اس وقت بھی؟
ملک ایک بارہ سنگھا بن چکا، سارے سینگ جس کے جھاڑیوں میں پھنسے ہیں، اس پر بھی یہ عالم؟ بدپرہیزی اچھے بھلے صحت مند آدمی کو برباد کر سکتی ہے مریض اپنی مرضی منوانے پہ اگر تل جائے؟
حکومت اور حزب ِ مخالف کی کشمکش قابلِ فہم ہے۔ غلبے کی جبلت ایسی ہی طاقت ور ہوتی ہے۔ عدلیہ پہ ناگوار بحث بھی سمجھ میں آتی ہے۔ ایک وفاقی وزیر اور صوبائی حکومت میں جاری بے سرو پا مباحثے کا مطلب کیا ہے؟ آخر میں اس کے سوا کیا ہوگا کہ وزیر اعظم دونوں کو ڈانٹ پلائیں۔
سڈنی سے اطلاع یہ ہے کہ فوجی افسروں کے بارے میں ایک خبر کے افشا پر سخت کاروائی کی گئی۔ ایک مشہور اور ممتاز ٹی وی نیٹ ورک کے دفاتر پہ چھاپے مارے گئے۔ آسٹریلیا کے چند فوجی افغانستان میں من مانی کے مرتکب ہوئے، چنانچہ احتساب لازم ہے، مگرملک اور فوج کو رسوا کرنے کی اجازت کوئی حکومت نہیں دے سکتی۔ پشتو محاورے کے مطابق جنگ میں گڑ نہیں بانٹا جاتا۔ مگر یہ بھی نہیں کہ لشکر کو کھلی چھٹی دے دی جائے۔
کہا جاتا ہے جبراً نمک کی ایک ڈلی ہتھیانے پر نوشیروان عادل نے سپاہی کو سخت سزا دی اس نے یہ کہا تھا :ایسے میں صرف ِ نظر لوٹ مار پر منتج ہوتی ہے۔ قسطنطنیہ سے آسٹریا جاتے ہوئے، سلطان سلیم کے سپاہی نے کھیت میں سے شلجم اکھاڑ لیا۔ ڈسپلن کی اس چھوٹی سی خلاف ورزی پہ وہ برہم ہوا۔ ہیرالڈ لیم نے لکھا ہے کہ بادشاہ نے اس کے لئے پھانسی کی سزا تجویز کی۔
اپنے عصر سے ہم سیکھتے ہیں۔ بہت کچھ تاریخی تجربات سے ہم اخذ کرتے ہیں۔ ہدایت کا سب سے بڑا منبع اللہ کے آخری رسولؐ اور ان پر نازل ہونے والی کتاب ہے۔ جنگ ِ بدر کے ہنگام بلندی پہ سیدنا بلالؓ کھڑے ہوئے اور اعلان کیا :درخت نہیں کاٹا جائے گا، فصل نہیں جلائی جائے گی، بچے بوڑھے اور عورتوں کو امان ہے، کھیت اور کارخانے میں کام کرتے کسان اور مزدور کو بھی۔
حکمرانی میں ہزاروں برس کے تجربے سے بہت کچھ آدمیت نے سیکھا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسانی صلاحیت آزادی میں بروئے کارآتی ہے۔ آزادی کی مگر حدود و قیود ہوتی ہیں۔ آزادی کے ساتھ ڈسپلن اور ڈسپلن کے ساتھ آزادی۔ جبر میں امکانات محدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔ قانون کی حدود میں حریت آدمی کا حق ہے۔ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ نے اپنے گورنر سے کہا تھا : لوگوں کو ان کی مائوں نے آزاد جنا تھا، تم کب سے انہیں غلام بنانے لگے۔
طے کردہ قوانین اور مسلّمہ اخلاقی اصولوں کی روشنی میں، معاشرہ جن پر متفق ہو، آدمی کچھ بھی کرتا پھرے۔ فساد اور انتشار اگر نہ پھیلائے، دوسروں کے حقوق مجروح نہ کرے تو ریاست کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ جہاں وہ قانون توڑے، حکومت کو حرکت میں آنا چاہئے۔ کبھی ادنیٰ سزا ہی کافی ہوتی ہے، کبھی سختی ناگزیر۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے اْس وقت قانون کا اندھا ہونا چاہئے۔ رتی برابر رو رعایت بھی نہیں وگرنہ طنابیں ٹوٹ جائیں گی۔ اسی کا نام انارکی ہے۔
عشروں سے جوہم افغانستان میں دیکھ رہے ہیں۔ افغانستان کیا کراچی اور قبائلی پٹی میں بھی۔ بہت کچھ بلوچستان کے بعض علاقوں میں۔ یہی طواف الملکوکی لیبیا، عراق اور شام میں تھی۔ لیبیا میں اب منڈیاں لگتی ہیں جن میں حوا کی بیٹیاں بکتی ہیں۔ ایک پہلو کرنل قذافی کا ہولناک جبر تھا، دوسرا بیرونی ممالک کی مداخلت لیکن قوموں کی اخلاقی اور علمی حالت بھی۔ جو معاشرے غلامی کے امراض اور آزادی کی قدر و قیمت نہیں سمجھتے، جانورو ں کی طرح سر جھکا کر جیتے ہیں یا جانوروں کی طرح بے لگام اور بے مہار ہوجاتے ہیں۔
قوانین اوراخلاقی اصولوں کو پامال کر ڈالتے ہیں، نشانِ عبرت بنا دئیے جاتے ہیں۔ فرمایا : زمین میں گھوم پھیر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ بستیاں جو اوندھی پڑی ہیں، شہر جو کھنڈر ہو گئے، آبادیاں جن کا صرف نام و نشان باقی ہے۔ ہنستے بستے گھر جو بحرِ مردار کی تاریک تہہ میں مردہ پڑے ہیں، غلاظت کے انبار۔ وہ جو کہسار کاٹ کے گھر بناتے تھے۔ وہ بابل و نینوا والے کیا ہوئے جو چھتوں پر باغات اگایا کرتے تھے۔ پ
ہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
ایک اخلاقی پیمانے ہیں اور ایک ریاستی قوانین۔ دونوں سے انحراف کا انجام عبرت ناک ہوتا ہے۔ سرکارؐ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے :ایک چھوٹے سر والا حبشی بھی حاکم بنا دیا جائے تو اس کی اطاعت کرو۔ اسی معاملے کے دوسرے اہم پہلو کوسیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنے پہلے خطبے میں آشکار کیا تھا۔ ایرانی شاعر فردوسی نے جن کے بارے میں کہا تھا
کہ خورشید بعد از رسولاں مہ
نتا بید بر کس چوبوبکر
پیغمبران ِ عظام کے سوا سورج کسی پر اس طرح کبھی نہ چمکا، جیسے جنابِ ابوبکر صدیقؓ پر۔ فرمایا : سیدھے راستے پر میں چلوں تو میری اطاعت کرو وگرنہ نہیں۔ قبائل نے زکوۃدینے سے انکار کیا تو ارشاد کیا کہ ایک رسی بھی چھوڑوں گا نہیں۔ وہ سب سے زیادہ حلیم اور مہربان مانے جاتے مگر بغاوت ہوئی تو بلند و پست کو ہموار کر ڈالا۔ ریاست کی ایک تقدیس ہے۔ حکومت کی اطاعت کی جانی چاہیے۔ ٹوکنا ہی نہیں اسے روک بھی دینا چاہئے مگر کسی قرینے سے۔ ظلم کا مرتکب ہو توحکمران کو راستے سے ہٹا دینا چاہئے۔
مگر کس لئے اور کس طرح؟ ۔ ایک شائستہ قانونی جدوجہد کے ساتھ، شورش اور فساد سے نہیں۔ بہتر حکمرانی کیلئے، امن اور عادل قائم کرنے کیلئے۔ خوئے انتقام کی تسکین، اپنے گروہ اور قبیلے کو اختیار بخشنے اور اپنی انا کو گنے کا رس پلانے کیلئے ہرگزنہیں۔ سچ پوچھئیے توچند ایک مستثنیات کے سوا، ہماری پوری تاریخ، حصولِ اقتدار کیلئے وحشیانہ تصادم کی تاریخ ہے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا قال اللہ اور قال الرسول کہنے والے بھی اس میں کسی پیچھے نہ رہے۔
متاع ِ دین و ایماں لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزہ ِ خوں ریز ہے ساقی
حزب ِ مخالف اور حکومت میں محاذ آرائی الگ، ایک وفاقی وزیر اور صوبائی حکومت ایک دوسرے کے درپے کیوں ہیں۔ یہ صاحب پہلے رویت ہلال کمیٹی کے خلاف برہم ہو کراٹھے، حالاں کہ ان کا کوئی تعلق اس معاملے سے نہیں تھا۔ اب صوبائی حکومت کے خلاف تلوار تانے کھڑے ہیں۔ رویتِ ہلال کے نظام میں اصلاح، ترقی اور بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ یہ کام کابینہ کا تھا۔ آئین کے تحت پالیسیوں کی تشکیل، اسی کی ذمہ داری ہے۔ حکم وزیر اعظم صادر کرتے۔ مشاورت کیلئے جیسی بھی ہے اسلامی نظریاتی کونسل موجودہ ہے، اگر بہت ہوش مند اور دانا لوگ اس میں نہیں تو پارلیمنٹ سیاسی جماعتوں اور دوسرے اداروں میں بھی کون سے افلاطون براجمان ہیں۔
قوانین کی خلاف ورزی کرنے اور ریاست کا مذاق اڑانے والے مولانا پوپلزئی کی حمایت میں صوبائی حکومت کیوں اٹھ کھڑی ہوئی۔ اٹھائیس روزوں کے بعد عید منانے کیلئے وزیر اعظم سے کیوں درخواست کی۔ وزیر اعظم کو کیا سوجھی کہ اپنے رفقا یا ماہرین سے مشورہ کئے بغیر اجازت مرحمت فرمائی۔ ان سب سوالوں پہ بحث کی ضرورت ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سائنس کا وزیر اس قدرکیوں اچھل رہا ہے۔ کیوں ہر ایک کے منہ آتا ہے۔ یہی سوال شوکت یوسف زئی کے بارے میں ہے۔ ان لوگوں کو کسی قانون، کسی ضابطے، کسی روایت کی پروا کیوں نہیں؟ ۔ اس وقت بھی جب داخلی محاذ پر ہر طرح کے بحران ہیں اور ہر طر ح کے خارجی دبائو؟
ملک ایک بارہ سنگھا بن چکا۔ سارے سینگ جس کے جھاڑیوں میں پھنسے ہیں۔ اس پر بھی یہ عالم؟ بدپرہیزی اچھے بھلے صحت مندآدمی کو برباد کر سکتی ہے، مریض اپنی مرضی منوانے پہ اگر تل جائے؟