Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Haroon Ur Rasheed/
  3. Jahan Gard

Jahan Gard

جہاں گرد

تصنع کی ماری اس دنیا میں، ایک بے ریا آدمی کی تحریریں۔ کالم نگاری اور شاعری تو محض مشغلے ہیں۔ درحقیقت وہ ایک جہاں گرد ہے۔ خالد مسعود خان کے موضوعات متنوع ہیں اور منفرد بھی۔ خود اپنی شخصیت کی طرح۔ مزاح نگاری میں اس کے کردار ملتان کے مقامی ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک طرح دار۔۔۔ کھلکھلاتا ہوا مزاح۔

قلم گل کھلاتا ہے اورقاری محفل میں شریک۔ ایسی بشاشت کہ تحریر کے تمام ہونے پر ختم نہیں ہوتی۔ مزاحیہ کالم میں سماج کے عام لوگ، جن کے احساسات بے تکلفی سے بروئے کار آتے ہیں۔ اگر یہ بالکل حقیقی نہیں تو موجود یقینا ہیں، مصنف کی زندگی کا ایک اٹل حصہ۔ ظاہر ہے کہ کچھ زیبِ داستاں بھی کہ تحریر کی اپنی ایک جمالیات ہوتی ہے۔

سنتا ہوں بڑے شوق سے افسانہء ہستی

کچھ اصل ہے، کچھ خواب ہے، کچھ طرزِ ادا ہے

جمالیاتی تقاضوں سے اگر کوئی آشنا بلکہ خوگر نہیں تو وہ کچھ بھی ہو سکتاہے، قلم کار ہرگزنہیں۔ خالد مسعود اپنی مزاحیہ شاعری سے پہچانے گئے۔ پنجابی اور اردو کے امتزاج سے تشکیل پاتی زبان۔ ساری دنیا میں ان کا ڈنکا بجتا ہے۔ شگفتہ کالموں میں بھی ان کا لہجہ گاہے اسی شاعری سے جا ملتا اور جادو جگاتا ہے۔

خالد صاحب شاعری ہی کیا کرتے تھے۔ اٹھائیس برس ہوتے ہیں، ازراہِ کرم میرے ہاں تشریف لائے۔ عرض کیا: کالم لکھا کیجیے۔ بولے: کیا لکھوں۔ گزارش کی کہ وہی کچھ جو ابھی آپ ارشاد فرما رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اوّل اول ذرا سی جھجھک تھی، آغاز کار جو سبھی میں ہوتی ہے۔ پھر تو ایسے رواں ہوئے، ایسے رواں کہ

جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل

وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا

روزنامہ دنیا سے وابستہ ہوئے تو چیف ایڈیٹر سب سے زیادہ انہی کے مشتاق تھے۔ باقی کالم نگاروں میں سے بعض کا نام تک انہوں نے سنا نہیں تھا۔ بار بار مجھ سے فرمائش کرتے: خالد صاحب سے کہیے مزاح ہی لکھا کریں۔ ہر بار میں وعدہ کر لیتا مگر خالد مسعود سے کبھی ذکر ہی نہ کیا۔ البتہ ایک دوسرے موقع پر جب انہوں نے کالم نگاروں کو کچھ ہدایات دینے کو کہا تو عرض کیا: صحافت کی شریعت میں یہ گناہِ کبیرہ ہے۔ جہاں کہیں اڑچن آپڑنے کا اندیشہ ہو، مدیر کاحق ہم استعمال کرتے ہیں۔ رؤف کلاسرہ اور خالد صاحب کو گاہے اس پر اعتراض ہوتا، خاص طور پر محاورے کی درستی پر۔ عام طور پر وہ برداشت ہی کرتے۔ ایک بار مگر خالد مسعود خان نے یہ کہا: ہمیشہ سے ہم غلط اردو لکھتے آئے ہیں۔ ہماری اصلاح کے درپے آپ کیوں ہیں؟ غلط وہ نہیں لکھتے بلکہ عوامی زبان۔ خاکسار کے موقف سے ممکن ہے، بعض کو اختلاف ہو۔ رائے اس پر بہرحال یہی ہے کہ بول چال اور تحریر کی زبان میں فرق ہوتا ہے اور ہونا چاہئیے۔ فرق اگر ملحوظ نہ رہے تو کالم کا حسن گاہے متاثر ہوتا ہے۔ خالد صاحب کے باب میں بہت احتیاط کرنا پڑتی کہ بے ساختگی مجروح نہ ہو۔ یہ ان کے مزاح کی روح ہے۔

ایک مردِ آزاد مسجد الحرام کے دروازے پر جو تن کر کھڑا ہو جائے کہ اپنی قمیض پر کڑھی تصویر کے ساتھ ہی اللہ کے گھر میں داخل ہو گا۔ شرطہ شور مچاتا رہا، موصوف مگر مصر رہے۔ اپنی جیب سے بادشاہ کی تصویر نکال کر دکھائی کہ اگر یہ روا ہے تو قمیض پر بنی بے ضرر تصویر کیوں نہیں۔ یہی خالد کی خوبی ہے اور یہی اسے ممتاز کرتی ہے۔ شخصیت ہی نہیں، تحریر میں بھی۔ دنیا میں کم آدمی ایسے ہیں، جن کے ظاہر و باطن میں کوئی فرق نہ ہو۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا

جامہئِ احرامِ زاہد پہ نہ جاتھا

حرم میں لیک نامحرم رہا

خالد کی خوبی یہ ہے کہ ہر مجلس، ہر دیار، ہر کوچے میں وہ ایک جیسے ہیں۔ محفل ہو یا تنہائی۔ حد یہ ہے کہ اپنے مرحوم گرامی قدر والدکے ساتھ بھی مذاق سے نہ چوکتے، جوایک متین بزرگ تھے۔

عصرِ رواں کے عارف نے کہا تھا: علم کی دنیا میں رورعایت کی رتّی برابر بھی گنجائش نہیں ہوتی۔ خالد کے ہاں بھی کوئی رو رعایت نہیں۔ اپوزیشن ہو یا حکومت، عزیز دوست ہوں یا ذاتی مراسم کے سیاستدان، قلم اٹھا یا تو مراسم کو طاقِ نسیاں پہ رکھا۔ ایک جاوید ہاشمی ہیں، جن سے کچھ رعایت کیا کرتے ہیں مگر جلد ہی تلافی کر ڈالتے ہیں۔ ایک سچے اور کھرے اخبار نویس کی یہی سب سے بڑی نشانی ہے۔ رہا ہنر تو اس کے معیار کا فیصلہ لکھنے والا نہیں، قاری کیا کرتے ہیں۔ خالد کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ گاہے وہ خود اپنی ذات کو بھی نشانہ کرتے ہیں۔ یہ کمال اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔

دو طرح کے لوگ دنیا میں ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنی ذات کے بھنور میں گھرے رہتے ہیں۔ ایک وہ کہ جنہیں ہنر اور مقصد عزیز ہوتاہے۔ سچّی گواہی لکھنے والے کا اوّلین فریضہ ہے، اوّلین ترجیح۔ بیس پچیس برس کی کالم نگاری میں خالد اس معیار پہ پورے اترے اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ عوامی زبان لکھنے والا کالم نویس شعر و ادب کی دنیا کا کھرا پارکھ ہے، خصوصاً شاعری میں۔ نصف صدی کی عملی زندگی میں ان کے نام انگلیوں پر گن سکتا ہوں، جن میں سے منتخب شعر سنے تو کچھ یاد بھی رہے۔ افضل رندھاوا کا یہ شعر انہی سے سنا تھا۔

میں دریاواں دا ہانی ساں

ترنے پے گئے کھال نی مائے

فیصل آباد کے ایک جواں سال شاعر کا کلام بھی۔

یہ عمر تو کسی عجیب واقعے کی عمر تھی

یہ دن فقط سپردِ روزگار کیسے ہو گئے

حافظہ اچھا پایا ہے۔ بات نسبتاًکم کرتے ہیں۔ اخبار نویس کے لیے یہ بڑے وصف کی بات ہوتی ہے۔ اکثر جہاں سطح پر تیرتے ہیں، سیاسی حادثات سے نتیجہ اخذ کرنے میں وہ اکثر کامیاب رہتے ہیں۔ چھ برس ہوتے ہیں، شہباز شریف نے بہاولپور میں شمسی توانائی کے منصوبے کا افتتاح کیا۔ اکثر صحافیوں نے ان کے دعوے پر اعتبارکیا کہ سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ خالد مسعود خاں نے لکھا: جی نہیں، دس میگاواٹ۔ زیادہ سے زیادہ استعداد ایک چیز ہے اورعملی نتیجہ دوسری۔

صحافت میں وہی کامران ہوتاہے، جو جانتا ہو کہ اخبار نویس اور سیاست دان کی دوستی سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے ٹھوکر کھائی۔ خالد صاحب بچ نکلے۔

عمران خان سے ان کا تعارف کرایا تو اپنے پسندیدہ ریستوران میں خان صاحب نے انہیں کھانے پر مدعو کیا۔ وہ ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں، جن پر یہ عنایت کی گئی۔ کپتان نے اپنی پارٹی کے لیے نغمہ لکھنے کی فرمائش کی۔ خالد نے سنی ان سنی کر دی۔

خالد مسعود خان کی سب سے زیادہ دل گداز تحریریں ان کی مرحوم اہلیہ کے بارے میں ہیں، جن کے انتقال کو 9 برس بیت چکے۔ ان کے دل میں ہر وہ لمحہ پوری تب و تاب، توانائی اور تازگی کے ساتھ زندہ ہے، جو اپنی رفیقِ حیات کیساتھ بسر کیا۔ وہ تھیں بھی ایسی ہی، بہت صابر، بہت قابلِ قدر، ہمیشہ آسودہ، ہمہ وقت بشاش۔ خواتین میں شکایت کی خو زیادہ ہوتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ان میں تھی ہی نہیں۔ مہمانوں کا خیر مقدم کرنے اور ان کی خدمت بجا لانے میں ہمیشہ خوش باش۔ اپنے میاں اور بچوں پہ فدا مگر ایک کمال جذباتی توازن کے ساتھ۔

ان بہت سی تحریروں میں سے کوئی نقل نہیں کروں گا۔ ان کی تاب لانا مشکل ہے۔ کم از کم میرے لیے۔ دل پگھل کر موم ہو جاتا ہے۔ ادراک ہوتاہے کہ سچی محبت کیا ہوتی ہے اور کیونکر دوام پاتی ہے۔ وہ دن جو کبھی رخصت نہیں ہوتے۔ وہ یادیں کہ ہمیشہ مجسم رہتی بلکہ نمایاں ہوتی چلی جاتی ہیں۔ عرب شاعر نے کہا تھا: اس طرح جیسے کہ بارش کھنڈرات کو اجاگر کر دے۔

تصنع کی ماری اس دنیا میں، ایک بے ریا آدمی کی تحریریں۔ کالم نگاری اور شاعری تو محض مشغلے ہیں۔ درحقیقت وہ ایک جہاں گرد ہے۔ (خالد مسعود خاں کی کتاب "زمستاں کی بارش" کے دیباچے سے چند اقتباسات)

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Tilla Jogian, Aik Mazhabi Aur Seyahati Muqam

By Altaf Ahmad Aamir