کرپشن
عمران خان کرپشن کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے کہ شریفوں اور زرداریوں کا احتساب تو وہ چاہتے ہیں، اپنے خسروبختیاروں، ظفر مرزوں اور مجید خانوں کا نہیں۔ مجید خان کی کہانی پھر کبھی۔
نصف صدی ہوتی ہے، ایک امریکی فلسفی سے پوچھا گیا کہ امریکہ کے اخلاقی مسائل کا حل کیا ہے۔ جواب یہ تھا: بحر اوقیانوس میں غرق کر دیا جائے۔ صحت مند معاشرے بھی دنیا میں ہوتے ہیں اور بیمار بھی۔ ایسے زمانے بھی گزرے ہیں کہ جن کی یاد سے جی لہلہا اٹھتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کوئی معاشرہ بیمار کیوں ہوا اور اس کا علاج کس طرح ممکن ہے۔ مکمل طور پر سچی گواہی صرف پروردگار کی ہوتی ہے یا اس کے آخری پیغمبرﷺ کی۔ قرآنِ کریم کی شہادت یہ ہے کہ کسی آدمی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔
دنیا میں ظلم ڈھایا جاتاہے اور بے حد و حساب لیکن اس لیے کہ آدمی ظلم کے خلاف اٹھتا نہیں۔ اس لیے کہ وہ غور و فکر اور تدبیر نہیں کرتا۔ سوشل میڈیا ہر روز کتنی ہی داستانیں ہمیں سناتا ہے کہ کس طرح کسی بے بس اور لاچار آدمی نے کلفتوں کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا اور دریا کے پار جا اترا۔ کتنی ہی خواتین کے شوہر اپاہج ہوئے یا منشیات کے ہاتھوں لاچار۔ اپنا اور اپنی اولاد کا بوجھ اٹھانے کا ان خواتین نے فیصلہ کیا تورزقِ حلال ہی نصیب میں ہوا۔ صاف اور صریح الفاظ میں قرآن کہتا ہے کہ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے، جس کے لیے انہوں نے کوشش کی۔
ابھی کچھ دیر پہلے عمران خاں کے بازوئے شمشیر زن شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس میں شہباز شریف پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ ان الزامات میں صداقت کا عنصر دکھائی دیتا ہے۔ لگتا ہے کہ موصوف نے بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں کیں۔ بے دریغ پیسہ کمایا اور ڈٹ کر غلط بیانی کرتے رہے۔ نیب کی تحقیقات سے بھی یہی آشکار ہوتاہے۔ مثلاً ان کا یہ فرمان کہ لندن میں ان کی جائیداد کا بڑا حصہ رشتے داروں اور دوستوں کے قرض کا ثمر ہے۔ پانچ برس ہوتے ہیں، ان کے عم زاد عابد شیر علی کے والد موصوف سے ناراض ہو گئے۔ چیخ چیخ کر وہ کہتے رہے کہ سولہ کروڑ روپے تو اس نیک بخت کو میں نے دیے کہ لندن میں فلیٹ خرید لیں۔ شیر علی ناراض تو رانا ثناء اللہ سے تھے۔ اس لیے کہ وہ زیادہ ہنر مند اور باہمت ہیں۔ اس لیے کہ زیادہ بڑا حلقہء اثر انہوں نے پیدا کر لیا تھا۔ عابد شیر علی اور ان کے والدِ گرامی سے زیادہ بڑھ کر کام کے آدمی نکلے۔ شریف خاندان ان پر زیادہ اعتماد کرنے لگا ورنہ لوٹ مار پہ انہیں کیا اعتراض تھا۔ ان کے بقول جو سولہ کروڑ روپے شہباز شریف کو آنجناب نے عنایت کیے تھے، ظاہر ہے، وہ موروثی جاگیر سے پیدا نہ ہوئے تھے۔ خود عالی جناب نے بھی تو اسی طرح سب کچھ حاصل کیا اور اسی طرح بانٹا۔
شیر علی اور عابد شیر علی کیا، اب تو یہ لگتاہے کہ کرپشن پر کسی کو بھی اعتراض نہیں۔ آصف علی زرداری اور شریف خاندان کا تو ذکر ہی کیا، عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی۔ شہزاد اکبر سے مشیرِ صحت ظفر مرزا کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دینے سے انہوں نے گریز کیا۔ سال بھر میں دواؤں کی قیمتیں دو گنا سے بڑھ گئیں۔ چیخ چیخ کر پاکستانی پریس بتا رہا ہے کہ لگ بھگ چار سو ایسی دوائیں بھارت سے درآمد کی جاتی رہیں، کابینہ نے جن کی اجازت نہیں دی تھی۔ پھر اس سوال کا جواب وہ کیوں نہیں دیتے۔ کیا خاک جواب دیں؟
خود ان کے بارے میں بہت سے تحفظات ہیں۔ مخالفین یہ کہتے ہیں کہ موصوف کا کچھ اپنا روپیہ بھی لندن میں رکھا ہے۔ ممکن ہے، جب کبھی نئی حکومت آئے اور کھاتے کھلیں تو ان کا حال شریف خاندان سے بھی بدتر ہو۔ شریف خاندان سے اسٹیبلشمنٹ پسِ پردہ بات کرتی ہے۔ اس امکان کو ملحوظ رکھتی ہے کہ ممکن ہے، کل کلاں ان کی ضرورت پڑے۔ جیسی کہ گزرے ہوئے کل میں توسیع کے لیے پڑی تھی۔ جیسی کہ آنے والے کل میں اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی کے لیے پڑ سکتی ہے۔ شہزاد اکبر قصور وار ثابت ہوئے تو انہیں بچانے والا کون ہوگا۔ دو واقعات موصوف کے بارے میں مشہور ہیں۔ آنجناب کا تقرر ہوا تو خان کے ایک ذاتی دوست سے پوچھا: اس آدمی کا وصف کیا ہے۔ کبھی پویس میں رہا نہ ایف آئی اے میں۔ تفتیش کا تجربہ اور سلیقہ نہیں رکھتا۔ وزیرِ اعظم نے بتایا کہ چند برس پہلے ڈرون حملوں پر ایک دستاویزی فلم بنانے کے لیے جمائما لندن سے آئیں تو شہزاد اکبر نے ان کی مدد کی تھی۔ خان صاحب اپنے وزیروں اور مشیروں کا انتخاب اسی طرح فرماتے ہیں۔ کسی کی بات بری لگی تو اٹھا کر پھینک دیا۔ کوئی اچھا لگا تو سینے سے لگا لیا۔
شیخ سعدی نے کہا تھا: بادشاہوں کا کیا بھروسہ۔ کبھی گالی پہ خلعت بخش دیں اور خدمت پہ دھتکار دیں۔ اقبال ؔکا مصرع یہ ہے
کرتی ہے ملوکیت آثارِ جنوں پیدا
مسلم تاریخ میں المیے کا آغاز دمشق سے ہوا تھا۔ جہاں یزید کے لیے جبراً بیعت لی گئی۔ خلافت ملوکیت میں ڈھل گئی۔ اصول اور قاعدے قانون کی بجائے شخصی حکمرانی کے تصور کو تسلیم کر لیا گیا۔ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو امیر معاویہ کے اقدامات کے لیے جواز پیش کرتے ہیں اور بڑے جوش وخروش سے۔ یہی نہیں کچھ تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے "خلافتِ معاویہ و یزید" ایسی کتابیں لکھیں۔ معاشرے مکاتبِ فکر میں جب بٹ جاتے ہیں۔ شدت پسندی جب انہیں آلیتی ہے۔ نفرت جب جاگ اٹھتی ہے تو لیڈر نہیں دیوتا پیدا ہوتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق بنو افرا یعنی گوری اقوام کی ایک پہلو سے رسولِ اکرمﷺ نے ستائش کی تھی۔ یہ کہ حکمرانوں سے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے وہ جستجو اور جدوجہد کرتے ہیں۔ مغرب میں نشاط ثانیہ، صنعتی انقلاب اور جمہوریت کے قیام میں، قابلِ اعتماد عدالتی نظام اور تعلیم کے فروغ میں ابھی ایک ہزار برس باقی تھے۔ عالی جناب ﷺنے جب یہ ارشاد کیا۔ آغازِ کار ہی کو چھ سات سو برس۔ مغرب نے خود کو دریافت کر لیا۔ اپنے قومی امراض کو سمجھ لیا۔ سائنسی اندازِ فکر اختیار کیا تو رفتہ رفتہ دلدل سے نکل آیا
ورنہ یہ وہی مغرب تھا، جہاں پانچ اور دس پاؤنڈ لے کر پادری چھوٹی اور بڑی جنت کے سرٹیفکیٹ جاری کیا کرتے۔ کسان جاگیرداروں کی جنگیں لڑا کرتے۔ مخالف مذہبی فرقوں کو زندہ جلا دیا جاتا اور سائنسدان جیلوں میں پھینک دیے جاتے۔ شہباز شریف بدعنوان ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں اور ان کے بھائی بھتیجے بھی۔ اس لیے وہ ملک سے بھاگ گئے اور واپس آنے پر آمادہ نہیں۔ آصف علی زرداری پرلے درجے کے کرپٹ ہیں، اس میں بھی کوئی شبہ نہیں مگر عمران خان کرپشن کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے کہ شریفوں اور زرداریوں کا احتساب تو وہ چاہتے ہیں، اپنے خسروبختیاروں، ظفر مرزوں اور مجید خانوں کا نہیں۔ مجید خان کی کہانی پھر کبھی۔