Wednesday, 15 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Public Private Partnership

Public Private Partnership

پبلک - پرائیویٹ پارٹنر شپ

محمد دانش علی خان جن کا تعلق کراچی کی اردو اسپکینگ مہاجر کمیونٹی سے ہے وہ اپنی ایک پوسٹ میں سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر پی پی پی شعبہ صحت اور تعلیم میں اداروں کی تعمیر میں اتنی دلچسپی کیوں دکھا رہی ہے؟ وہ شک کا اظہار کرتے ہیں کہ اس دلچسپی کے پیچھے بدعنوانی چھپی ہوئی ہے۔

دانش بھائی اگر پاکستان کے وفاق اور چاروں صوبوں کی حکومتوں کا "گورننس ماڈل " دیکھتے تو انھیں پتا چل جاتا کہ یہ گورننس ماڈل پورے ملک میں سرمایہ دارانہ معشیت کے نیو لبرل ماڈل سے لیا گیا ہے اور اس ماڈل کا سب سے بڑا اصول ریاستی ایڈمنسٹریشن میں چلنے والے تمام اداروں کی مکمل نجکاری ہے چاہے ان کا تعلق صنعتی پیداوار سے ہو یا زرعی پیداوار سے ہو یا انفارمیشن ٹیکنالوجی و سائنس سے ہو یا سروسز سیکٹر سے ہو یا سوشل سروسز سے ہو۔

اب یہاں دوسرا سوال یہ ہے کہ اس مکمل نجکاری کو کیسے رو بہ عمل لایا جائے۔

پی پی پی 1988ء سے 1990ء تک اپنے پہلے دور حکومت میں صنعتی اداروں کی مکمل نجکاری کی حامی رہی۔ اس نے گھی، سیمنٹ، شوگر ملز، ٹیکسٹائل ملز، فاونڈریز وغیرہ کی نجکاری کے جاری عمل کو تیز کیا۔

کاغذوں میں یہ بینکنگ سیکٹر کی نجکاری کو بھی کرنا چاہتی تھی لیکن وہاں پر طاقتور ٹریڈ یونینز جن میں پی پی پی کی حمایت یافتہ سی بی ایز زیادہ تھیں کی نجکاری کے لیے عملی اقدام نہیں اٹھایا۔

جبکہ اس نے پاکستان ریلوے، واپڈا، پی ٹی سی ایل، پی آئی اے کی نجکاری کی کھل کر مخالفت کی۔

نواز شریف نے 90ء میں بینکنگ سیکٹر کی مکمل نجکاری کے ایجنڈے پر تیزی سے قدم آگے بڑھایا اور 99 فیصد سرکاری بینک نجکاری شعبے کے حوالے کردیے تھے کہ حکومت چلی گئی۔

پھر 1993ء میں جب پی پی پی دوبارہ برسراقتدار آئی تو اس مرتبہ اس نے نجکاری کے حوالے سے کہیں زیادہ فراخ دلی دکھائی۔ اس مرتبہ اس نے اپنے ایجنڈے میں سروسز سیکٹر کی نجکاری کرنے کی بجائے اس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت نئے منصوبے بنائے۔ پی ٹی سی ایل میں اس نے پرائیویٹ کالنگ کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت دی۔ توانائی کے شعبے میں اس نے تیل اور گیس کی دریافت کے ٹھیکے اور لائسنس میں نجی شعبے کا حصہ زیادہ کیا اور بجلی کی پیداوار میں اس نے آئی پی پیز پالیسی متعارف کرائی۔ جبکہ اس نے تعلیم و صحت کے شعبے میں بھی پرائیویٹ میڈیکل، انجنئیرنگ، زرعی تعلیمی اور کاروباری اداروں کو زیادہ چھوٹ دی۔ اس دور میں اس نے ریلوے کی گاڑیوں کو پبلک۔ پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانے کا منصوبہ دیا لیکن وی نافذ نہ ہوسکا۔ جبکہ پی پی پی نے ریلوے کے انفراسٹرکچر بشمول ریلوے بوگیوں اور انجنوں کی مقامی پروڈکشن میں سرمایہ کاری انتہائی کم کردی اور اس کی جگہ امریکہ و چین سے خریداری شروع کی۔

پھر جب 1997ء میں نواز شریف کی حکومت آئی تو اس دور میں نواز شریف نے بہت تیزی سے بینکنگ سیکٹر میں بچے کھچے سرکاری بینکوں کو بھی نجی شعبے کے حوالے کرنا شروع کیا۔ ایک حبیب بینک بچ گیا تھا جسے مشرف دور میں نجکاری کے حوالے کردیا گیا۔ ریلوے کی مال بردار گاڑیاں بند کردی گئیں اور انجنز اور پرزوں کی مکمل خریداری بیرون ملک سے کی جانے لگی۔ نواز شریف دور میں واپڈا کے بجلی کے ترسیل کے نظام کو ڈسکوز میں تقسیم کردیا گیا۔ جبکہ بجلی کی پیداوار مکمل طور پر تھرمل بیسڈ بنادی گئی اور ہائیڈو پیداوار کا کوئی نیا منصوبہ نہیں بنایا گیا۔

نواز شریف دور میں ہی پہلی بار تعلیم اور صحت کے اداروں کی نجکاری شروع کرنے کا عندیہ دیا گیا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوا۔

جنرل مشرف کے آٹھ سالوں میں تعلیم اور صحت کے سرکاری شعبوں میں این جی اوز کی شمولیت کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھایا گیا۔ اس زمانے میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں لبرلائزیشن کے عمل کی جو پالیسی اپنائی گئی تھی 2008ء میں پی پی پی نے اس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی۔

پی پی پی نے 2013ء میں سندھ میں صحت اور تعلیم کے شعبے کو پبلک۔ پرائیویٹ پارٹنر شپ پالیسی میں شامل کرلیا۔ اس حوالے سے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ بھی تشکیل دیا۔

صحت کے شعبے میں سندھ حکومت کے پبلک۔ پرائیویٹ پارٹنر شپ کے دو بڑے پروگرام سامنے آئے اور ان کا مرکز امراض دل، گردہ اور پھیپھڑے تھے خاص طور پر ان کی ٹرانس پلاٹیشن۔ اس مقصد کے لیے سندھ حکومت نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (این آئی سی ایچ)، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیزز (این آئی سی وی ڈی) نامی ادارے قائم کیے اور چائلڈ ہیلتھ، جگر، پھیپھڑے، گردے اور دل کی ٹرانسپلانٹیشن اور سرجری کے شعبوں میں کام کرنے والے نجی اداروں کو اپنے سرکاری ہسپتالوں میں ان اداروں کا انتظام و انصرام سونپا اور نئے ہسپتال قائم کرنے کے لیے امداد دینا شروع کی۔ جبکہ مزید برآں، محکمہ صحت کے 1,374 مراکز نجی کمپنی 'پیپلز پرائمری' کے حوالے کردیے گئے۔

متعدد اسٹڈیز بتاتی ہیں کہ محکمہ صحت سندھ کے سرکاری ہسپتالوں اور اس میں سرکاری ایڈمنسٹریشن کے تحت چلنے والے جو شعبہ جات ہیں ان میں سندھ حکومت کی سرمایہ کاری بھی کم ہے اور وہاں گورننس پر بھی خاص توجہ نہیں دی جا رہی جبکہ تعلیم و صحت میں امیج بلڈنگ کا سارا زور پبلک۔ پرائیویٹ پارٹنر شپ کے منصوبوں کی تشہیر پہ لگایا جا رہا ہے۔ سندھ حکومت کا صحت کی مد میں جو بجٹ ہے اس میں پبلک۔ پرائیویٹ پارٹنر شپ میں شریک نجی کمپنیوں اور ٹرسٹ کا حصہ بھی بتدریج ترقی کر رہا ہے جبکہ سرکاری شعبہ صحت کا بجٹ کم ہورہا ہے۔ رواں مالی سال 2024.25 میں صرف 19 نجی کمپنیوں /ٹرسٹ /این جی اوز کو سندھ حکومت نے 15 ارب 60 کروڑ کی گرانٹس مختص کی ہیں۔ جبکہ اس میں 1350 بنیادی مراکز صحت کو چلانے والی پیپلز کمپنی کو دیا گیا بجٹ شامل نہیں ہے۔

انڈس کمپنی، ضیاءالدین ٹرسٹ، پیپلز کمپنی اور متعدد ہیلتھ این جی اوز کے بارے میں ایسے شواہد موجود ہیں کہ ان میں پی پی پی سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ، اشراف عہدے داروں کے انٹرسٹ موجود ہیں۔

صحت اور تعلیم کے شعبوں میں پرائیویٹ پارٹنر دراصل ان دو شعبوں کو مکمل نجکاری کی طرف لیجانے والا ایک منظم اور آہستہ آہستہ ابھرنے والا پراسس ہے جس پر پاکستان پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ پنجاب میں اور وفاق میں مسلم لیگ نواز بھی عمل پیرا ہے اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی بھی عمل پیرا ہے۔

سرکاری ہسپتالوں میں مفت اور سستے میڈیکل ٹیسٹ کی سہولت چاروں صوبوں اور وفاق میں بتدریج ختم ہو رہی ہے اور بڑے ٹیسٹوں میں جیسے سی ٹی اسکین، ایم آر آئی وغیرہ ہیں ان میں سرکاری ہسپتالوں میں اکثر مشینری خراب رکھی جاتی ہے یا ایکسرے فلموں کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے یا اس پراسس میں تاخیر روا رکھی جاتی ہے جس سے اکثر شہری پرائیویٹ اداروں کا رخ کرتے ہیں اور یہ طریقہ واردات بالآخر ان سہولتوں کو بھی نجی شعبے کے حوالے کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے اور اکثر حکومت کی جانب سے ان کے لیے فنڈز کے اجراء میں تاخیر کردی جاتی ہے۔

آخری تجزیے میں سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی سیاست، ریاستی باوردی و بے وردی بابو شاہی عالمی، مقامی سرمایہ داروں کے کارٹیلز کے مفادات کے لیے کام کرتی ہے اور اس میں ان سیاسی جماعتوں میں شامل بڑے اور چھوٹے سرمایہ داروں کے اپنے مفادات بھی شامل ہوتے ہیں۔

جبکہ ان سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں کو عوامی بناکر دکھانے والے سیاسی کارکن نما مخلوق یا تو ان جماعتوں کی اشرافیہ کے تنخواہ دار ہوتے ہیں یا دیہاڑی باز ہوتے ہیں یا پھر نرے پیدل سپاہی ہوتے ہیں جنھیں ہم پرائی شادی میں عبداللہ دیوانے کہہ سکتے ہیں اور جو اصل حقیقت آشکار کرتے ہیں وہ سیاسی / ڈیجیٹل دہشت گرد قرار دیے جاتے ہیں۔ ان کی جگہ نہ تو ان سیاسی جماعتوں کی مرکزی و صوبائی تنظیموں میں ہوتی ہے نہ پارلیمانی پارٹی میں ہوتی ہے نہ ان جماعتوں کے تھنک ٹینکس میں ہوتی ہے۔

Check Also

Public Private Partnership

By Muhammad Aamir Hussaini