Saturday, 30 November 2024
  1.  Home
  2. Haroon Ur Rasheed
  3. Sharam Tum Ko Magar Nahi Aati (3)

Sharam Tum Ko Magar Nahi Aati (3)

شرم تم کو مگر نہیں آتی

نا انصافی ہے اور ایسی نا انصافی کہ خدا کی پناہ۔ اس پر دعوے ہیں اور ایسے دعوے کہ سبحان اللہ۔ ایک حکمران پارٹی ہی کی بات نہیں، سبھی کا حال یہ ہے۔ پی ٹی آئی ہی نہیں، زرداری اور شریف گروہ بھی۔ شاعر نے کہا تھا:

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

ہمارے مقتدر کس منہ سے مالک کے حضور پیش ہوں گے؟ سابق آئی جی افضل شگری کا مضمون اشتیاق سے پڑھنا شروع کیا۔ صرف اس لیے نہیں کہ ان افسروں میں سے ایک ہیں، جن کے دامن پر دھبہ نہیں۔ فقط اس لیے بھی نہیں کہ وہ پولیس آرڈر2002ء مرتب کرنے والے معتبرین میں شامل تھے بلکہ اس لیے بھی کہ وہ ان میں سے ایک ہیں، جو ادبار میں مبتلا قوم کے لیے کوئی نسخہ تجویز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جناب شگری کی تحریر میں ایک جملہ بھی ایسا نہیں، جس پہ اعتراض وارد ہو۔ یہ تو مگر ماضی کی داستان ہے۔ یعنی یہ کہ کاش ایسا نہ ہوتا۔ یعنی یہ کہ کاش ایسا ہو گیا ہوتا۔ ایک آدھ تجویز بھی پیش کی ہے لیکن پوری بات کیوں نہیں؟ گہری نیند سوئے ہوؤں کو جگانے کے لیے واویلا کرنا پڑتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا:

عاقبت منزلِ ما وادیء خاموشان است

حالیاغلغلہ درگنبدِ افلاک انداز

آخر کو قبروں میں جا سونا ہے۔ سوئی ہوئی قوم کو جگانے کے لیے ایسا غلغلہ برپا کرو کہ آسمانوں تک پہنچے۔ 1992ء میں سوویت یونین کے خاتمے پر وسطِ ایشیا میں ماضی کی بازیافت کا عمل شروع ہوا۔ پچاس لاکھ آبادی کے ملک میں دس لاکھ مظاہرین ایک دن دو شنبہ میں جمع ہوئے۔ سحر سے شام تک اقبال کا ایک مصرع وہ دہراتے رہے۔ ع

از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز

اس گہری نیند، اس گہری نیند، اس گہری نیند سے اب جاگ بھی اٹھو۔ کیوں نہ کہا کہ پولیس اور عدلیہ صحت مند اور جدید نہ ہو، اپنے عصر کے تقاضوں کا ادراک اور اندمال تو کجا، دلدل سے نکل ہی نہیں سکتا۔ یہ کہنے میں شگری صاحب کو تامل کیوں رہا کہ پولیس کو تباہ کرنے کی بنیاد اس دن رکھ دی گئی تھی، جب ناصر درانی کو مستعفی ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ دوسرا زخم پرسوں سینیٹ نے لگایا۔ ججوں کی تعداد بڑھانے والی آئینی ترمیم اس نے مسترد کر دی۔ عدلیہ کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ ججوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اور مسائل بھی ہیں، مثلاً یہ کہ قاضیوں کے انتخاب کا طریق بہتر بنانے کی ضرورت ہے کہ ارشد ملک گھس آتے ہیں۔ اس کی نگرانی درکار ہے۔ سرتاپا ایک کرپٹ معاشرے میں حسنِ کردار کا کوئی جزیرہ نہیں ہوتا؛ با ایں ہمہ ججوں کی تعداد بڑھانے سے بہت کچھ بہتری آتی۔ جھوٹے گواہوں کو سزا دینے کے لیے قانون پر عمل درآمد ہونے لگے تو رفو گری کا ایک اور مرحلہ طے ہو۔

تیز رفتاری سے مقدمات کا فیصلہ کرنے والی نمونے کی عدالتیں قائم کر کے جسٹس کھوسہ نے ایک بڑی چھلانگ منزل کی طرف لگائی تھی۔ افسوس کہ وکلا سدّ راہ ہو گئے۔ حکومت نے بھی اس تجربے کو کامیاب کرنے کی فکر نہ کی، رتّی برابر بھی کوشش نہ کی۔ حکومت ہی کیا، اپوزیشن اور میڈیا بھی بے نیاز رہا۔

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

مشکلات و مصائب میں گھر جانے پہ افراد اور اقوام برباد نہیں ہوتیں، بلکہ اس لیے کہ ذہن الجھ جاتے ہیں۔ ہیجان میں مبتلا ہو کر معاشرے کے مختلف گروہ منقسم اور متحارب ہو کر ایک دوسرے کے مقابل آن کھڑے ہوتے ہیں۔ خود شکنی پر تل جاتے ہیں۔ جنگل اور ریگ زار میں اترے کسی قافلے کی طرح، سمت جسے سجھائی نہ دے۔ بنی اسرائیل کی طرح، چالیس برس صحرائے سینا میں جو بھٹکتے رہے؛تا آنکہ عاداتِ بد میں مبتلا ایک نسل تمام ہوئی اور نئی نسل نے زندگی کے میدان میں قدم رکھا۔

معاشی ہی کہہ لیجیے لیکن اصل بحران اخلاقی ہے۔ ایک سیاسی پارٹی ہو یا دوسری۔ صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی۔ وردی والے ہوں یا ڈیزائنر سوٹ پہننے والے، بھٹو ازم برسرِ اقتدار ہو، قائداعظم ثانی اور شیر شاہ سوری یا تبدیلی سرکار، الجھا ہوا دھاگہ کسی طرح نہیں سلجھتا۔ سلجھانے کی ابتدا تک نہیں کی جاتی۔ الزامات اور جوابی الزامات تو ہمیشہ سے ہمارا شعار تھے۔ قدامت پسندی، خود ترسی اور احساسِ کمتری کے مارے پورے کے پورے بر صغیر کا چلن۔ اب تو گالم گلوچ کا مقابلہ ہے۔ ا یک سے ایک طباع اور طرار لشکر۔

کبھی کبھی یہ طالبِ علم سوچتا ہے۔ روزِ حشر ہمارے حکمران مالک کو کیا جواب دیں گے۔ جب پوچھا جائے گا کہ دشنام طرازی کے لیے تم نے افواج کیوں مرتب کیں؟ ہزاروں لاکھوں کے ذہن کیوں مسخ کر دئیے۔ پہلے سے برباد معاشرے میں جلتی پر تیل کیوں ڈالتے رہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سوال ان سے بھی کیاجائے گا جو "ایاک نعبد و ایاک نستعین" سے آغاز کرتے ہیں۔

وقائع نگار نے لکھا ہے کہ اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر کے غسل خانے کی تزئین کے لیے پچیس ہزار ڈالر منظور کر لیے گئے ہیں، 42لاکھ پاکستانی روپے۔ 90ہزار ڈالر اس عمارت کی آرائش پہ پہلے ہی خرچ ہو چکے۔ یہ اس حکومت میں برپا ہے، کفایت شعاری کی جو علمبردار ہے۔

خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا

آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاں گئی

سپریم کورٹ نے سیاہ اور سفید دھاریاں الگ کر کے نیب کا اصل پیکر نمایاں کر دیا ہے۔ احتساب اس کا اصل وظیفہ نہیں بلکہ اپوزیشن ہدف ہے۔ خواجہ برادران کی طرف سے دائر کردہ درخواستِ ضمانت کے فیصلے میں عدالتِ عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ نیب جرم ثابت نہیں کر سکی۔ اس سے بھی زیادہ اہم تبصرہ یہ کہ اسیروں کی اکثریت کے خلاف وہ شواہد پیش نہیں کرتی۔ اس کے بعد کیا نیب کے چئیر مین کو مستعفی نہ ہو جانا چاہئیے؟ شاید ان کا جواب وہی ہو، جو جنابِ شیخ رشید نے ٹرین حادثے پر دیا تھا: میں کیا اس گاڑی کا ڈرائیور تھا؟

جسٹس جاوید اقبال سپریم کورٹ میں فائز رہے۔ آئے دن عدالتیں نیب کو نا اہل قرار دیتی ہیں مگر ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ احتساب لازم ہے۔ مجرموں کو جو معاشرہ سزا نہ دے سکے، انارکی کے بیج بوتا ہے۔ احتساب کے مگر کچھ مسلمہ تقاضے ہیں۔ اوّل یہ کہ سب کے لیے ایک جیسا ہو۔ ثانیاًطاقتوروں کے باب میں زیادہ تعجیل سے کام۔ ثالثاًغیر ضروری تاخیر کا ارتکاب نہ کرے۔ اس لیے کہ عدل میں تاخیر، عدل سے انکار کے مترادف ہے۔

اس عدلیہ کو عدلیہ کیسے کہا جا سکتاہے، مقدمات جس میں تین تین عشرے معلق رہیں ؛حتیٰ کہ بعض اوقات تو پھانسی دینے کے بعد قرار پائے کہ ملزم معصوم تھا۔ ایسے عدالتی نظام سے تو قبائلی جرگے بہتر، تھوڑی سی احتیاط جس کے انتخاب میں روا رہی ہو۔

نا انصافی ہے اور ایسی نا انصافی کہ خدا کی پناہ۔ اس پر دعوے ہیں اور ایسے دعوے کہ سبحان اللہ۔ ایک حکمران پارٹی ہی کی بات نہیں، سبھی کا حال یہ ہے۔ پی ٹی آئی ہی نہیں، زرداری اور شریف گروہ بھی۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Be Maqsad Ehtejaj

By Saira Kanwal