سندھ رواداری مارچ، جیالوں کی پھبتیاں اور پولیس تشدد
مصمم ارادہ یہی تھا کہ آپ کو گزشتہ سے پیوستہ روز کئے گئے 15 گھنٹے کے آذیت بھرے سفر کی "داستانِ غم" سنائوں اور مشورہ دوں کہ سفر مرضی سے کیا کریں مشوروں پر نہیں۔ لیکن اتوار کو کراچی میں سندھ رواداری مظاہرے کے شرکا کے ساتھ پولیس کے غیرانسانی برتائو، تشدد اور لاٹھی چارج کے علاوہ مردوں کے کپڑے پھاڑنے اور رومیسا جامی چانڈیو کو سڑک پر گھسیٹنے کی خبروں نے اپنی جانب متوجہ کیا۔
اسی دوران میرے لائق احترام سندھی دوست پروفیسر عزیز سولنگی کی جانب سے واٹس ایپ پر بھجوائے گئے پیغام، خبروں اور ویڈیوز نے معاملے کو سمجھنے میں مدد دی۔ پروفیسر عزیز سولنگی سندھ کے ترقی پسند دانشور ہیں ان کی بات، رائے اور کس واقعہ کے حوالے سے معلومات مجھ طالب علم کے لئے دھانسو برانڈ ذرائع ابلاغ سے زیادہ معتبر ہیں۔
ابھی اس افسوسناک واقعہ کے حوالے سے دستیاب تصاویر، ویڈیوز، خبروں وغیرہ سے استفادہ کررہا تھا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے پرجوش حامی بلکہ سوشل میڈیا پر ون مین آرمی کی شہرت رکھنے والے دوست رانا شرافت علی ناصر کی 2 فیس بک پوسٹوں پر نگاہ پڑی۔
اپنی 2 فیس بک پوسٹوں میں سے ایک میں انہوں نے اتوار 13 اکتوبر کو کراچی میں سندھ رواداری مارچ کے شرکا پر تشد کرنے والے پولیس افسروں کو معطل کئے جانے کی اطلاع دیتے ہوئے معطلی کے نوٹیفکیشن کا عکس بھی لگایا لیکن دوسری پوسٹ میں ان کا کہنا تھا "وہ سب لوگ جو پولیس پر سندھ حکومت کے کنٹرول کے خلاف عدالتوں میں درخواستیں دائر کرنے کے عادی رہے ہیں ان سب کو یقین ہے کہ سید مراد علی شاہ کے حکم پر کل مظاہرین پر تشدد کیا گیا"۔
میں نے اپنے قانون دان دوست کی پوسٹ پر کمنٹس کرتے ہوئے عرض کیا "سر دفاع ضرور کیجئے لیکن زمینی حقائق کی روشنی میں، پولیس پر اختیار نہیں تو مراد علی شاہ دیہاڑیاں لگانے لگوانے کے لئے وزیراعلیٓ بنا پھرتا ہے؟"
اتوار کو کراچی میں سندھ رواداری مارچ پر ہونے والے پولیس تشدد، لوگوں کے کپڑے پھاڑنے اور معروف سندھی دانشور جامی چانڈیو کی صاحبزادی کو مرد پولیس اہلکاروں کی جانب سے گھسیٹنے پر محترمہ بینظیر بھٹو کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری نے بھی سوشل میڈیا کی سائٹ "ایکس" پر مذمتی پوسٹ کی۔
نوابشاہ سے قومی اسمبلی کی رکن اور محترمہ بینظیر بھٹو کی دوسری صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری نے سوشل میڈیا پر یقین دلایا کہ نامناسب برتائو اور تشدد کے ذمہ دار پولیس والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
اتوار 13 اکتوبر کو کراچی میں ہونے والا سندھ رواداری مارچ امر کورٹ (عمر کوٹ) سندھ میں گزشتہ دنوں جعلی پولیس مقابلے میں قتل ہونے والے ڈاکٹر شاہنواز شہید کی یاد اور سندھ میں ایک منصوبے کے تحت بڑھائی جانے والی مذہبی انتہا پسندی کے خلاف تھا۔ اس مارچ کا اعلان ہفتہ دس دن قبل کیا گیا تھا۔
جمعہ 11 اکتوبر کو ایک انتہا پسند مسلکی تنظیم ٹی ایل پی نے سندھ رواداری مارچ کے جواب میں ریلی نکالنے کا اعلان کیا۔ ٹی ایل پی وہی تنظیم کے جس کے میر پور خاص اور امر کوٹ کے سرکردہ لوگوں سمیت ایک انتہا پسند پیر عمر جان سرہندی ڈاکٹر شاہنواز پر توہین مذہب کا الزام لگانے اور لوگوں کو اس کے قتل پر اکسانے میں پیش پیش تھے۔
سرہندی پیر ان دنوں ڈاکٹر شاہنواز کے مقدمہ قتل میں عبوری ضمانت پر ہے اور وہ اپنے طاقتور گماشتوں کے ذریعے مقتول ڈاکٹر کے خاندان کے علاوہ سندھ کے صوفی گلوکار مانجھی فقیر اور ان سرکردہ لوگوں کو دھمکیاں دے دلوارہا ہے جو جعلی پولیس مقابلے میں قتل ہونے والے ڈاکٹر شاہنواز کے معاملے میں آواز اٹھارہے ہیں۔ اتوار کے سندھ رواداری مارچ کے شرکا کے ساتھ سندھ پولیس کا سلوک فقط نامناسب ہی نہیں شرمناک اور قابل مذمت ہے۔
ایک غلط عمل کا دفاع کیوں اور کیسے کیا جائے؟
ظاہر ہے عقلی اور شعوری طور پر یہ ممکن نہیں۔ سندھ کے وزیرداخلہ نے تشدد والے دن اتوار کو جو پھلجڑیاں چھوڑیں وہ قابل مذمت ہیں۔ رواداری مارچ والے پرامن شہریوں نے پولیس پر نہیں پولیس نے ان پرامن لوگوں پر حملہ کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔
کراچی میں دفعہ 144 تھی تو چند دن قبل جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں نے جب اس دفعہ 144 کو روندا تب سندھ حکومت بوٹی پی کر سورہی تھی یا دفعہ 144 کو روندنے والوں کی تعداد پولیس سے زیادہ تھی؟
کیا روارداری مارچ کرنے والوں کے منتظمین سے بات نہیں کی جاسکتی تھی انہیں بتایا جاتا کہ کن وجوہات کی بنا پر کراچی میں دفعہ 144 نافذ کی گئی درخواست کی جاتی کہ ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کے معاملے میں مقتول کے خاندان کی رضامندی سے مقدمہ درج ہوچکا، احتجاج چند دن کے لئے موخر کردیجئے۔ سندھی سماج کے اہل دانش مرد و خواتین پر جس طرح پولیس نے تشدد کیا وہ ناقابل معافی ہے۔ وضاحتیں دینے اور پھبتیاں کسنے والے جیالوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی جماعت، آئین و قانون، جمہوریت اور عوام دوستی کی علمبردار ہے۔
نامناسب بلکہ شرمناک واقعہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کی حدود میں ہوا۔ بات بات پر سندھ حکومت کی بے اختیاری کا رونا رونا اچھی بات نہیں تقرریوں تبادلوں کے خلاف عدالتوں میں جانے اور انصاف انصاف کھیلنے والے منصفوں میں سے کوئی بھی سندھ رواداری مارچ کا حصہ نہیں تھا۔
وہ ہوتے بھی کیوں جو لوگ "سٹیشن کمانڈر" کے کہنے پر عدالتوں میں درخواستیں د یتے ہیں اور جو ملی بھگت سے فیصلے سناتے ہیں دونوں سے سندھ کا ہر کس و ناکس ہمیشہ برات کا اظہار کرتا رہا اور اب بھی کرتا ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ سندھ رواداری مارچ کے خلاف مذہبی شدت پسند ٹی ایل پی کی جانب سے جوابی ریلی نکالنے کے اعلان کے بعد کراچی کی انتظامیہ نے کیا کیا اور سندھ حکومت نے اس معاملے کو نظر انداز کیوں کیا؟ ہونا یہ چاہیے تھا کہ شدت پسند تنظیم کے بڑوں چھوٹوں کے ساتھ قوانین کے مطابق سلوک کیا جاتا اور انہیں رواداری مارچ کے خلاف ریلی نکال کر شہریوں کے مختلف طبقات کے درمیان تصادم کی سازش پر عمل سے روکا جاتا۔
یہ نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس اس مسلکی شدت پسند تنظیم کے لوگوں نے پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا پولیس کی گاڑی جلائی اور ان شدت پسندوں کے درمیان موجود ایک مسلح شخص کی فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ پولیس پر مسلکی تنظیم کے کارکنوں کے تشدد سے متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔
ایک ہی دن میں پرامن رواداری مارچ کے شرکاء کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا پولیس کو شدت پسند مذہبی تنظیم نے، سوشل میڈیا پر پی پی پی کے بعض جیالے اور ہمدرد اپنا غصہ سندھ رواداری مارچ والوں پر نکالتے ہوئے جملے کسنے میں مصروف ہیں۔ یہ جملہ بازی اس سیاسی جماعت کے حامیوں کی جانب سے ہے جس کی ایک سربراہ سیاسی جدوجہد کے دوان ریاستی دہشت گردی سے شہید ہوئیں۔
سوموار کو سندھ کے وزیر داخلہ نے پولیس تشدد کی تحقیقات کا اعلان کیا۔
تحریر نویس کی اطلاع کے مطابق رکن قومی اسمبلی اور محترمہ بینظیر بھٹو کی چھوٹی صاحبزادی آصف زرداری نے اپنے بھائی بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ اور وزیر داخلہ سندھ تینوں سے ٹیلیفون پر شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آصفہ بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ "کراچی میں سندھ رواداری مارچ میں شامل خواتین پر تشدد اور انہیں مرد پولیس اہلکاروں کا سڑک پر گھسیٹنا انتہائی شرمناک ہے نیز یہ کہ یہ عمل میری شہید والدہ کی سوچ اور جدوجہد کے منافی بھی ہے"۔
مکرر اس امر کی جانب متوجہ کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ اگر سندھ حکومت اتنی ہی بے اختیار ہے تو پی پی پی چھوڑ دے صوبائی حکومت کیوں اپنے دامن پر ہر روز ایک نیا داغ لگواتی ہے۔ ماضی میں کہا گیا کہ رکن قومی اسمبلی (اب سابق) علی وزیر کے خلاف کراچی میں درج ہونے والے مقدمات آئی ایس آئی نے براہ راست درج کروائے چلیں مان لیا لیکن اتوار کے سندھ رواداری مارچ والوں کے خلاف مقدمہ کس نے درج کروایا؟
کسی ایجنسی نے، سندھ حکومت نے، خود پولیس نے یا کسی فرشتے نے؟