190 ملین پاونڈ کی کہانی
یہ دو جمع دو چار کی طرح واضح معاملہ ہے کہ آپ ایک پراپرٹی ٹائیکون کوستر، اسی ارب روپوں کا فائدہ پہنچاتے ہیں اور وہ جواب میں آپ کو سات، آٹھ ارب کی پراپرٹی دے دیتا ہے یعنی سیدھا ساداٹین پرسنٹ مگر پی ٹی آئی کے وکلا، رہنما اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اس پر عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ دو افراد کے درمیان تھا اوریہ کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی پاکستان کی ریاست کی بجائے پراپرٹی ٹائیکون کو رقم واپس کرنا چاہتی تھی، کیا آپ کے خیال میں یہ موقف مضحکہ خیز نہیں ہے؟ منی لانڈرنگ بین الاقوامی قوانین اور اداروں کی نظر میں ایسا ہی جرم بن چکا جیسا ڈرگ ٹریفکنگ۔
جدید اور مہذب ممالک نے پریکٹس بنا لی ہے کہ وہ جس ملک کے لوٹے ہوئے پیسے برآمد کرتے ہیں اسے لوٹا دیتے ہیں۔ اگر نیشنل کرائم ایجنسی یا برطانیہ نے یہ ایک سو نوے ملین پاؤنڈ پراپرٹی ٹائیکون کوہی واپس کرنے ہوتے تو انہیں پاکستان بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ پراپرٹی ٹائیکون کی وہ رقم تھی جو اس نے منی لانڈرنگ کی اور تحقیقات میں اس کمائی اور منتقلی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکا۔
بہت سادگی سے کہا جاتا ہے کہ رقم برطانیہ نے بھیجی، وہ پہلے سپریم کورٹ اور پھر سٹیٹ کے اکاؤنٹ میں چلی گئی، اس میں عمران خان، بشریٰ بی بی یا فرح گوگی نے کیا لیا۔ یہ بات درست ہے کہ اس ایک سو نوے ملین پاؤنڈ سے ایک پاؤنڈ بھی نہیں لیا مگر اس کے باوجود اتنی سادہ نہیں ہے۔ ہم اس میں غلط بیانی کو بعد میں واضح کریں گے اوراس سے پہلے یہ بتائیں گے کہ اس کے بدلے فرح گوگی نے بنی گالہ میں اڑھائی سو کنال اور پھر بشریٰ بی بی نے ساڑھے چار سو کنال زمین حاصل کی۔
ہیروں کی انگوٹھیاں اور کروڑوں روپے اس سے الگ ہیں۔ یہ رقم برطانیہ نے پاکستان کی ریاست یعنی اس کے عوام کو واپس کی تھی مگر یہ پراپرٹی ٹائیکون کو سپریم کورٹ کی طرف سے ہونے والے ساڑھے چار سو ارب کے اس جرمانے میں ایڈجسٹ کروا دی گئی جو بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں ہوا تھا یعنی وہ رقم جو پراپرٹی ٹائیکون نے برطانیہ میں کھوئی وہ کابینہ کے فیصلے کے بعد اس کے پاکستان کے جرمانے میں جمع ہوگئی، یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی سکینڈل ہے۔
چلیں، لمحہ بھر کے لئے یہ مان لیتے ہیں کہ عمران خان کا اس پورے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے تو وہ پھر وہ بطور وزیراعظم کابینہ سے بندلفافے میں اس کی منظوری کیوں لیتے ہیں کہ پاکستان آنے والی رقم پراپرٹی ٹائیکون کے جرمانے میں چلی جائے کیونکہ وہ پاکستان کے عوام کی ملکیت ہوتی ہے اور اگر وہ ایک سو نوے ملین پاؤنڈز کو منتقل نہ کرتے تو پراپرٹی ٹائیکون کو یہی رقم الگ سے دینا پڑتی جس کی وہ سپریم کورٹ میں کمٹ منٹ کر چکے تھے۔
کوئی نارمل آئی کیو والا میٹرک پاس بھی عمران خان کو بے گناہ ماننے کو تیار نہیں کیونکہ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ پیسے بنانا جانتے ہیں جیسے ناجائز فنڈنگ کے ذریعے، جیسے توشہ خانہ کی گھڑیاں بیچ کے، جیسے راولپنڈی رنگ روڈ جیسے منصوبوں کے ذریعے۔ ان کے پاس مشکوک رقوم کی آمد کا سلسلہ پرانا ہے جیسے بنی گالہ کی خریداری سے لے کر لاہور کے گھر کی تعمیر تک۔ وہ ملک کے واحد معروف سیاستدان ہیں جن کا ذریعہ معاش کچھ نہیں مگر وہ ارب پتی ہو گئے ہیں۔
اگر اصولی اور کتابی بات کریں تو شوکت خانم ایک ٹرسٹ ہے اور وہ ان کا کاروبار نہیں ہے۔ وہ کرکٹ چھوڑ چکے ہیں، ہم نے ربع صدی سے انہیں کبھی کمنٹری کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔ اس پروزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور ان کی کابینہ کی وزیر زبیدہ جلال باقاعدہ گواہی دے چکیں۔ کہا جاتا ہے کہ فواد چوہدری نے بھی اس مشکوک منظوری کی مخالفت کی تھی۔ ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کی واپسی، کابینہ کے فیصلے اور جرمانے میں ایڈجسٹمنٹ کا زمانہ وہی ہے جب سینکڑوں کنال اراضی لی جا رہی ہے، یہ محض اتفاق نہیں ہے۔
کتنی شرمناک بات ہے کہ پی ٹی آئی آفیشئل مہم چلا رہا ہے کہ عمران خان کو سیرت النبی ﷺ پڑھانے کی سزا دی جار ہی ہے۔ سوا ل یہ ہے کہ کیا رشوت میں لی ہوئی زمین پر مسجد بن سکتی ہے اور کیا فرح گوگی جیسی عورت جس نے پنجاب میں سرکاری عہدوں کی ٹی کے، کے ذریعے بولیاں لگوائیں اور جس کے دوسرے دھندوں بارے خود پی ٹی آئی کے صحافیوں کی گواہیاں وائرل ہیں سیرت کی جامعہ کی ٹرسٹی ہو سکتی ہے اور ان کی اہلیہ کی شہرت کالے جادو کے حوالے سے ہے جس کی گواہی افشاں لطیف دیتی پھر رہی ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ زمین پہلے لی گئی اور جب معاملہ بگڑا تو القادر ٹرسٹ بنا کے اسے تعلیم اور مذہب کا لبادہ اوڑھانے کی کوشش کی گئی۔ آپ پیشاب سے دھو کر اپنے کپڑے پاک نہیں کرسکتے۔ آپ وہ وجوہات بتا سکتے ہیں جن کی بنیاد پر پراپرٹی ٹائیکون نے یہ زمینیں عمران خان، ان کی اہلیہ اور فرنٹ وویمن فرح گوگی کو دیں۔ یوں بھی ٹرسٹ بنا کے یونیورسٹی یا ہسپتال بنانا سب سے بڑاکامیاب دھندا ہے اگر آپ امیر لوگوں سے پیسے نکلوانا جانتے ہیں۔ یہ اتنا کامیاب دھندا ہے اس میں بنیادی انویسٹمنٹ سے رننگ کاسٹ تک آپ کی نہیں ہوتی مگر اس کی عمارتیں، ملازم اوربھاری تنخواہیں سب آپ کی ہوتی ہیں۔
پی ٹی آئی کے تمام لوگ جانتے اور مانتے ہیں کہ عمران خان نے کرپشن کی ہے مگر ا ن کا سیاسی مفاد اسی میں ہے کہ وہ اس کرپشن کا دفاع کریں جیسے وہ اس سے پہلے ٹیریان کی پیدائش سے پرورش، عائلہ ملک کو کال اور بشریٰ بی بی سے نکاح جیسے معاملات کوان کا ذاتی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ افسوس، پی ٹی آئی نے سیاست کو ریاست پر مقدم تو رکھا ہی تھا مگر کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے سیاست کو ایمان پر بھی ترجیح دینی شروع کر دی ہے۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ اس کیس کا فیصلہ دسمبر سے ملتوی ہو رہا ہے اور اب چوتھی مرتبہ اس کی تاریخ آ گئی ہے۔ اگرایک عام وکیل کے سامنے بھی یہ کیس رکھ دیں تو وہ اس میں عمران خان کے ساتھ دونوں بیبیوں یعنی بشریٰ اور فرح کو بھی مجرم قرار دے گا۔
سازشی تھیوریوں میں شکوک ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ اس معاملے پر ڈیل ہو سکتی ہے، این آر او مل سکتا ہے جو آج ہونے والے مذاکرات سے جڑا ہوا ہے یعنی عمران خان اگر موجودہ سسٹم کو تسلیم کرلیں اور مزاحمت ترک کردیں جیسا کہ انہوں نے الیکشن آڈٹ اورچھبیسویں آئینی ترمیم کی واپسی کو تحریری مطالبات میں شامل نہیں کیا تو وہ انہیں ریلیف مل سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ خیال بھی ہے کہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نئے ججوں کی تعیناتی تک کے لئے ملتوی ہوا ہے۔ اندیشہ ہے کہ جیسے ہی سزا کے حوالے سے فیصلہ آئے گا اس کے ساتھ ہی اسے وہ جج اڑا دیں گے جو اس سے پہلے ایک ہی قسم کے فیصلے دیتے آئے ہیں۔