Hum Jins Parasti, Porn Industry Aur Sex Education
ہم جنس پرستی، پورن انڈسٹری اور سیکس ایجوکیشن
بی۔ اے کے ملازمت کی تلاش میں مارچ 2009 میں ایک دن لاہور آیا۔ لوکل سفر کر رہا تھا، کسی سے جان پہچان نہیں تھی۔ ٹھوکر نیاز بیگ سے غالباً 23 نمبر بس میں بیٹھ گیا جو آر۔ اے بازار جا رہی تھی۔ کیمپس پُل کے پاس بس رُکی، کئی سواریاں اُتریں اور چڑھیں۔ میں کھڑکی کے ساتھ والی کُرسی پر بیٹھے شہرِ لاہور کی دو رویہ سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں دیکھ رہا تھا جن میں خوبصورت لڑکیاں لڑکے اور مرد و خواتین بیٹھے میری نگاہوں میں کسی بادشاہ کی اُولاد محسوس ہو رہے تھے اور خود ایک مفلس و قلاش اجنبی جو ایک اُمیدِ موہوم پر محوِ سفر تھا کہ شاید بھوک کی دو، روٹیوں کا سامان ہو جائے۔
کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟ اجنبی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ جی، بیٹھ جائیے۔ وہ صاحب بیٹھ گئے۔ دو چار منٹ تک وہ خاموش رہے۔ مجھے غافل پا کر توجہ لینے کی غرض سے گویا ہوئے۔ کہاں جانا ہے؟ جی، آر۔ اے بازار۔ اچھا، وہ توقریب ہی ہے۔ کیا کرتے ہو؟ پڑھتا ہوں، بی۔ اے کیا ہے۔ نوکری کی تلاش میں قسمت آزمانے آیا ہوں۔
اچھی بات ہے، کوشش کرنی چاہیے۔ میں بھی آر۔ اے بازار کے قریب رہتا ہوں۔ آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے سوال پوچھا۔ کچھ نہیں، عدالتوں میں سارا دن گزر جاتا ہے، ایک وکیل کا منشی ہوں، دو، چار سو روپے بن جاتے ہیں، گزارہ چل رہا ہے۔ باہم معلومات کے تبادلہ کے بعد اجنبی شخص نے میری ران پر دایاں ہاتھ رکھ دیا۔
میرے جسم میں برقی رو، دوڑ گئی، ایک دم جسم تن سا گیا۔ میں اجنبی کی عمر اور اس حرکت کا اندازہ کرنے کی جستجو میں تھا کہ اُس کا بایاں ہاتھ سرکتا ہوں میری ناف کے قریب آگیا۔ میں ناف سے اُس کا ہاتھ اُٹھانے کی غرض سے اپنا دایاں ہاتھ اُس کے دائیں ہاتھ پر جونہی رکھا، اُس نے میرے ہاتھ پر اپنا بایاں ہاتھ رکھ دیا۔ دس پندرہ سیکنڈ میں میرا عضو تناسل پوری توانائی سے بیدار ہو کر انگڑائیاں لینے لگا۔
میں عجیب کشمکش میں تھا، چاہتا تھا کہ ہاتھ اُٹھ جائے اور یہ بھی چاہتا تھا کہ نا، ہی اُٹھے۔ وہ شخص اس کام میں ماہر تھا، گاہک کو ٹیم کرنے اور متوجہ کرنے کی تجربہ کاری رکھتا تھا۔ اُس نے دائیں ہاتھ سے میرے عضؤ تناسل کی پیمایش کی، کہنے لگا: سائز تو بہت اچھا ہے۔ میں چُپ سادھے شاید دل میں سائز کے تسلی بخش ہونے کے فخریہ کمنٹ پر مسکرایا دیا۔ وہ صاحب کہنے لگا۔ قربیاً دس منٹ کی دوری پر میری دُکان ہے، وہاں چلتے ہیں۔ دو منٹ کا کام ہے، پھر تم جہاں جانا چاہو، چلے جانا۔
وہ شخص دائیں ہاتھ سے میرے عضو تناسل کی بیرونی جلد کو ہولے ہولے مسل رہا تھا اور بائیں ہاتھ سے میرے دونوں ہاتھوں کا حلقہ بنائے تھا کہ مسافروں کو ہاتھوں کے درمیان ہونے والی جنسی تلذذ کی خفیہ کارروائی کے بارے میں قطعاً علم نہ ہوسکے۔ مجھے محسوس ہوا کہ پانچ، دس سیکنڈ ہاتھ یونہی چلتا رہا تو میرا کام ہو جائے گا۔ اگر میں یونہی فارغ ہوگیا تو مادہ منویہ کی بھینی بھینی مہک سے پوری بس ہم دونوں کو پکڑ کر وہ مار، مارے گی کہ باہمی رضا مندی کی دیرینہ ہم جنسی خواہش عبرتِ دائمی بن جائے گی۔
میں نے فوراً، اُس شخص کا ہاتھ اُٹھایا اور ٹانگیں سُکیڑ کر، کُرسی کے ساتھ لگ گیا۔ دل میں خیال آیا کہ دو منٹ کا کام ہے، بندہ اتفافاً بےمول مل گیا ہے تو کیوں نہ دل خوش کر لیا جائے، پھر خیال آیا کہ یہ شہر ہے، پہلی دفعہ تم یہاں آئے ہو، ہوسکتا ہے یہ بندہ پیار سے بہکا کر لے جائے اور جو تم اِس کے ساتھ کرنا چاہ رہے ہو، وہی کچھ یہ صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر تمہارے ساتھ کر ڈالے تو تم کس کو منہ دکھاؤ گے۔
وہ شخص مجھے اپنا کارڈ دکھا کر تسلی کروا رہا تھا کہ میں کوئی فراڈیا نہیں ہوں، تم میرے ساتھ چلو، دو منٹ کی بات ہے۔ میں نے دل میں ارادہ کیا کہ اب یہاں بیٹھنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ کوٹ لکھپت کے اسٹیشن کی آواز سُن کر میں جلدی سے اُٹھا۔ اُس شخص نے میرا ہاتھ پکڑ لیا کہ تم یہاں کیوں اُتر رہے ہو، میرے ساتھ چلو، بس تھوڑا سا سفر رہ گیا ہے۔
میں ہاتھ چھڑا کر چلتی بس سے چھلانگ لگا کر سڑک پر آگرا۔ بس کے رینگنے کی وجہ سے مجھے چوٹ نہیں آئی لیکن دائیں گھٹنے پر سڑک کی سختی کو محسوس ضرور کیا۔ کافی دیر اسٹاپ پر بیٹھ کر سوچتا رہا کہ بال بال بچے ہو، تمہارے ساتھ جو ہونا تھا وہ پھر سارے زمانے نے دیکھنا تھا اور یقین کسی نے نہیں کرنا تھا۔
یہ ایک واقعہ ہے، اس طرح کے دسیوں واقعات میرے ساتھ پیش آچکے ہیں۔ لگتے ہاتھ ایک اور واقعہ سُن لیجیے۔ 2012 میں ایم فل کی سٹڈی کے دوران راولپنڈی ٹرین کے ذریعے اکثر جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ رات کے وقت ٹرین لیٹ ہونے سے ممکن تھا کہ فائنل ٹرم کا امتحان چھوٹ جائے گا۔ ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے انتظار کرتے جماہیاں لے رہا تھا۔ ایک خوش پوش، سفید ریش صاحب میرے پاس آکر رُکے، مجھے دیکھا اور کچھ محسوس کرنے کے بعد میری دائیں طرف بنچ پر بیٹھ گئے۔
کہاں جانا ہے؟ راولپنڈی۔ میں نے پشاور جانا ہے۔ ٹکٹ بک کروا لی۔ جی، کروا، لی ہے۔ اچھی بات ہے، چائے پیو گئے۔ یہ کہہ کر اُس نے چائے کا کپ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ میں نا، چاہتے ہوئے چائے قبول کی اور پینے لگا۔ وہ صاحب حال احوال کے تبادلہ کے بعد کہنے لگے، میں اکثر پشاور سے لاہور آتا جاتا رہتا ہوں۔ میری یہاں کافی جان پہچان ہے۔ میں نے برتھ والی سیٹ بھی بک کروا لی ہے۔ تم اُس پر لیٹ کر سو جانا، میں نیچے بیٹھ جاؤں گا۔ یہ میرا سامان ہے، میں نماز پڑھ کے آتا ہوں۔ تم یہیں بیٹھو۔ یہ کہہ کر وہ صاحب نماز کی ادائیگی کے لیے چل دئیے اور میں پریشانی کی عالم میں اُس کے سامان کی حفاظت میں مجبوراً مامور ہوگیا۔
دل میں کئی اندیشے اُبھرے کہ یہ شخص کہیں کسی واردات کی نیت سے نہ ہو۔ خیر، بیس منٹ بعد ہاتھ میں کچھ تھامے وہ صاحب آئے۔ چکن کے دو، پیس لائے۔ ایک مجھے دیا، دوسرا، خود کھانے لگے۔ کہنے لگے۔ تم بھوکے لگتے ہو، کھالو، راستہ لمبا ہے، ٹرین کا کھانا بڑا بے مزہ ہوتا ہے۔ میں نے بھوک نہ ہونے کا عذر تراشا لیکن اس شخص نے اصرار کرکے کھانے پر مجبور کر دیا۔
ٹرین چنگھاڑتی ہوئی اسٹیشن کے احاطے میں آ رُکی۔ آناً فاناً دھکم پیل سے گزر کر ہم اپنی مقررہ بکنگ والی سیٹس پر بیٹھ گئے۔ وہ شخص میرے ساتھ ہی بیٹھا۔ کہنے لگا، کوئی مسئلہ نہیں ہے، میں مینج کر لوں گا۔ تم اُوپر، برتھ سیٹ پر چلے جاؤ، ورنہ کوئی اور آکر اس پر قبضہ کر لے گا۔
میں اپنا سامان اُٹھا کر برتھ سیٹ پر چلا گیا۔ دو گھنٹے بعد جب ٹرین گوجرانولہ سے گزر رہی تھی۔ وہ صاحب برتھ سیٹ پر آگئے۔ میں اُٹھ گیا، مزید حال احوال کا باہم تبادلہ ہونے لگا۔ دورانِ گفتگو اُس شخص نے میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔ مجھے فوراً خیال آیا، لو، محسن میاں! یہ بھی وہی کہانی ہے۔ میں سہم گیا، خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔ اُس شخص نے دس منٹ میں پتہ نہیں کیا کِیا کہ میں نا، چاہتے ہوئے بھی اُس کی طرف متوجہ ہوگیا۔
اُس شخص نے میرا عضو تناسل پکڑا، کہنے لگا، سائز اچھا ہے۔ سائز کا ذکر سُن کر میں نے دل میں سوچا۔ کیا مصیبت ہے، میں تو اپنے آپ کو قریب قریب نامرد کے زمرے میں شمار کرتا ہوں اور سائز کو لے کر خاصا پریشان رہتا ہوں، یہاں جو بھی ملتا ہے، سائز اچھا ہے کا راگ الاپتا ہے۔ میں نے دل میں ارادہ کیا کہ میاں! یہاں سے نکلو۔
میں واش روم کے بہانے برتھ سیٹ سے نیچے اُترا۔ واش روم میں جا کر بیٹھ گیا۔ عضو تناسل پوری طرح بیدار تھا اور میری خواہش کے باوجود، اس کے تناؤ میں ذرا بھی کمی نہ آرہی تھی۔ باہر سے مسلسل کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا کہ باہر نکلو۔ میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ کئی خیال ذہن میں آئے تاہم حوصلہ کرکے گجرات کے اسٹیشن پر اُتر جانے کا فیصلہ کیا۔
واش روم سے باہر نکل کر مسافروں کے درمیان کھڑا رہا۔ جونہی اسٹیشن کے قریب آنے سے گاڑی نے رفتار کم کرنا شروع کی، میں برتھ سیٹ کے پاس گیا۔ تیزی سے اپنا بیگ نیچے لڑکھایا اور دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ وہ صاحب اچھل کر میری طرف دوڑے۔ ارے، بات تو سُن، یہ تو گجرات کا اسٹیشن ہے، پنڈی تو بہت دور ہے ابھی۔ یہاں مت اُترو، رات کے اس پہر میں کوئی گاڑی نہیں ملے گی۔
جیسے ہی گاڑی رُکی، میں نے چھلانگ لگا دی، بغیر دیکھے کہ وہ شخص میرا پیچھا کر رہا ہے، تیزی تیزی قدم اُٹھاتے لوگوں کی بھیڑ میں گم ہوگیا۔ اس کہانی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ جس طرح کئی مردوں نے اپنی "ہم جنس پرستی" یعنی "ہومو سیکشوئیل ڈیزائرز"پوری کرنے کے لیے مجھے ہراس کیا گیا، اسی طرح میں خود کئی بار اسی فعل میں اپنی عزت کو قریب قریب لٹواتے بچا ہوں۔
اس مفصل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ لواطت کی ہم جنس پرستانہ خواہش ہزاروں برس سے انسانوں میں موجود ہے۔ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ اس خواہش میں اضافہ ہوا ہے۔ پورن انڈسٹری نے اس خواہش کو باقاعدہ متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فی میل کے ساتھ جنسی ہراسانی اور زیادتی کے واقعات آئے روز رپورٹ ہوتے رہتے ہیں لیکن میل کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو مین اسٹریم میڈیا پر نشر کرنا ذاتی بے عزتی کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
ایک لڑکی جو پانچ سال کی عمر سے لے کر پندرہ سال کی عمر تک اگر پچاس دفعہ جنسی ہراسانی کی زَد میں آئی ہے تو پانچ سال کا بچہ جس نے پندرہ سال بعد اڈلٹ ہونا ہے وہ دو، سو مرتبہ جنسی ہراسانی و زیادتی کا شکار ہوتا ہے یا اس واردات میں مبتلا ہوتے ہوتے بچتا ہے۔ اس ٹیبو موضوعات پر لکھنا اور بات کرنا بہت مشکل ہے۔
اس موضوع پر لکھنے کے لیے آپ کو ذاتی تجربات کے ذریعے اپنی شخصیت کو کیس سٹڈی بنانا پڑتا ہے۔ پھر ہی آپ کی بات میں وزن اور صداقت کا عنصر نظر آئے گا۔ محض رپوٹس پڑھ لینے سے، سُنے سنائے فرضی واقعات کو بنیاد بنا کر بطور کیس سٹڈی مفروضہ قائم کرنےسے اصل صورتحال کو سامنے لانا بہت مشکل ہے۔
پورن سائٹس میں "اورل سیکس، گے سیکس، اڈلٹ سیکس، بلیک ڈِک سیکس، فرسٹ ٹائم سیکس، گروپ سیکس، بروٹل سیکس، بلیو جاب سیکس، شیل میل ٹرانس جینڈر سیکس" وغیرہ کی پُرکشش کیٹگیریز نے نوجوان نسل کو لواطت کے قبیح فعل میں مبتلا کرنے میں کلیدی کردار اداکیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے مفتیانِ اسلام سے اس موضوع سےمتعلقہ سیکڑوں سوالات پوچھے گئے ہیں کہ اپنی بیوی کے ساتھ "اورل سیکس" کر سکتے ہیں یا نہیں، عورت کی شرمگاہ چوم سکتے ہیں یا نہیں، مرد اپنے عضو تناسل کو اورل سیکس کے لیے استعمال کر سکتا ہے یا نہیں۔
مرد، عورت کا دُودھ پی سکتا ہے یا نہیں، مرد، عورت کے ہاتھ سے حمل کے دوران یا کسی مخصوص ایام میں ماسٹر بیشن کروا سکتا ہے یا نہیں، کیا عورت کو بیک سائڈ سے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں، مرد کا مرد سے رضامندی سے سیکس کرنا درست ہے یا نہیں، ایک دوسرے کے ہاتھ سے ماسٹر بیشن کا عمل جائزہے یا نہیں۔
جنسی آلات کی مدد سے جنسی تسکین حاصل جائز ہے یا نہیں، شادی سے پہلے سیکس کیا جا سکتا ہے یا نہیں، بیوی خاوند کی ناف کے نیچےکے بال صاف کر سکتی ہے یا نہیں، عورت کے منہ میں ڈسچارج ہونے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں، ڈسچارج ہونے کے بعد میاں بیوی گلے مل کر دیر تک لیٹ سکتے ہیں یا نہیں، سیکس کے دوران کچھ کھا پی سکتے ہیں یا نہیں، سُرعتِ انزال کی وجہ سے شہوت پکڑنے کے لیے پورن موویز سے مدد لی جاسکتی ہے یا نہیں، خاوند کی غیر موجودگی میں سیکس کی ضرورت کیسے پوری کی جائے، مانع حمل کے لیے ادوایات استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں، ٹائمنگ بڑھانے کے لیے عورت کو مختلف پوز میں دورانِ سیکس استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں، بیوی اگر میری مرضی کے پوز سے سیکس نہیں کرتے دیتی تو کیا میں اسے مار پیٹ سکتا ہوں یا نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
ظاہر ہے، علماء حضرات اور مفتیان کرام ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے گھبراتے ہیں اور حتیٰ الاامکان کوشش کرتے ہیں کہ شریعی قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ صورتحال کے مطابق ایسا جواب دیا جائے کہ اسلام کے قوانین پر بھی زَد نہ پڑے اور سائل کو تشفی بخش جواب بھی مل جائے۔ یہ عمل پُل صراط پر چلنے والا ہے، یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
سوال یہ ہےکہ پاکستانی معاشرے میں جہاں پورن انڈسٹری کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ وی پی این کے ذریعے ہر طرح کے سیکشوئیل پوز، کی وڈیوز بہترین کوالٹی (1080p. HD) میں دستیاب ہونے کی وجہ سے نوجوان نسل بُری طرح لواطت کے عمل میں مبتلا ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ ادارے اور حکامِ بالا، پورن انڈسٹری کے خلاف کوئی جامع منصوبہ بندی کیوں نہیں کرتے۔
نوجوان نسل کو یہ تحریک پورن سائٹس کی آسانی سے ایکسس کی صورت ملتی ہے جہاں یہ صاحبانِ عالی وقار جنسی خواہش کی تسکین کے لیے سیکس کرنے کے نت نئے طریقہ کار اور سیکشوئیل ٹولز کے استعمال کرنے کا فن سیکھ رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ آپ گھر بیٹھے آسانی سے چند منٹ میں" ایمازون، علی بابا، ٹیمو" وغیرہ شاپنگ ایپس پر سیکس سے متعلقہ آلات و ادویات کو خریدا جاسکتا ہے۔
سیکس کے لیے مرد جہاں عورت کو تلاش کرتا ہے وہاں عورت مرد کو تلاش کرنے میں سرگرداں ہے۔ یہ سہولت کافی حد تک"chato، we live، chatme، tinder، dating and chat، tango، lura، badoo dating app، pickup line، fit hersecret waplof وغیرہ نے پوری کر دی ہے۔ ان "ایپس" کے ذریعے فیک اکاؤنٹ بنا کر فرینڈ ریکوسٹ بھیجی جاتی ہے اور پھر دو، چار منٹ میں دونوں طرف سے ننگا ہو کر ایک دوسرے کی نگاہوں سے فل بٹا فل سکرینگ کی جاتی ہے اور خوب داد و تحسین کے بعد ڈیٹنگ کا وقت اور جگہ طے کیا جاتا ہے۔ کچھ "ایپس" پیڈ قسم کا گرما گرم مواد بھی فراہم کرتے ہیں جس سے یہ سہولت رہتی ہے کہ متعلقہ "ڈیٹڈ گرل"کی گھر تک رسائی ہو جاتی ہے۔ ایک وقت یہ دلال پُنا، ہیرا منڈی کی گلیوں تک محدود تھا، اب گلی گلی ان دلالوں کی مارکیٹیں اوپن ایکسس میں آن لائن دستیاب ہیں اور کوئی انھیں روکنے، ٹوکنے اور لگام ڈالنے والا نہیں ہے۔ مالِ مفت دل بے رحم والی مثل آج پاکستانی معاشرے پر صادق بیٹھتی ہے۔
چند نام نہاد ڈاکٹرز بھی اس کارِ بد، میں پوری طرح ملوث ہیں جو ماسٹر بیشن یعنی مُشت زنی یعنی مُٹھ مارنا، یعنی ہاتھ کے ذریعے عضو تناسل اور وجائنا سے "آرگیزم" حاصل کرنا یعنی جنسی تسکین حاصل کرنا درست، صحت مند اور جائز سمجھتے ہیں۔ ہفتے میں ایک بار ڈسچارج ہونا، ان نام نہاد ڈاکٹرز کے نزدیک صحت مندانہ عمل ہے۔ یوٹیوب پر گزشتہ چند برسوں سے اینڈرالوجسٹ، یورالوجسٹ، سیکس ایکسپرٹ، ماہر نفسیات اور ہربل نیم حکیموں نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ "ڈونکی آئل" سے لے کر"لمبا چلے گا" اور "چلتا ہی رہے"، تک فلٹر لگا کر ہزاروں وڈیوز، دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان وڈیوز کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے پاکستانی مردوں کا سب سے بڑا مسئلہ عضو تناسل کی لمبائی، موٹائی اور چوڑائی ہے جبکہ عورتوں کی سب سے بڑی پریشانی عضو تناسل کے تناؤ کا ڈھیلا پن، سُست روی، یعنی پری میچور ای جیکولیشن یعنی ٹائمنگ کا تسلی بخش نہ ہونا ہے۔
عجب تماشا ہے کہ اب خواتین مردوں کو بتا رہی ہیں کہ ٹائمنگ کس طرح بڑھائی جاسکتی ہے۔ چند دن یہ تماشا جاری رہا تو "سیکس ایڈوائزز" کلینک بنا کر باقاعدہ ٹائمنگ بڑھانے اور میٹنگ کے عمل کو کامیاب بنانے کے لیے "پیڈ ریہرسل" کروانا شروع کر دیں گے جس سے قومِ لوط باقاعدہ استفادہ کرے گی۔
دُنیا بدل چکی۔ اب آپ خود کو ایک کنویں کے مینڈک کی حیثیت سے ٹریٹ نہیں کر سکتے۔ ایلون مسک کے "ٹیسلا موبائل" کی لانچنگ کے بعد دُنیا میں زمینی انٹرینٹ کا نظام متروک ہو جائے گا۔ ایسے میں جب کسی ملک کی حکومت کے پاس کوئی اختیار نہ رہے گا کہ ڈیٹا کی "شئیرنگ، سرچنگ، براؤزنگ، ڈاؤن لونڈنگ اور آپ لوڈنگ" میں کوئی "فائر وال" اور "رسٹرکیشن" لگا سکے۔ بے بسی اور لاچاری کے اس عالم میں پاکستانی حکومت اپنے مستقبل کو بچانے کے لیے کون سے اقدامات کر سکے گی، اس پر سوچنے اور کچھ کر گزرنےکی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے۔
پاکستان میں سیکس ایجوکیشن کی شدید ضرورت ہے۔ ہمیں قدامت پسندی کے بُت توڑ کر جدت میں قدم رکھنا ہوگا۔ سیکس ایجوکیشن کے ذریعے پورن انڈسٹری کی یلغار کو لگام ڈالی جاسکتی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو جنسی ہراسانی و زیادتی سے فقط اسی صورت بچا سکتے ہیں جب انھیں باقاعدہ سیکس ایجوکیشن دیں گے۔ بچوں کو اس بات کا شعور دلائیں گے کہ سیکس کیا ہوتا ہے، اس کی ضرورت اور صلاحیت رب تعالیٰ نے انسانی جسم میں کیوں رکھی ہے؟ اس کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟
پرائیوٹ پارٹس پیشاپ اور فضلہ کے اخرج کے علاوہ اور کیا امور انجام دیتے ہیں؟ انسان اڈلٹ ہونے کے بعد اپنے جسم میں کون سی فطری تبدیلیاں محسوس کرتا ہے؟ بچے کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ عضو تناسل اور وجائنا کے تناؤ کی فطری خواہش سے لے کر حمل ٹھہرنے تک کے جملہ معاملات کا درست اور شریعی استعمال کیسے کیا جاتا ہے؟ اسلامی و ملکی قوانین کے مطابق مرد عورت کا باہم سیکس کیسے کر سکتے ہیں؟ شادی کیوں کی جاتی ہے؟
شادی کرنے اور نہ کرنے، شادی کے بغیر سیکس کرنے اور شادی کرکے سیکس کرنے کے کیا فوائد و نقصانات ہیں؟ زنا بالجبر کی سزا کیا ہے، کسی کی خواہش کے بغیر سیکس کرنے کے کیا نقصانات ہوتے ہیں؟ ریپ کرنے سے کون سے سزا ملتی ہے؟ اگر کوئی آپ کے پرائیوٹ پارٹس کو ٹچ کرے تو اس وقت کیا کرنا چاہیے؟ بُری اور گندی نگاہ سے دیکھنے والے کی شکایت کیسے کی جائے؟ سیکس وڈیوز دیکھنے اور ماسٹر بیشن کرنےکےکیا نقصانات ہوتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔۔
سیکس ایجوکیشن کے بغیر مذکورہ ابتدائی نوعیت کے سوالات کے جوابات کی آگہی ناممکن ہے۔ پرائیوٹ پارٹس کی اہمیت و افادیت اور ان کی حفاظت اور ان کے غلط استعمال کے نقصانات کے بارے میں آگاہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے۔ اگر ہم نے سیکس ایجوکیشن کو مدرسوں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں وغیرہ کے نصاب کا حصہ نہ بنایا تو پھر قوم کی اخلاقی و بدنی و تعمیری بربادی کی ذمہ دار وہ لوگ ہوں گے جو یہ کام کر سکتے تھے اور انھوں نے جان بوجھ کر بھاری پتھر سمجھتے ہوئے اس فرض کو ادا نہیں کیا۔
ذرا سوچیے! کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے بچیاں بھی میری طرح فقط خوبصورت جسم ہونےکی وجہ سے جنسی ہراسانی و زیادتی کا شکار ہو تے رہیں اور جب وقت ملے تو خود اس مرض کی لت میں بُری طرح مبتلا ہو جائیں اور ہوش میں آنے کے بعد یہ پتہ چلے کہ میں تو اپنا سب کچھ گنوا چکا ہوں اور میرے پاس کچھ بھی نہیں بچا ہے۔
سب کچھ جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی اگر ہم اپنے بچوں کو تباہ ہونے کے لیے بے لگام چھوڑ دیں گے تو وہ وقت دور جب قومِ نوح کی طرح ہم بہ حیثیتِ قوم اس قبیح و مذموم فعلِ بد کی سزا میں دوسری اقوام کے لیے عبرت بنا دئیے جائیں۔ خدارا! ہوش میں آئیے اور اپنے حصے کی شمع اس اندھیر نگری میں جلاتے جائیے۔