’’باشعور عوام‘‘ ’’دور اندیش حکمران‘‘
کورونا نے اس کلشیے کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا ہے کہ اس ملک کے عوام تو ماشاء اللہ بہت اچھے ہیں، باشعور، دیانتدار، خدا ترس، جفاکش اور ایثار پیشہ بس اسے ڈھنگ کا رہنما اور حکمران نہیں ملاجو اسے کندن بنا پاتا۔ عمران خان کے بارے میں اپوزیشن اور جو بھی کہے، اب تک اس پر کرپشن کا الزام لگا سکی ہے نہ اقربا پروری کا مرتکب قرار دینے کے قابل، کورونا نے پوری دنیا کو دن میں تارے دکھائے اور ہر عام و خاص کو جتلایا کہ اس کے سامنے طاقتور و کمزور، امیر و غریب سب برابر ہیں، ایسی وبا جس نے ہر ملک و قوم کو متاثر کیا، عمران خان بھی ہمارے سیاستدانوں اور دانشوروں کے اس گمراہ کن پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے یا شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر میں حصہ ڈالنے والے اہل خیر کو ہی اکیس کروڑ "باشعور عوام" کا حقیقی نمائندہ سمجھ بیٹھے اور یہ فرض کر لیا کہ اقتدار میں آتے ہی جب میں ان سے پورا ٹیکس دینے کی اپیل کروں گا تو یہ ایف بی آر اور ٹیکس وصولی کے ذمہ دار دیگر محکموں کے کرپٹ افسروں کی ترغیبات کو ٹھوکر مار کر آٹھ ہزار ارب روپے کے ٹیکس جمع کرا دیں گے۔ قومی جذبے سے سرشار بیورو کریسی دیانتداری اور فرض شناسی کے ریکارڈ قائم کرے گی اور عوامی نمائندے ذاتی و خاندانی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر خدمت خلق میں جت جائیں گے، موصوف اس خوش فہمی کا شکار بھی ہوئے کہ ان کے وزیر، مشیر اور ترجمان انہیں سچ بتائیں گے اور خوشامد، چاپلوسی کی وہ عادت نہیں اپنائیں گے جو سابقہ حکمرانوں کے درباریوں کا شیوہ تھا۔
کورونا کی وبا اب بُری طرح پھیل چکی ہے، متاثرین کی تعداد ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اندازوں سے کہیں زیادہ بڑھنے کا امکان ہے اور لاہور و کراچی اس وبا کے مراکز ہیں ابتدائی تین چار ہفتے کا لاک ڈائون محض گناہ بے لذت، ثابت ہوا کہ یہ تین چار روز سے زیادہ موثر تھا نہ مفید، وزیر اعظم، وزراء اور وزراء اعلیٰ نے ان دنوں خود ماسک پہننے کی زحمت کی نہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے پر توجہ دی، عوام سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وہ ایس او پیز کی پابندی کریں، رہنما اور حکمران جب روزانہ انہیں بغیر ماسک کے ایک دوسرے سے جڑے بیٹھے رخ روشن دکھائیں تو کسی اور سے پابندی کی توقع عبث ہے۔ ایس او پیز پر پابندی کرانے والی پولیس و انتظامیہ کو یہ ہدایات بھی جاری ہوئیں کہ وہ قانون شکن اور کورونا جیسی مہلک بیماری دوسروں کو منتقل کرنے والے سنگدل افراد کو گرفتار کریں نہ جرمانہ کہ یہ ملک کے آزاد شہریوں کی توہین ہے۔ سب سے بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ گراں فروش، ذخیرہ اندوز، سمگلر اور عوام دشمن عناصر کو سرجیکل آلات اور ادویات کی من مانی قیمتیں وصول کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی۔ چنانچہ وہ دن اور آج کا دن یہ بدبخت گروہ رزق حلال کمانے والے شہریوں کی جیبیں کاٹنے میں مشغول ہے اور پولیس ان سے باز پرس پر تیار ہے نہ انتظامیہ اور نہ حکومت۔
کورونا کی تشریف آوری سے پہلے عام ماسک کا جو ڈبہ ڈیڑھ دو سو روپے میں بآسانی دستیاب تھا اب چھ سو روپے سے ایک ہزار روپے تک بمشکل میسر ہے۔ مارچ اپریل میں یہ پندرہ سو روپے میں بکا۔ این 95ماسک کی قیمت ڈیڑھ دو سو روپے تھی اب ماشاء اللہ دو ہزار سے پچیس سو، بارہ سو روپے کا اوکسی میٹر اب آٹھ سے دس ہزار روپے میں مل جائے تو غنیمت ہے۔ ایکٹمراانجکشن کی اصل قیمت پندرہ ہزار روپے ہے مگر یار لوگ کورونا کے جان لیوا مریضوں سے پانچ لاکھ روپے وصول کر کے اپنی دنیا اور عاقبت سنوار رہے ہیں، جو لوگ کورونا کے مرض سے صحت یاب ہوئے انہیں اس کی ہلاکت آفرینی اور تکلیف کا اندازہ ہے پلازمہ کے ذریعے علاج شروع ہواتو توقع تھی کہ صحتیاب ہونے والے کم و بیش پچاس ہزار مریضوں میں سے نصف پلازمہ کا عطیہ دے کر باقی ماندہ مریضوں کی جان بچائیں گے۔ 92 نیوز نے آگہی مہم کا آغاز کیا کہ صحتیابی کا شکرانہ ادا کرنے کے لئے لوگ آگے بڑھیں مگر بمشکل چند درجن خوش نصیب ابھی تک سامنے آئے ہیں۔ البتہ مارکیٹ میں پلازمہ کی ایک بوتل ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ میں بکنے کی اطلاعات گشت کر رہی ہیں، گویا موت کے منہ سے نکل کر نئے سرے سے صحت مند زندگی گزارنے والوں نے اسے بھی کاروبار بنا دیا ہے۔ آکسیجن سلنڈر مارکیٹ سے غائب ہیں اور بلیک مارکیٹ میں بارہ تیرہ ہزار کا سلنڈر اٹھائیس انتیس ہزار میں ملتا ہے۔
بلا شبہ پوری قوم ایسی نہیں، کورونا کے ہنگام غریبوں میں راشن، ماسک اور سینی ٹائیزر بانٹنے والے بھی اس قوم کا حصہ ہیں لیکن ان کی تعداد کتنی ہے؟ حکومت اور طبی ماہرین کے تشکیل کردہ ایس او پیز پر عمل کرنے والوں کے برابر یا تھوڑی سی زیادہ۔ باقی وہی ہیں جو دفتروں، مارکیٹوں، گلی محلوں میں دریا دلی سے کورونا پھیلا نے اور اشیائے ضرورت حتیٰ کہ جان بچانے والی ادویات کئی گنا مہنگے داموں بیچ کر عمران خان، حکومت اور طبی ماہرین کا مُنہ چڑانے میں مگن۔ انہی کے طفیل گندم کی تازہ فصل آنے کے بعد آٹا مہنگا ہوا، پٹرول دوگنا قیمت پر بکا اور یہی "باشعور عوام" دس روپے کی چیز چالیس پچاس روپے میں بیچتے ہوئے کمال ڈھٹائی بلکہ بے شرمی وبے حیائی سے عمران خان کو گالیاں دیتے ہیں لیکن ساری غلطی عوام کی نہیں، انہیں برسوں بلکہ عشروں تک دوسروں کی حق تلفی، کام چوری، ناجائز منافع خوری، گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی اور جیب تراشی کی ترغیب دینے والے قائدین محترم بھی برابر کے مجرم ہیں، عمران خان کا قصور یہ ہے کہ وہ گمراہ کن پروپیگنڈے کا شکار ہوا یا اس نے بداخلاقی بحران کی شدت اور سنگینی کو سمجھنے میں غلطی کی اس کے نالائق وزراء اعلیٰ، وزیروں، مشیروں اور مقرر کردہ بیورو کریٹس بھی بری الذمہ نہیں جو آٹے، چینی، پٹرول کی قلت و مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہے اور سرجیکل ماسک، اوکسی میٹر، آکسیجن سلنڈر تو درکنار سنا مکی اور کلونجی کی کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کو بھی نہ روک پائے۔ رٹ آف گورنمنٹ کو اگر معمولی دکاندار، پنساری اور میڈیکل سٹور روندنے لگیں تو کہاں کی ریاست اور کون سی حکمرانی۔ عمران خان اس وفاقی اور صوبائی ٹیم کے ساتھ اگر کامرانی کے جھنڈے گاڑنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے مگر یہ دیوانے کا خواب نظر آتا ہے جو کبھی تشنہ تعبیر ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔
1965ء میں آٹے کی قیمت میں چند آنے اضافے کی اطلاع ملی تو گورنر ملک امیر محمد خان نے تاجروں کو طلب کیا، مونچھوں کو تائو دیا اور کہا "کل سے آٹا مہنگا بکے گا نہ بازار سے غائب ہو گا" اسی شام آٹا سابقہ قیمت پر دستیاب تھا اور جنگ ختم ہونے تک رہا اب مگر یہ تاجروں کی مرضی ہے وہ کون سی چیز کس قیمت پر بیچیں، حکومت صرف اپیل کرتی ہے یا دھمکی دیتی ہے، جس کی پروا کسی مافیا کو نہ ان کے ہاتھوں لٹنے اور کورونا فیاضی سے بانٹنے والے باشعور عوام کو۔ حکمران مبلغ ہوتے ہیں نہ بے بس و لاچار، جب مافیاز انہیں مبلغ اور بے بس سمجھنے لگیں تو ریاست کا مقدر تباہی! کیا حکمرانوں کو احساس ہے وہ اپنی ہومیو پیتھک تقریروں اور عاجزانہ اپیلوں سے ریاست کا رعب و دبدبہ اور تسلط وتحکم تحلیل کر رہے ہیں، لوگ ایس او پیز پر عمل کرنے کو تیار ہیں نہ گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کی عادت ترک کرنے پر آمادہ۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اور "ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا" کے مقولے کا ورد کرنے والوں سے رعائت شریف و قانون پسند شہریوں کے جان و مال کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف۔