کارِ دگر
چمن اجڑا پڑا ہے اور اجڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس کا کوئی مداوا سپریم کورٹ کر سکتی ہے اور نہ اسٹیبلشمنٹ۔
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
کارِ دگر ہے یہ کارِ دگر۔ معزز جج صاحبان نے حیرت زدہ کر دیا۔ فرمایا کہ کورونا پر وفاق اور صوبوں کوہم آہنگی پیدا کرنی چاہئیے۔ کسی قدر ہم آہنگی تو موجود ہے۔ عدالت کی مراد غالباً یہ ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی اور بیان بازی سے باز آنا چاہئیے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ فرض شناسی چاہئیے۔ وسائل کے زیاں کو روکنا چاہئیے۔ ترجیحات کا ڈھنگ سے تعین کرنا چاہئیے۔ اگر یہ درست ہے اور غالباً یہی درست ہے تو مودبانہ التماس یہ ہے کہ ان بگڑی حکومتوں اور تباہ حال سیاسی جماعتوں سے یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ ان گروہوں سے، جن میں بہت سے جیب کترے اور نقب زن شامل ہیں۔
ڈاکٹر فرقان احمد کی موت نے پورے ملک کو رلا دیا۔ بے بسی کا وہی شدید احساس جو ایسے مواقع پر ہوتاہے، جو ہمت توڑ کے رکھ دیتاہے۔ امید کی باقی ماندہ مشعلیں بھی بجھا دیتاہے۔ امید ہی ایک ایسی چیز ہے، جو قوموں کو زندہ رکھتی اور آگے بڑھنے کا عزم پیدا کرتی ہے اور زندگی کا ایک واضح منشور۔ سیاسی لیڈرکیا اسی قدر کنفیوژن کے مارے نہیں، جتنے کے عامی او رادنیٰ۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ مایوسی کفر ہے۔ سرکارﷺ کا فرمان یہ ہے کہ زندگی ایک سواری ہے۔ اگر تم اس پر سوار نہیں ہوگے تو وہ تم پر سوار ہو جائے گی۔ ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا: شوق میری سواری ہے۔
زندہ آدمی عنان اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ جہاں تک ممکن ہو، پہل کا موقع دوسروں کو نہیں دیتا۔ خواب ہی نہیں دیکھتا، پیہم آبیاری بھی کرتا ہے۔ زندہ اقوام بھی ایسی ہی ہوتی ہیں۔ قائدِ اعظم کے بارے میں ان کے ایک ممتاز نقاد نے کہا تھا: وہ Noکہتا رہا اور اس نے ملک بنا دیا۔ فرد یا اقوام، جو لوگ خود کو دوسروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیں۔ انہیں بے بسی اور بے چارگی میں جینا ہوتاہے۔ مقدرات ان پہ حکومت کرتے ہیں۔
قدرت کے اس قانون میں ہرگز کوئی استثنیٰ نہیں۔ کبھی نہیں تھا، کبھی نہ ہوگا۔ مودبانہ التماس ہے کہ معزز جج صاحبان کتنا ہی دباؤ ڈالیں، ان کے عزائم کتنے ہی بلند اور پاکیزہ ہوں، گلاسڑا یہ سیاسی نظام ثمر خیز نہیں ہو سکتا۔ ثمر خیز ہونا تو بہت دور کی بات ہے، اب تویہ اپنی جزوی اصلاح کے قابل بھی نہیں۔ یہ وہ مکان ہے، جسے ڈھا دینے اور پھر سے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ محض آرائش و زیبائش اور معمولی تبدیلیوں سے یہ سنبھل نہیں سکتا۔
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھیو سرِ محفل کوئی خورشید اب کے
تضادات سے بھرا ہوا سلسلہء حیات۔ ان تضادات کا بوجھ اٹھا کر ہم جی نہیں سکتے۔ رفتہ رفتہ، قطرہ قطرہ مرتے چلے جائیں گے۔ ڈاکٹر فرقان احمد کی موت ایک فرد اور خاندان نہیں، ایک معاشرے کی موت کا اعلان ہے۔ کمال بے حسی اور پرلے درجے کی بدنظمی کا مظاہرہ۔ آدمی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ صاحبِ درد یا احساس سے خالی۔ دوسری قسم کے بارے میں اللہ کے آخری رسول نے ارشاد کیاتھا: بے شرم اپنی مرضی کرے۔
بھارتی فلموں کے ان پولیس افسروں کی طرح، جو بدنام سیاستدانوں اوردوسرے فراعین کو بے دردی سے قتل کر ڈالتے ہیں، کیا ہم کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں؟ بہت ادب سے التماس ہے کہ ایسا کوئی نجات دہندہ کبھی نہیں آئے گا۔ کم از کم مستقبل قریب میں تو ہرگز نہیں۔ تاریخ کے جید عالم کہتے ہیں کہ خیرہ کن اخلاقی عظمت اور صلاحیتوں کا غیر معمولی لیڈر جب جنم لیتا ہے تو ایک صدی تک اس برگد کے نیچے کچھ نہیں اگتا۔ تہتر برس پہلے قائد اعظمؒ چلے گئے، اب نواز شریف، آصف علی زرداری اورعمران خان، جن کا یہ وصف ہر روز ہزاروں بار بیان کیا جاتا ہے کہ چالیس ہزار برس کی انسانی تاریخ کا پہلا ایماندار آدمی۔
ہمیشہ عرض کیا، اس مرض کا علاج مضبوط سول ادار ے ہیں۔ ہمیشہ عرض کیا، اس کا علاج معاشرے کی اخلاقی اصلاح ہے۔ بہت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ حضرت مولانا جاوید غامدی اور حضرت مولانا طارق جمیل ایسے محترم اور معزز واعظینِ کرام نہیں بلکہ وہ جو ڈھنگ سے جینے کا سلیقہ سکھا سکیں۔ مان لیجیے کہ مولانا طارق جمیل اور علامہ جاوید غامدی مکمل طور پر مخلص ہیں مگر ان کی جدوجہد کا ثمر کیا ہے۔ مولانا طارق جمیل بہت شائستہ آدمی ہیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے ان کا فون آیا۔ پریشان تھے کہ ان کے مریدوں نے اخبار نویسوں کو گالیاں کیوں بکیں۔
مولانا صاحب کی طرف سے معذرت کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے خود میں نے ان سے معذرت کی۔ ایک گزارش بھی کی: ایم کیو ایم، اے این پی، پی ٹی آئی اور نون لیگ کی طرف سے کردار کشی کی مہمات کا ہم نے سامنا کیا ہے۔ ایک مختصر عرصے کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ کی دھمکیوں اور چخ چخ کا بھی۔ تبلیغی جماعت سے تو ہرگز کوئی اندیشہ نہ تھا، کبھی نہ تھا۔ ان سے زیادہ اخلاق کا مظاہرہ تو مولانا فضل الرحمٰن کے ماننے والوں نے کیا او رہمیشہ کیا۔ پیپلزپارٹی والے کرتے ہیں اور اکثر۔ کبھی کوئی سخت جملہ بھی لکھ بھیجتے ہیں لیکن کوئی مہم برپا نہیں کرتے۔ لب و لہجے کے باب میں تبلیغی جماعت اور الطاف حسین والی ایم کیو ایم میں کوئی فرق نہ رہا تو باقی بچا کیا۔ شخصیت پرستی، المناک شخصیت پرستی۔
علامہ جاوید غامدی بھی بہت ہی شائستہ ہیں۔ ان کی فکر میں کجی او رکمی کہاں ہے، یہ ایک دوسری بحث ہے مگر ان کے مریدوں پہ رحم آتا ہے۔ گالی تو خیر نہیں بکتے لیکن روپے پیسے، لین دین اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں ویسے ہی ادنیٰ۔ حکمران کے دسترخوان پہ، اہلِ زر کے درباروں میں، عشروں کی تربیت میں کیا اتنا بھی نہ سیکھ پائے کہ دستِ سوال دراز کرنے والا کبھی آسودہ نہیں ہوتا۔ غنی صرف اپنے پروردگار سے مانگنے والا ہو سکتاہے۔ کیسی ہی قیامت قوم پر بیت جائے، زلزلہ، سیلاب، کورونا، علامہ جاوید غامدی اور ان کے حامی لمبی تان کر سوئے رہتے ہیں۔ علامہ کا فرمان ہے کہ ان کا تخاطب ملک کے موثر طبقات سے ہے۔ ان طبقات میں کیا تبدیلی وہ لا سکے؟ اس سوال پر زیادہ تفصیل سے بحث کی جائے تو ایک آدھ مضمون جواب میں چھپے گا، دلائل سے پاک، طعنوں سے بھرپور۔
تبلیغی جماعت کی صد سالہ کاوش کا نتیجہ کیا ہے۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی کی اسّی برس پہ پھیلی جدوجہد کاثمر کیا ہے؟ باغبانی کا ایک سے بڑا ایک ماہر طلوع ہوتاہے۔ شائستہ، سلیقہ مند، تعلیم یافتہ۔ چمن اجڑا پڑا ہے اور اجڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ مداوا سپریم کورٹ کر سکتی ہے اور نہ اسٹیبلشمنٹ۔ شخصیت پرستی ہے، المناک شخصیت پرستی۔ خود کو ہم نے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، حالات کے رحم و کرم پر۔
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں