متحدہ مسلم لیگ۔مینڈکوں کی پنسیری
لاہور کے اخبار نویس میجر(ر) رشید وڑائچ سے بخوبی واقف ہیں، وہی میجر(رشید) جنہوں نے اپنے گھر کے باہر "مٹ جائیگی مخلوق تو انصاف کرو گے" کا جہازی سائن بورڈ آویزاں کر کے سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کو نواز شریف حکومت کے خاتمے کی ترغیب دی، زندگی نے جنرل آصف نواز سے وفا نہ کی تو میجر (ر) رشید مرحوم کی یہ خواہش 1993ء میں غلام اسحق خان نے پوری کی، میجر صاحب مزے کے آدمی تھے۔ انہوں نے ایک جماعت بھی بنا رکھی تھی، حزب اللہ، جس کے خود چیئرمین، صدر، سیکرٹری جنرل کرتا دھرتا سب کچھ تھے، ہمارے ایک دوست میجر(ر) عارف نے میجر رشید سے درخواست کی کہ وہ انہیں اپنی جماعت میں شامل کر لیں وہ ایک ایک نہ رہیں دو گیارہ ہو جائیں مگر وڑائچ نے انکار کر دیا، وجہ یہ بتائی کہ اب میں جماعت کو سنبھالتا ہوں پھر تمہیں بھی سنبھالنا پڑے گا، نہ بابا نہ۔
مسلم لیگیوں کے اتحاد کی درفنطنی پڑھ کر مجھے میجر رشید مرحوم یاد آئے، پاکستان میں مسلم لیگ واحد جماعت ہے جو ہمیشہ حصوں بخروں میں بٹتی اور اس کا کوئی نہ کوئی دھڑا اقتدار میں شریک ہوتاہے، مسلم لیگ کی نقل میں پیپلز پارٹی کے کچھ سیانوں نے بھی دھڑے بندی اور اقتدار کا لطف اٹھانا چاہا، چند ایک کامیاب بھی ہوئے لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی، پاکستان میں 1958ء سے لے کر آج تک مسلم لیگ کسی نہ کسی انداز میں اقتدار کا حصہ ہی ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے سیاسی جماعت کے طور پر مسلم لیگ کو پسند کیا جس کے ساتھ کنونشن کا لاحقہ لگا تھا، ذوالفقار علی بھٹو بلا شرکت غیرے اقتدار میں آئے مگر پھر انہیں خان عبدالولی خان کی نیپ کے مقابلے میں مسلم لیگ (قیوم گروپ) کے تعاون کی ضرورت پیش آئی اور خان عبدالقیوم خان کو وزیر داخلہ کا اہم منصب سونپا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے منظور نظر وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو بھی مسلم لیگ نے اپنا کندھا پیش کیا جبکہ میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کے نام کی سیاسی جماعت کو اپنے لئے پسند کیا ورنہ سیاست میں داخل وہ تحریک استقلال کی گلی سے ہوئے۔ پاکستان میں 1988ء کے بعد دو جماعتی سیاست کا آغاز ہوا تو میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے مدمقابل پیپلز پارٹی کو بھی کسی نہ کسی مسلم لیگی دھڑے کی اشیر باد حاصل رہی، نام اس کا کبھی جونیجو گروپ تھا، کبھی وٹو گروپ اور گاہے مسلم لیگ (ق)۔
مسلم لیگ بنانا یہاں سب سے آسان ہے، اقتدار میں اگر کوئی فوجی آمر ہو تو مسلم لیگوں کو متحد کرنا بھی بائیں ہاتھ کا کھیل، لیکن اسے سنبھالنا سب سے زیادہ مشکل، یہ مینڈکوں کی پنسیری ہے۔ ایک مسلم لیگ کو قابو کرو تو دوسری پھسل جاتی ہے دوسری پر ہاتھ رکھو تو تیسری غائب، متحدہ مسلم لیگ کا خواب ہمیشہ فوجی آمریت کے دور میں کچھ عرصے کے لئے شرمندہ تعبیر ہوا، کہ سب مسلم لیگیوں کو اقتدار میں حصہ رسدی مل جاتا ہے جبکہ سویلین دور میں کوئی نہ کوئی محرومی کا شکار ہو کر اپنا الگ تشخص بحال کرنے پر مجبور۔ چند دن پہلے مائنس ون فارمولے کی گونج سنائی دی پھر وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کی رخصتی کا ڈنکا بجا اور آخر میں مسلم لیگوں کے اتحاد کی درفنطنی چھوڑی گئی مقصد ان ساری افواہوں، قیاس آرائیوں، تجزیہ نما خواہشات کا ایک ہی تھا، عمران خان کی ایوان اقتدار سے رخصتی اور کسی ایسے شخص کی بطور وزیر اعظم سہرا بندی جو پیامن بھائے۔ مائنس ون غبارے سے ہوا عمران خان نے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران نکال دی، وسیم اکرم پلس کی رخصتی کی خبر سے اگرچہ تحریک انصاف کا نظریاتی حلقہ بھی خورسند ہے مگر عمران خان نے لاہور پہنچ کر وزیر اعلیٰ کو تھپکی دی اور اعتماد سے کام جاری رکھنے کا کہا جس کا مطلب ہے کہ بزدار کا کلّہ فی الحال مضبوط ہے اور اسے تاحکم ثانی کوئی خطرہ نہیں، رہ سہ کر مسلم لیگوں کا اتحاد اور تحریک انصاف میں بغاوت سے ہی مخالفین امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی یا زیادہ درست الفاظ میں شریف خاندان اور زرداری گروپ کو فائدہ؟
مسلم لیگ (ن) کس کی قیادت میں متحد ہوگی؟ اور یہ متحدہ مسلم لیگ جسے میاں نواز شریف یا مریم نواز جیسی پرعزم قیادت دستیاب ہو نہ جس کی عوام میں کوئی ساکھ مائنس ون سے پیدا ہونے والے خلا کو کیسے پر کرے گی؟ یہ ملین ڈالر سوال ہے جس کا جواب تلاش کئے بغیر کسی کی خواہش پوری ہو سکتی ہے نہ اتحاد کا کوئی مقصد نظر آتا ہے، مسلم لیگ کو کوئی طاقتور قوت ہی متحد کر سکتی ہے لیکن کسی مسلم لیگی یا تحریک انصاف کے باغی شخص کو اقتدار میں لانے کے لئے یہ طاقتور قوت کوئلوں کی دلالی پر آمادہ کیوں ہو گی؟ یہ پہلے سے جڑا مزید سوال ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے چاہا تو پیر صاحب پگارا جیسا شخص بھی صدارت سے دستبردار ہو گیا اور جنرل پرویز مشرف نے اشارہ کیا تو پیر صاحب پگاڑا نے مسلم لیگ کی باگ ڈور پہلے میاں اظہر پھر میر ظفر اللہ جمالی اور آخر میں چودھری شجاعت حسین کے ہاتھ میں تھما دی، سردار فاروق لغاری اپنی ملت پارٹی سے دستبردار ہو گئے اور ہم خیال گروپ، چٹھہ گروپ وغیرہ وغیرہ سب نے اپنی الگ شناخت ختم کر دی ؎
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
اب بھی اگر موجودہ سیاسی یا جمہوری ڈھانچے کی جگہ کوئی طاقتور قوت ریاستی معاملات کی باگ ڈور سنبھالنے کا ارادہ رکھتی ہے تو مائنس ون ممکن ہے اور متحدہ مسلم لیگ کا قیام آسان۔ کہ یہ وہ سیای جماعت ہے جو عروس ہزار داماد کی شہرت رکھتی ہے۔ کسی فیلڈ مارشل، چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر اور چیف ایگزیکٹو کے اقتدار کو سیاسی دوام بخشنے کے لئے مسلم لیگوں کا اتحاد خارج از امکان ہے نہ بعید از قیاس کہ یہ پہلے بھی کئی بار ہو چکا لیکن کسی متحدہ مسلم لیگ کے زیر سایہ سویلین حکومت کا قیام؟ ع
ایں خیال است و محال است و جنوں
کنونشن لیگ، جونیجو کی سربراہی میں متحدہ مسلم لیگ اور مسلم لیگ (قائد اعظم) کے سر پر جب تک ایوب خاں، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کا صدارتی دست شفقت رہا یہ طاقتور سیاسی جماعتیں رہیں۔ طرم خان سیاستدان اور الیکٹ ایبلز ان کی رکنیت پر فخر کرتے تھے مگر جونہی یہ دست شفقت سے محروم ہوئیں سارا تھام جھام قصۂ ماضی بن گیا۔ ؎
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات
نکلی بیرون شہر تو بارش نے آ لیا
میاں شہباز شریف، چودھری پرویز الٰہی، شاہد خاقان عباسی اور کسی دوسرے سویلین کی سربراہی میں متحدہ مسلم لیگ کا قیام ایک خواب ہے جسے کوئی طاقتور قوت ہی تشنۂ تعبیر کر سکتی ہے کسی دوسرے کے لئے نہیں اپنے لئے؟ لیکن کسی طاقتور قوت کو مسلم لیگ کے شاخ نازک پہ آشیانہ بنانے کی ضرورت کیاہے؟ مینڈکوں کی پنسیری تولنے کا مزہ نہ سواد، بقول میجر(ر) رشید وڑائچ وہ مسلم لیگ کو سنبھالے گی یا ایوان اقتدار کو۔ ؎
تھا خواب کو خیال میں تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا