Khutbah e Ghadir
خطبہ غدیر
حضور پاک ﷺ کا ارشاد پاک ہے۔۔
اللہ جس کا مولیٰ اس کا میں مولا
جس کا میں اس کا مولا علی
دل تو کر رہا تھا اس خطبہ پر لمبی بحث کروں، تاریخ کے تمام حوالے ساتھ دوں، اس خطبہ کے بارے فریقین کے عقیدے بیان کروں، اس خطبہ کی صحت کے اوپر بات کروں، پھر سوچا یہاں تو میں صرف کتاب کا تبصرہ پیش کر رہا ہوں، درج بالا تمام نکات کسی دن تحقیقی مضمون کی شکل میں پیش کروں گا۔ ادھر ذرا اس کتاب پر بات ہو جائے۔
یہ کتاب جیسا کہ نام سے ظاہر ہے غدیر خم کے مقام پر ہادی رسول ﷺ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا اس کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ مصنف نے اس میں دعوت ذوالعشیرہ کا خطبہ بھی جمع کر دیا ہے جس سے خلافت اور جانشین رسول ﷺ پر روشنی پڑتی ہے۔ آئیے اب ذرا اس خطبہ کے چیدہ چیدہ نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔
مسلمانوں کے اندر حضور پاک ﷺ کی خلافت اور جانشینی کے حوالے سے اختلاف پہلے دن سے چلتا آ رہا ہے۔ ایک گروہ ابوبکر صدیق کو خلیفہ حق مانتا ہے تو دوسرا گروہ مولا علیؑ کو آپ کا وارث، جانشین اور خلیفہ بلا فصل مانتا ہے۔ ہر دو گروہوں کے پاس اپنے اپنے دلائل موجود ہیں۔ یہاں ہم اس خطبہ کو ذرا کھنگالتے ہیں کہ یہ خطبہ ہمیں کیا بتاتا ہے۔
اس خطبہ کے حوالے سے ایک ہی بات زبان زد و عام ہے (جس کا میں مولا اس کا علیؑ مولا)، اس بات کو سنتے تو سب ہیں مگر اس کی تاویل ہر کوئی اپنے حساب سے کرتا ہے۔ مثال کے طور پر لوگ لفظ مولا کے مختلف معنی نکال لیتے ہیں۔ کوئی مولا کو دوست کے معنوں میں لیتا ہے تو کوئی سردار اور آقا کے معنوں میں۔ جو لوگ مولا کو دوست سمجھتے ہیں وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ حضور پاک ﷺ نے مولا علیؑ اور خود کو ایک بتایا ہے۔ مطلب تم جو نبی اکرم ﷺ کو سمجھتے ہو وہی تمہیں مولا علیؑ کو سمجھنا پڑے گا۔ اب یہ تمہارے اوپر ہو تم نبی کو دوست سمجھتے ہو یا آقا و مرشد و ہادی ومربی و سردار۔
اس کے بعد یہ کتاب (ہر دو خطبے) امامت و خلافت کے اوپر بھی بھرپور روشنی ڈالتے ہیں (مزید تفصیل کے لیے قاری ظہور احمد فیضی کی "خلافت باطنیہ" اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کے "خلافت و ملوکیت" ملاحظہ ہو) ایک گروہ کا کہنا یہ ہے کہ حضور پاک ﷺ اپنی زندگی میں ہی مولا علیؑ کو امام نامزد کر گئے تھے اور اس کی نص وہ قرآن سے اٹھاتے ہیں (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت 124، سورہ انبیا آیت 73 اور سورہ سجدہ آیت 24)۔ دوسرا گروہ اجتہاد پر فیصلہ کرتا ہے (جس کی مثال ہمیں ثقیفہ بنی ساعدہ میں دیکھنے کو ملتی ہے)۔
اس خطبے کے نزول پر بھی گروہوں میں بہت اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے عرفات کے مقام پر نبی اکرم ﷺ نے جو خطبہ دیا تھا جسے تاریخ خطبہ حجتہ الوداع کے نام سے جانتی ہے، وہاں دین مکمل ہوگیا تھا اور اگر مولا علی کی خلافت اتنا ہی ضروری مسئلہ تھا تو آپ ﷺ نے وہاں پر بیان کیوں نہیں کیا؟ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ دین غدیر خم کے موقع پر مکمل ہوا ہے جس کی دلیل کے طور پر وہ غدیر پر نازل ہونے والی آیات کا حوالہ دیتا ہے (سورہ مائدہ آیات 67 اور سورہ مائدہ آیت اکمال دین، سورہ معارج آیات 1-3)۔
اس کے بعد اگر خطبہ کے نکات کاُ جائزہ لیا جائے تو اس کے تین حصے ہمارے سامنے آتے ہیں۔۔
1۔ سب سے پہلے حضور اکرم ﷺ اللہ پاک کی حاکمیت، وحدانیت، قدرت، رحمت، جبروت غرض ہر ہر صفت بیان کرتے ہیں۔
2۔ دوسرا حصہ حضور اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت سے متعلق ہے۔ اس میں آپ ﷺ لوگوں کو یہ یاد کرواتے ہیں کہ تم لوگ کیا تھے اور اللہ پاک نے میرے ذریعے سے تم لوگوں پر کیا کیا احسانات کیے۔
3۔ آخری حصہ مولا علیؑ کی امامت و خلافت سے متعلق ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اتنی تاکید کی اتنی تاکید کی کہ اس خطبہ کے اجزا تاریخ کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں۔ چند ایک میں یہاں درج کر دیتا ہوں۔
1۔ علی کی اطاعت مہاجرین و انصار، عربی و عجمی، آزاد و غلام، چھوٹے بڑے، کالے گورے اور ہر اس شخص پر واجب ہے جو خدا کی توحید پر ایمان رکھتا ہے۔
2۔ جو علی کی پیروی اور تصدیق کرے گا وہ رحمت کا مستحق ہوگا اور جو اس کی مخالفت کرے گا اس پر خدا کی لعنت۔
3۔ لوگوں اس سے بہک کر اور طرف نہ جانا اور اس کو حاکم بنانے سے بیزاری اختیار نہ کرنا۔
4۔ حلال و حرام کی معرفت خدا نے مجھے دی اور میں نے اسے علی کے سپرد کر دیا۔ اے لوگو کوئی علم ایسا نہیں ہے جسے خدا نے میری ذات میں محصور نہ فرمایا ہو اور وہ میں نے امام المتقین علیؑ کو نہ دے دیا ہو۔
5۔ لوگو اس کی امامت کو مانو کہ اللہ نے اسے امام مقرر کیا ہے۔
6۔ اللہ کسی ایسے شخص کی توبہ قبول نہ کرے گا جو اس کی امامت کا منکر ہوگا۔