ حکومت پاکستان کی پناہ میں آ چکا تھا اور مذاکرات کا عمل بس شروع ہوا چاہتا تھا، یہ قتل محض ایک قتل نہیں، یہ پاکستان اور طالبان کے درمیان اعلان جنگ ہے اور اب پاکستان کو خود کو بچانے کے لیے طالبان سے لڑنا ہو گا اور اس لڑائی میں ریاست کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔
ہماری ریاست کو اب لڑنے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے مگر ہمیں اس لڑائی سے پہلے قوم کے سامنے سچ بولنا چاہیے، ہمیں کم از کم اس لڑائی کی بنیاد سچائی پر رکھنی چاہیے، ہمیں سب سے پہلے یہ ماننا چاہیے پاکستان نے امریکا کے ساتھ ڈرون کا معاہدہ کیا تھا، یہ معاہدہ 2004ء میں ہوا تھا، اس کی فائل آج بھی وزارت دفاع میں موجود ہے، پاکستان کی چار شخصیات یہ فائل دیکھ چکی ہیں، آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی جنرل احمد شجاع پاشا، امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی، شیری رحمن اور ماضی میں دفتر خارجہ کے امریکا ڈیسک کے انچارج۔ یہ صاحب آج کل سینٹرل ایشیا کے کسی ملک میں سفیر ہیں، یہ فائل جس عہدیدار کو بھی دکھائی گئی اس سے گارنٹی لی گئی، وہ اس کی فوٹو کاپی بنائے گا اور نہ ہی اس کی تصویر۔ یہ فائل آخری بار شیری رحمن کو دکھائی گئی تھی، اس فائل میں وہ معاہدہ موجود تھا پاکستان نے جس کے تحت امریکی ڈرون کو پاکستان میں پارک ہونے اور اڑنے کی اجازت دی لیکن یہ بھی حقیقت ہے ہماری سیاسی قیادت وزارت دفاع یا دفتر خارجہ سے جب بھی ڈرون کی اجازت کے بارے میں پوچھتی ہے، اسے یہ جواب دیا جاتا ہے " ہمارا امریکا کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں " اورہماری سیاسی قیادت اسے سچ مان لیتی ہے۔
یہ لوگ جب امریکی قیادت کے سامنے بیٹھتے ہیں تو امریکی قیادت معاہدے کی بات کر کے ہمارے لیڈروں کو پریشان کر دیتی ہے، ڈرون کے بارے میں مشکوک کردار حسین حقانی نے بھی ادا کیا، حسین حقانی 13 اپریل 2008ء کو امریکا میں پاکستان کے سفیر بنے، یہ اس وقت تک ایک " غریب پاکستانی" تھے، ان کے پاس اس وقت ڈھنگ کا سوٹ تک نہیں تھا، آصف علی زرداری نے اپنے اکاؤنٹ سے اسے دس سوٹ لے کر دیے، یوں حسین حقانی کو امداد میں دس سوٹ ملے، ان کی اہلیہ فرح نازکی اصفہانی فیملی کبھی ملک کے امیر ترین خاندانوں میں شمار ہوتی تھی مگر اب اس کی وہ حیثیت نہیں ہے۔ فرح ناز اصفہانی پانچ برسوں میں جب بھی کراچی جاتی تھیں، یہ اپنی دوستوں کے گھر میں رہتی تھیں مگر حسین حقانی نے اب واشنگٹن کے انتہائی مہنگے علاقے میں گھر خریدلیا، یہ گھر کس کے پیسے سے خریدا گیا؟ لوگ اسے ڈرون حملوں سے جوڑتے ہیں کیونکہ ہمارے سفیر امریکا میں پاکستان کی نمایندگی کرنے کے بجائے پاکستان میں امریکا کی وکالت کرتے تھے۔
امریکی حکومت پاکستانی سفارت خانے کے سیکرٹ فنڈ کے بارے میں بھی تحقیقات کر رہی ہے، امریکی حکومت کو شک ہے پاکستانی سفیر کو ہر سال دو ملین ڈالر کا سیکرٹ فنڈ ملتا تھا۔ مجھے دفتر خارجہ کے ایک صاحب نے بتایا یہ فنڈ شیری رحمن نے سفیر بننے کے بعد ختم کیا، یہ فنڈ اگر موجود تھا تو اس کا حساب کون لے گا، حسین حقانی سے یہ کون پوچھے گا یہ ڈرون پالیسی پر قوم سے ساڑھے تین سال جھوٹ کیوں بولتے رہے اور یہ امریکا میں کس کی نمایندگی کرتے رہے، ہمیں جنگ سے قبل قوم کو ڈرون معاہدے کے بارے میں اعتماد میں لینا ہو گا اور معاہدہ کرنے والوں کو بھی قوم کے سامنے پیش کرنا ہوگا، ہمیں امریکا کی دوستی سے بھی اب نکلنا ہوگا کیونکہ ہم نے 65 برس کی دوستی میں امریکا سے کچھ حاصل نہیں کیا، یہ اب ثابت ہو چکا ہے، ہم نے کولڈ وار سے لے کر دہشت گردی کی جنگ تک صرف امریکا کی غلامی کی اور غلامی میں روٹی کے ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں ملا کرتا اور ہمیں یہ بھی نہیں ملے، ہمیں قوم کو یہ بھی بتانا ہوگا امریکا نے جون 2004ء میں نیک محمد اور یکم نومبر کو حکیم اللہ محسود پر حملہ کرکے پاکستان کو اس جنگ میں دھکیل دیا ہم جس سے بچنا چاہتے تھے، جون 2004ء میں نیک محمد کی ہلاکت کے بعد طالبان نے ملک میں خود کش حملے شروع کر دیے اور حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ہم حالت جنگ میں چلے جائیں گے اور شاید امریکا کا منصوبہ ہو، یہ ہمیں طالبان کے خلاف کرائے کا سپاہی بنانا چاہتا ہو تاکہ یہ اپنی فوجیں نکال کر لے جائے اور ہم پاکستان اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ لڑتے رہیں، ہمیں قوم کو اس سازش کے بارے میں بھی اعتماد میں لینا ہو گا، ورنہ دوسری صورت میں یہ جنگ بھی دھوکہ ہو گی اور دھوکوں کی بنیادوں پر لڑی جانے والی جنگیں ہمیشہ خسارے کا سودا ثابت ہوتی ہیں۔
ہمیں اب امریکا سے دوستی کا نیا چارٹر بھی سائن کرنا چاہیے، وہ چارٹر جس میں جلی حروف سے لکھا ہو، آپ اگر امریکا کے دشمن ہیں تو آپ بچ جائیں گے لیکن آپ اگر اس کا دوست بننے کی غلطی کربیٹھے تو پھر آپ اس کے ہاتھوں سے بچ نہیں سکیں گے، تاریخ کا قبرستان آپ کا مقدر ہو گا"۔