شورش کاشمیری اور عاصمہ جہانگیر
آج کل کے صحافی شورش کاشمیری کے نام سے زیادہ آشنائی نہیں رکھتے۔ وہ پاکستانی صحافت میں مولانا ظفر علی خان کی روایت کے امین تھے اور سیاست پر شاعرانہ تبصرے کیا کرتے تھے۔ 1974ء کی ختم نبوت کی تحریک میں ان کا کردار بہت اہم تھا۔ شورش کاشمیری اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی ناقد تھے لیکن جب ختم نبوت کا مسئلہ حل ہوا تو انہوں نے ایک نظم بھٹو کی نذر کی اور انہیں ایک بے نیام ذوالفقار علی قرار دے کر قافلہ سالار زندہ باد کا نعرہ بلند کر دیا۔ شورش کاشمیری صاحب کی سات بیٹیاں تھیں اور وہ اپنی ان ساتوں بیٹیوں کو عاصمہ جیلانی جیسا بنانا چاہتے تھے جو شادی کے بعد عاصمہ جہانگیر بن گئیں۔ 13؍ اکتوبر کو لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی تقریر کے دوران مجھے بار بار شورش کاشمیری کی وہ نظم یاد آ رہی تھی جس میں انہوں نے اپنی ساتوں بچیوں کو عاصمہ کی طرح بے مثال بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر کا انتقال 11؍ فروری 2018ء کو ہوا لیکن ان کی بیٹیوں سلمہ اور منیزے نے پہلی برسی کا انتظار نہیں کیا اور برسی سے پہلے ہی ایک شاندار بین الاقوامی کانفرنس منعقد کر ڈالی جس کا افتتاحی سیشن ایک جلسے کی صورت اختیار کر گیا تھا جس میں آدھے شرکاء کرسیوں پر بیٹھے تھے، آدھے کھڑے تھے اور اس سے بھی زیادہ کانفرنس ہال کے باہر بے چینی اور غصے کا شکار تھے کیونکہ اندر جگہ نہ ہونے کے باعث ہال کے دروازے بند کر دیئے گئے تھے۔ ان شرکاء میں زیادہ تعداد نوجوان وکلاء اور یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کی تھی عاصمہ جہانگیر کے ساتھ نئی نسل کی عقیدت یہ بتا رہی تھی کہ ریاستی ادارے اپنے لامحدود وسائل اور طاقت کے ذریعہ کسی کو کتنا ہی غدار اور کافر قرار کیوں نہ دیں لیکن آزادی اظہار پر پابندیاں لوگوں کی سوچ کو تبدیل نہیں کرسکتیں۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں سمیت دنیا بھر سے آئے دانشور اور صحافی ایک ایسی خاتون کی بہادری کو سلام پیش کر رہے تھے جسے پاکستان میں بھارتی ایجنٹ اور بھارت میں پاکستان کا خفیہ ہتھیار کہا جاتا تھا کیونکہ عاصمہ جہانگیر نے اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل کشمیری حریت پسند برہان وانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو ایک مکار لومڑ قرار دیا تھا۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بتا رہے تھے کہ انہوں نے پہلا از خود نوٹس 31؍ دسمبر 2016ء کو عاصمہ جہانگیر کے کہنے پر لیا تھا اور ایک بچی طیبہ پر تشدد کرنے والے با اثر افراد پر ہاتھ ڈالا تھا۔ چیف جسٹس صاحب کہہ رہے تھے کہ میں نے عاصمہ جہانگیر جیسی بہادر خاتون آج تک نہیں دیکھی۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ عاصمہ جہانگیر نے مجھے ایس ایم ظفر کا پیغام دیا کہ جمہوریت کو شدید خطرات درپیش ہیں جس کے بعد چیف جسٹس صاحب نے کھل کر یہ کہا کہ جمہوریت کے خلاف کوئی اقدام قبول نہیں کیا جائے گا۔ مجھے یاد ہے چیف جسٹس صاحب نے یہ بات ایوان اقبال لاہور میں ایک تقریب میں کہی تھی جس کا اہتمام عارف نظامی صاحب نے کیا تھا اور ناچیز بھی اسٹیج پر موجود تھا۔ اس وقت ہمیں یہ پتا نہیں تھا کہ چیف جسٹس صاحب جمہوریت کا دفاع کیوں کر رہے ہیں لیکن 13؍ اکتوبر کی دوپہر پتا چلا کہ انہیں عاصمہ جہانگیر نے ایس ایم ظفر کا پیغام دیا تھا۔ ایس ایم ظفر صاحب کا ذکر چیف جسٹس کی زبان سے سنا تو تجسس ہوا کہ مزید معلومات حاصل کی جائیں۔ ایس ایم ظفر سے رابطہ کیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ واقعی انہوں نے عاصمہ جہانگیر سے جمہوریت کو درپیش خطرات پر بات کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے چیف جسٹس کو ایک خط بھی لکھا تھا۔ بات ختم ہو گئی تو کچھ دیر بعد ان کا دوبارہ فون آیا اور انہوں نے کہا کہ جمہوریت کو اب فوج سے نہیں بُری گورننس سے خطرہ ہے۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں چیف جسٹس نے ایک دفعہ پھر واضح الفاظ میں کہا کہ اب صرف جمہوریت چلے گی اور آئین کے خلاف کوئی اقدام قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس پر بھرپور تالیاں بجائی گئیں لیکن میرے اردگرد موجود کچھ سیاسی رہنما اور دانشوروں نے تالیاں نہیں بجائیں۔ ایک صاحب نے مجھے کہا کہ ہم نے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کر رکھا ہے ہم ان کے خلاف پریس کانفرنس کریں گے۔ میں نے عرض کیا آپ جو چاہیں کریں لیکن ہم سب جس آئین کی پاسداری کی بات کرتے ہیں اس کی دفعہ 19ہمیں عدلیہ کے خلاف بولنے سے روکتی ہے لہٰذا پہلے دفعہ 19میں ترمیم کا مطالبہ کیا جائے پھر باقی کام کئے جائیں۔
دفعہ 19کا ذکر عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوسرے سیشن میں بھی ہوا جس کا موضوع آزادی اظہار کو درپیش خطرات تھا۔ اس سیشن کی میزبانی میرے ذمہ تھی اور دیگر مقررین میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے ایشیا کوارڈی نیٹر سٹیون بٹلر، بھارت کے معروف صحافی سدھارتھ وردھا راجن، سری لنکا کی صحافی دل رخشی ہندو نیتی، نیپال کے صحافی کانک مانی ڈکشٹ، پاکستان میں یورپی یونین کے سفیر یاں فوانسوا کوتاں، خاتون پاکستانی صحافی فرزانہ علی اور لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس جواد حسن نے خطاب کیا۔ سٹیون بٹلر نے کہا کہ آزادی اظہار پر پاکستان میں نہیں بلکہ ایشیا، یورپ اور افریقہ کے کئی ممالک سمیت امریکا میں بھی حملے کئے جا رہے ہیں۔ کانک مانی ڈکشٹ نے ہمیں ایک 26سالہ نیپالی صحافی اوما سنگھ کی بہادری کی کہانی سنائی جسے کھٹمنڈو میں قتل کر دیا گیا۔ میں نے نوائے وقت کے رپورٹر ذیشان اشرف بٹ کا ذکر کیا جنہیں سمبڑیال میں قتل کیا گیا۔ چیف جسٹس نے از خود نوٹس بھی لیا لیکن قاتل تا حال گرفتار نہیں ہو سکے۔ سدھارتھ نے اپنی دوست صحافی گوری لینکش کا ذکر کیا جسے بی جے پی نے قتل کرا دیا۔ سدھارتھ نے بتایا کہ بھارتی میڈیا میں کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کے خلاف بولنے والوں کو غدار قرار دیا جاتا ہے میڈیا کی آزادی کے دشمن میڈیا میں ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی یہ گفتگو حاضرین میں بیٹھے ہوئے بھارتی ہائی کمشنر بھی سن رہے تھے۔ فرزانہ علی نے پاکستانی میڈیا کو درپیش مشکلات کا بڑی بہادری سے ذکر کیا۔ جسٹس جواد حسن نے دلائل کے ساتھ عدلیہ کا دفاع کیا اور کہا کہ عاصمہ جہانگیر غریبوں اور مظلوموں کو اسی عدلیہ سے انصاف دلاتی رہیں۔ میں نے سوال اٹھایا کہ آئین کی دفعہ 19میں آزادی اظہار پر چھ سات پابندیاں شامل ہیں۔ یہاں تک کہ کسی دوست ملک پر تنقید بھی جرم ہے کیا یہ پابندی ختم نہیں ہونی چاہئے؟ حاضرین میں سے آئی اے رحمان نے کہا کہ یہاں سب پابندیاں اچھے لوگوں کے لئے ہیں بُرے لوگوں پر کوئی پابندی نہیں وہ جسے مرضی کافر کہیں غدار کہیں انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ عاصمہ جہانگیر کو بھی کافر اور غدار کہا گیا لیکن وہ ہر غریب کی فریاد، آزادی کے ہر خواب اور کالے کوٹ کی جرأت اظہار میں آج بھی زندہ ہے۔ آخر میں مجاہد ختم نبوت شورش کاشمیری کے وہ اشعار پیش ہیں جن میں انہوں نے اپنی ساتوں بچیوں کو عاصمہ جیسی بے مثال بنانے کی خواہش ظاہر کی۔
بنت جیلانی پر ہو لطفِ خدائے ذوالجلال
مائیں ایسی بیٹیاں جنتی لیکن خال خال
رات دن میری دعا ہے بارگاہِ اقدس میں
جس کے گھر بیٹی ہو، وہ بیٹی ہو ایسی خوش خصال
خطہ پنجاب سے مایوس ہوں لیکن ابھی
آ نہیں سکتا مسلمانوں کو اے شورشؔ زوال
ایک عاصمہ غیرت پنجاب کی للکار ہے
خوش نہاد و خوش سرشت و خوش دماغ و خوش خیال
ایک تتلی میں شیروں کے تہور کی جھلک
ایک کونپل جس کی آب و تاب میں سحر و جلال
اپنی اّمی کی جگرداری کا نقش دل پذیر
اپنے اّبا کے سیاسی ولولوں سے مالامال
جب مرے اس ملک پر شورش کوئی اُفتاد آئے
میری ساتوں بچیاں اس کی طرح ہوں بے مثال