1970ء کے وہ دن
ہوش کے ناخن لیجیے صاحب، ہوش کے۔ ہیجان اورچیخ و پکار نہیں، تدبیر اور تحمل درکار ہے۔ ہوسِ اقتدار کے مارے لیڈروں کو لگام ڈالنا ہوگی۔ خود ان کے حامیوں کو بروئے کار آنا ہوگا۔
ایک طریق یہ بھی ہے کہ آج کے حالات کو 1970ء کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ تب تین بڑے فریق تھے۔ یحییٰ خان کی قیادت میں فوجی ہیئتِ حاکمہ، شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو۔ مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی تھے، نور الامین تھے اور ان کے ساتھی۔ مولوی فرید، بالواسطہ ان کے حلیف، چکمہ قبائل کے سردار تری دیو رائے۔ جنابِ غلام اعظم کی قیادت میں جوش و خروش سے بھری جماعتِ اسلامی۔
اکثر جس پہلو کو نظر انداز کر دیا جاتاہے، وہ بنگالی قوم پرستی کی طاقتور تحریک تھی۔ 1947ء کے بعد جو بھی پھلتی پھولتی رہی۔ آزادی سے پہلے سہروردی متحدہ بنگال کے وزیرِ اعظم تھے۔ بنگال کو ایک الگ ملک بنا نے کا تصور بھی تھا۔ ایک مرحلے پر قائدِ اعظم نے اجازت بھی دے دی تھی؛اگرچہ جانتے تھے کہ تحریکِ پاکستان کے ولولے میں کامیاب نہ ہوگی۔ سہروردی سے وہ خوش بہرحال نہ تھے۔
قائدِ اعظم کے اے ڈی سی عطا ربانی سے روایت ہے کہ آئین سا ز اسمبلی کے ایوان میں قائدِ اعظم نے سہروردی کو طلب کیا تو ایسے وہ گھبرائے کہ اچکن کے اوپری بٹن بند کرنا بھول گئے۔
1970ء میں قائدِ اعظم کے انتقال کو 22برس گزر چکے تھے۔ غلغلہ اور لوگوں کا بھی تھا لیکن بتدریج قوم پرست شیخ مجیب الرحمٰن کے سامنے سب چراغ بجھ گئے۔ صرف نور الامین اور تری دیو رائے جیت سکے۔ الیکشن کا مولانا بھاشانی نے بائیکاٹ کیا تھا، جو تحریکِ پاکستان کے کارکن رہے تھے لیکن اب وہ کمیونسٹ تھے اور شیخ مجیب الرحمٰن کی طرح قوم پرست۔ روکھی سوکھی کھا لیاکرتے، سادہ لباس پہنتے لیکن پرلے درجے کے خبطی۔ تنکوں سے بنی میلی ٹوپی پہنا کرتے۔ لباس اور حلیے کی کوئی پرواہ نہ تھی۔
کچھ چیزیں مشترک ہیں اور کچھ بالکل نئی۔ بھٹو کی جگہ نوازشریف او ر یحییٰ خان کے منصب پر جنرل قمر جاوید باجوہ۔ بھٹو اور نواز شریف میں کچھ مماثلت ہے۔ خاص طور پر ہوسِ اقتدار۔ فرق یہ ہے کہ بھٹو بہت پڑھے لکھے تھے۔ عصری دنیا سے خوب آشنا۔ ایک نابغہ جو کسی سے مرعوب نہ تھا۔ حکمرانی کی بے پناہ بھو ک کے باوجود ایک قوم پرست، جس نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ کبھی دانائی ان پر غالب ہوتی تو حکیمانہ فیصلے بھی کرتے۔ شملہ میں اندرا گاندھی سے مذاکرات سے قبل پوری اپوزیشن کو اعتماد میں لیا۔ متفقہ آئین بنایا اور یہ آسان نہ تھا۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، جو آج پاکستان کی حفاظت کا امین ہے۔ مخالفین کو ہرگز برداشت نہ کرتے۔ 23مارچ 1973ء کو لیاقت باغ میں متحدہ اپوزیشن کے جلسہء عام پر پیپلزپارٹی کے جیالوں نے گولیاں برسائیں۔ نیشنل عوامی پارٹی کے 9کارکن قتل کر دیے گئے۔ انہیں لانے والی بسیں جلا دی گئیں۔ اخبارات کی مجال نہ تھی کہ بھٹو کا نام بھی لے سکیں۔ اس اخبار نویس نے جو خبر لکھی، اس کا پہلا جملہ آج تک یاد ہے "لیاقت باغ میں اپوزیشن کے جلسہء عام پر غنڈوں نے حملہ کر دیا" پریس ہی نہیں، سیاسی مخالفین بھی پابہء زنجیر تھے۔
1977ء کی احتجاجی تحریک میں پچاس ہزار سیاسی کارکن جیلوں میں ڈالے گئے اور اکثر سیاسی رہنما بھی۔ 329افراد پولیس کے ہاتھوں قتل ہو ئے۔ شورش اتنی بڑھی کہ معیشت ٹھپ ہو گئی اور جنرل محمد ضیاء الحق کو مارشل لا نافذ کرنا پڑا، جو پہلے دو ماہ اپوزیشن سے بدگمان تھے۔ گھر میں اسے شورش پسند کہتے۔ نواز شریف اس قدر سفاک نہیں۔ حالات بھی مختلف ہیں۔ مخالفین سے وہ نفرت کرتے ہیں لیکن کسی قتل کے مرتکب نہیں۔
یحییٰ خان کی جگہ جنرل باجوہ ہیں۔ اپنی شخصیت میں ان کے برعکس۔ آوارگی اور بادہ نوشی تو دور کی بات ہے، سگریٹ تک نہیں پیتے۔ اگرچہ ان کا شمار غیر معمولی لیاقت رکھنے والے جنرلوں اور حکمت کاروں میں شاید کبھی نہ ہو۔ اکثر محتاط اور شائستہ۔ منصوبہ بندی کے خوگرلیکن محدود عرصے کی منصوبہ بندی۔ اپنا دامن بچائے رکھتے ہیں۔ سبھی سے بات کرتے ہیں۔ حکم ضرور دیتے ہیں مگر مشاورت کے بعد۔ ایک بڑی مثال یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے حکم صادر ہونے کے باوجود جے آئی ٹی میں فوجی افسر بھیجنے پہ آمادہ نہ تھے۔ ساتھیوں سے مشورہ کیا تو قائل ہو گئے۔ احسان مندی کے احساس سے دوچار، انہوں نے وزیراعظم کی ترجیحات کو ملحوظ رکھنے کی کوشش کی مگر یہ کوشش میاں صاحب کی نخوت نے ناکام بنا دی۔ لیڈروں اور گروہوں کے اپنے ارادے، امنگیں اور آرزوئیں ہوتی ہیں مگر فیصلے پروردگار کے۔
ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں فوج کی تعداد بہت کم تھی اور عظیم اکثریت رکھنے والے شیخ مجیب الرحمٰن کی تحریک طاقتور۔ صدر کے طور پر یحییٰ خان مسلط رہنے کے آرزومند تھے، با اختیار صدر۔ ایک بار کہا تھا: میں برطانیہ کی ملکہ نہیں بنوں گا۔ بھٹو کی اکثریت صرف سندھ اور پنجاب میں تھی۔ سندھ میں بھی ساٹھ میں سے اٹھائیس سیٹیں۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت میں حصے پر اصرار تھا۔ لاہور کے چئیرنگ کراس پر ڈیوٹی پر مامور اس اخبار نویس نے انہیں کہتے سنا "اقتدار کا سرچشمہ سندھ اور پنجاب ہیں اور ان کی چابیاں میری جیب میں "۔ ان کے ایسے ہی ایک خطاب پر اساطیری نیوزایڈیٹر عباس اطہر نے سرخی جمائی تھی "ادھر ہم، اْدھر تم"۔ یاد رہے کہ عباس اطہر بھٹو کے قائل تھے۔ انہیں پھانسی دی گئی تو بہت سی نظمیں لکھیں اور عنوان رکھا "ذکر"۔ سادہ الفاظ میں بھٹو کا مطالبہ یہ تھا کہ سندھ اور پنجاب کے علاوہ مرکز میں بھی وہ شریکِ اقتدار کیے جائیں۔ یحییٰ خاں کے وہ حلیف بن گئے۔ انہیں اکساتے رہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن سے اپنی شرائط تسلیم کرائیں۔ یعنی خود صدر بنیں، وفاقی وزارتوں میں بھٹو کو حصہ دلوائیں۔ سندھ اور پنجاب بھٹو کے حوالے کریں اور بتدریج شیخ صاحب کو پسپا کر دیں۔
پسپا پاکستان ہوا۔ اس لیے کہ اقتدار کے لیے تینوں فریق دیوانے ہو رہے تھے۔ آج بھی وہی عالم ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے عمران خان اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔ مخالفین کو برباد کرنے کے آرزومند۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی طرح، بھارت اور امریکہ سے، جس نے سازباز کر لی تھی، نوازشریف بھی ہندوستان اور ریاست ہائے متحدہ کوشادکام رکھنا چاہتے ہیں۔ خیر سے اب ایک عرب ملک کی تائید بھی حاصل ہے۔ فوج البتہ مختلف ہے اور اس کا سربراہ بھی۔ بہت طاقتور اور قدرے محتاط، اگرچہ ماضی میں پہاڑ سی غلطیاں اسٹیبلشمنٹ نے کی ہیں۔ کل بنگالی قوم پرستی تھی، ہندوستان اب پشتون قوم پرستی کو ہوا دے رہا ہے۔ افغان اور امریکی انتظامیہ اس کی مددگار ہیں۔ ایک حد تک برطانیہ بھی۔ یہ ممالک پاکستان میں عدمِ استحکام کے خواہش مند ہیں۔ رہا بھارت تو 1970ء کی طرح وہ باقی ماندہ پاکستان کو توڑنے کے درپے ہے۔
ہوش کے ناخن لیجیے صاحب، ہوش کے۔ ہیجان اورچیخ و پکار نہیں، تدبیر اور تحمل درکار ہے۔ ہوسِ اقتدار کے مارے لیڈروں کو لگام ڈالنا ہوگی۔ خود ان کے حامیوں کو بروئے کار آنا ہوگا۔